میرے سامنے مقامی اخبار پڑے ہوئے ہیں اور آج کے اخباروں
میں نلتر ہیلی کاپٹر حادثہ کی خبریں نمایاں ہیں ۔جمعہ کو ہونے والے اس
حادثے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی ۔ستم ظریفی دیکھئے
کہ اسی لحمے بھارت کا میڈیا نلتر میں ہونے والے اس حادثے کے بارے گمراہ کن
پروپگنڈہ کرنے میں مصروف عمل تھا جبکہ یہاں کے مقامی آبادی کوحادثے کی خبر
تک نہیں تھی۔بھارت کے اس منفی پروپگندے کو بغیر تحقیق کے چند عناصر سوشل
میڈیا کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ یہ کسی تخریب
کاری کا نتیجہ ہے۔سوشل میڈیا میں کچھ اس قسم کی خبریں دیکھنے کو ملی۔آج
نلتر میں ہونے والا حادثہ واقعی حادثہ ہے یا گریٹ گیم کا حصہ۔۔ایک اور خبر
کچھ اس طرح سے ہے ۔نلتر میں ہیلی کاپٹر کی تخریب کاری تحریک طالبان نے قبول
کی۔۔ایک خبر اس طرح سے ہے کہ نواز شریف وزیر آعظم پاکستان کے دورے کو سبو
تاز کرنے کی سازش اور خبر یہ تھی کہ جس وقت یہ حادثہ پیش آیا اس وقت وزیر
آعظم پاکستان بھی نلتر کے لئے روانہ ہوچکے تھے۔۔۔کچھ لوگوں نے اسے مقامی
آبادی اور حکومت کے درمیان زمینی تنازے سے جوڑا جو کافی عرصے سے چلا آرہا
ہے اور بقول ان خبروں کے کہ نواز شریف اپنے اس دورے میں ان تمام زمینوں کو
ایک تفریحی پارک میں تبدیل کرنے کا اعلان کرنے والے تھے۔۔۔ بلا ہو آئی ایس
پی آر اور وزیر دفاع کا جنہوں نے بر وقت پریس ریلز جاری کر کے ان تما م
خبروں کو بے بنیاد اور حادثے کو فنی خرابی قرار دیا۔۔اب تک کی اطلاع کے
مطابق نلتر فