پشتو شعرا میں بڑے بڑے نام گذرے
ہیں اور ان کے کلاموں کو انتہائی قدرمندی کا درجہ حاصل ہے۔میں ذاتی طور پر
مسلمانوں کی حالت زار میں سب سے زیادہ پختونوں کیساتھ ہونے والے ظلموں اور
انکے خلاف ہونے والی سازشوں کو بڑی سنجیدگی سے اس لئے لیتا ہوں کیونکہ
اسلام کے نام پر انھیں بڑی آسانی سے استعمال کرلیا جاتا ہے اورپختون معاشرے
کی کچھ روایات بھی ایسی ہیں کہ وہ حقایق کو پرکھے بغیر عمل بھی شروع کردیتے
ہیں اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس پر اعتراض اگر کسی عالم شخصیت کے
بجائے کسی اور نے کردیا تو پھر معاشرے میں اس کا جینا بڑا مشکل ہو جاتا
ہے۔عینی مروت ایک ایسی پختون خاتون کا نام ہے جس کے دل میں احساس اور اپنی
قوم سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔وہ ایک چھوٹی پختون بچی کی آہ و فریاد
اس طرح بیان کرتی ہے کہ دل خون کے آنسو رو پڑتا ہے ، پختون بچی اپنے والد
سے کہتی ہے کہ میں کتنی بد نصیب ہوں بابا،اگر چہ (چہرے پر) دو بڑی بڑی
آنکھیں رکھتی ہوں ، میرے آس پاس علم و حکمت کی کرنیں بکھری پڑی ہیں ، لیکن
میری بینائی کام نہیں کرتی ، میرے افکار نا بینا ہیں بابا ، میرا شعور
جہالت کے گھپ اندھیروں میں گم ہے ، میرا ہنر ایک قیمتی گوہر کی مانند تھا ،
آج غیرت کے نام پر اور فرسودہ رسوم و رواج کے ہاتھوں مٹی میں رل گیا۔کس قدر
بد نصیب ہوں بابا۔۔ کہ پروردگار ِ عالم نے مجھے گفتار کی صلاحیت سے نوازا
ہے ، منہ میں زبان رکھتی ہوں لیکن کلام کرنے کا حوصلہ نہیں۔دل میں علم کی
بے پناہ محبت ہے لیکن بد قسمت پختون ہوں کہ کوئی معلم ؍رہنما نہیں زندگی
میں ، اگر دریائے جہالت میں ڈولتا ہو یہ ذہن پھر سے غرقاب ہوجائے اور علم
کا دیا روشن نہ ہوپائے تو اے بابا ۔۔ اپنی اس نابینا بیٹی کو شہرخموشاں لے
جانا اور دور ِ جہالت کی ایک روایت کی پیروی میں میرے لئے بھی ایک قبر کھود
لینا بابا۔ جب آپ میرے بے شعور ذہن اور میری بے مقصد زندگی کی تاریکیوں کو
علم کی تابانی سے منور نہیں کرسکتے تو ، میرے عزیز بابا، میرے لئے ایک قبر
تیار کردینا اور لحد کی تاریکی میں زندہ دفن کرکے چھوڑ آنا ۔۔
کہنے کو تو یہ ایک پختون بچی کا نوحہ ہے لیکن اصل میں یہ عالم اسلام کی
تمام بچیوں کی آہ و فریاد ہے۔حالات کی ستم ظریفی ہے کہ اسلام وروایات کا
نام لیکر فرسودہ رسوم کے تحت ہماری بچیوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں
ان پر کسی کی آنکھ اشکبار نہیں ہوتی۔سوات میں لڑکوں کے چار سو بیالیس جبکہ
لڑکیوں کے چار سو تیس اسکول ہیں 48 فیصد لڑکیوں کا رجسٹر میں اندراج ہوتا
ہے جبکہ صرف دو فیصد لڑکیاں ہی اعلی تعلیم حاصل کر پاتی ہیں۔سوات میں
خواتین کی تعلیم خیبر پختونخوا کے دیگر حصوں کی بہ نسبت زیادہ ہے کچھ عرصہ
قبل لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی عائد کردی گئی تھی لیکن سوات میں
بتدریج امن آنے کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو پڑھانے کے رجحان میں قدرے اضافہ ہو
رہا ہے ، گو کہ یہ رفتار انتہائی سست ہے لیکن ماضی کے مقابلے میں ایسے
اطمینان بخش نہ سہی لیکن حوصلہ افزا ضرور کہا جاسکتا ہے۔
مایوس کن صورتحال یہ بھی ہے کہ کہ پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول ہی
نہیں جاتے یہ تعداد دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر آتی ہے۔ ایجوکیشن فار آل
گلوبل مانیڑنگ رپورٹ کے مطابق اسکول نہ جانے والے بچوں کی کل تعداد کا دو
تہائی بچیوں پر مشتمل ہے۔پاکستان کے شمال مغرب علاقوں میں شدت پسندوں نے
بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم اور ان کی اسکولوں کو اپنے غیض و غصب کا نشانہ
بناتے ہوئے سینکڑوں اسکول ملیامیٹ کردیئے۔مثال کے طور پر ملاکنڈ ڈویژن میں
شدت پسندوں نے ایک سو چونسٹھ اسکولوں کی عمارتوں کو مکمل طور تباہ کیا ان
میں سے ایک سو چار اسکول لڑکیوں کیلئے مخصوص تھے۔صرف خیبر پختونخوا میں
25لاکھ بچے ایسے ہیں جو مختلف وجوہات کی بنا پر اسکول نہیں جا پاتے۔منگورہ
کی بارہ یونین کونسل میں سے تین کا سروے کیا گیا تو پتہ چلا کہ تین ہزار
پانچ سو بچے ورکشاپوں اور ہوٹلوں میں کام کرتے ہیں یا کچرا اٹھاتے ہیں ،
تعلیم سے محروم ان بچوں میں لڑکیوں کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔
افغانستان میں ایک سازش کے تحت ایک اسکول کی بچیوں کو زہر دیا گیا جس کی
وجہ سے انہوں نے چیخ و پکار مچا دی تھی گذشتہ سال اس واقعے میں افغانستان
کے وزیر تعلیم نے الٹا دہمکی دی تھی کہ اگر کسی بچی نے مبینہ طور پر زہر
دئے جانے کی بات کی تو ایسے سزا دی جائے گی۔2008میں افغانستان کے ایک دیہی
علاقے میں رضیہ جان نامی خاتون نے لڑکیوں کی تعلیم کیلئے ایک اسکول زیبولی
ایجوکشن سینٹر کی بنیاد رکھی جس میں 400لڑکیاں پڑھتی ہیں۔افغانستان میں
1996ء سے2001ء تک لڑکوں کے اسکول جانے پر پابندی عائد کردی گئی تھی لیکن اب
وہاں بھی لڑکیوں میں تعلیم دلانے کا شعور پیدا ہو رہا ہے۔ویسے تو پاکستان
اور افغانستان میں تعلیمی اداروں کا جائزہ لیں تو حالات گردگوں ہی نظر آتے
ہیں لیکن یہاں میں نے ایک ایسی پختون بچی کے نوحے سے بات شروع کی جیسے
حکومت کچھ نہیں دے پا رہی ، کراچی جیسے شہرمیں پختون آبادیوں میں لڑکیوں کے
اسکول نہیں ہیں ، کٹی پہاڑی جس کی وجہ شہرت کچھ بھی ہو یہاں ایک بھی سرکاری
اسکول نہیں ہے ، کراچی میں جس جس پختون آبادی کا ذکر کرتا چلا جاؤں تویہ
سوال ان لوگ سے پوچھتا ہوں کہ شدت پسندی کے خلاف باتیں تو بہت کی جاتی ہیں
، مدارس کے خلاف بولا تو بہت جاتا ہے لیکن ان آبادیوں کو بلدیاتی سہولیات
کیوں فراہم نہیں کی جاتی ۔ یہ قدیم آبادیاں ہیں ، پاکستان کی تشکیل سے پہلے
سے یہاں انسان آباد ہیں لیکن زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔ شائد
کسی کوحیرانی نہ ہو کہ اب تو قبرستانوں میں بھی قومیت کے نام پر مرُدے دفن
کئے جاتے ہیں۔ فلاں قومیت کا قبرستان ہے فلاں برادری کا قبرستان ہے فلاں
کیمونٹی کا قبرستان ہے۔اب تو مرنے والوں میں بھی لسانیت اور صوبائیت پیدا
کی جاچکی ہے ۔ مر کر بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے ۔ قصہ پارنیہ بن گیا۔
پختون ایک غیورقوم ہے ، وہ مادہ پرست نہیں ہے وہ بنیاد پرست بھی نہیں ہے
بلکہ وہ محبت کرنے والی ، بہادر ایماندار اور وفادار قوم ہے ۔ لیکن بدقسمتی
سے ان کے حقوق انھیں نہیں ملتے جس بنا پر نوجوان نسل غلط راستے اختیار کر
لیتی ہے ، بچیاں گھر بیٹھے رہ جاتی ہیں ، وہ لڑکوں کو تعلیم نہیں دے پاتے
لڑکیوں کو کیا دیں گے ۔ مجبوری ہے ورنہ جس قوم کی بچیوں نے دنیا بھر میں
موقع ملنے پر نام روشن کئے وہ کیا نہیں کرسکتی ۔ بلا شبہ ہمارا معاشرہ کچھ
ایسا تنگ نظر بھی ہے کہ والدین بے ہودہ معاشرے کی وجہ سے اپنی بچیوں کی
حفاظت کے نام پر کچھ ایسی سختیاں اختیار کرلیتے ہیں جنھیں لوگ قدامت پسند ی
قرار دیتے ہیں۔لیکن پختون مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں تعلیم نہ ہونے کے
باوجود ایسے غیور نوجوانوں کی تربیت کرتی ہیں کہ روس ٹکڑے ٹکڑے اور امریکہ
ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوجاتا ہے۔
میں عینی مروت کے سامنے شرمندہ ہوں کہ ہم اپنی قوم کی بچیوں کو اس کا حق
نہیں دلا سکے آج وہ ہم سے گلہ کرتی ہیں کہ ان کا بھی کچھ حق ہے لیکن ہم نے
اپنے خود ساختہ رسم و رواجوں میں ان کو بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ غیرت کے نام پر
ہم اپنی قربانی نہیں دیتے بلکہ خود کو مقدس گائے سمجھتے ہیں۔ میری بچی تم
نابینا نہیں ہو بلکہ یہ دنیا نابینا ہے جو دیکھ کر بھی کچھ نہیں دیکھ پا
رہی ، ایسے صرف وہی نظر آرہا ہے جس رنگ کی عینک پہنے ہوئے ہیں۔ میری بچی
میں تعلیم کے نام پر بے حیائی کا مخالف ہوں ، حیا کے نام پر بے پردگی کا
مخالف ہوں کیونکہ یہاں انسان نہیں گدھ رہتے ہیں ، ورنہ میری بچی کیا تم نے
مکہ میں طوائف کرتے ہوئے پردہ دیکھا ہے ۔ یہ معاشرہ ہی ایسا ہے کہ ہمیں
اپنی عزت کی حفاظت کیلئے سینے پر گولیاں بھی کھانی پڑتی ہیں اور اپنی عزت
کی جانب گندے ہاتھوں کو روکنے کیلئے ایسے چھلنی بھی کرنا پڑتا ہے ، میری
پختون بچی صرف تم ہی مظلوم نہیں ہو ، یہاں ہر قوم کی بچی مظلوم ہے ، لیکن
کیا کریں ، ان کو قلم ، بستے اسکول نہیں بلکہ ہتھیار اور ٹینک دئیے جاتے
ہیں۔نہیں بیٹی ۔ نہیں میں تمھیں شہر خموشاں میں غلط روایتوں کی آڑ لیکر دفن
نہیں کرسکتا ، میں فرسودہ رسوم کا سہارا لیکر اپنی پگڑی اونچی نہیں کرسکتا
۔ یہ علم کی روشنی کسی فرد کی میراث نہیں ہے ۔ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ جب
تاریخ میں پختون بچیوں کے شانہ بہ شانہ مرد نہیں بلکہ دوسری قومیت کی بچیاں
کھڑی ہوکر اپنا حق استعمال کریں گی۔ |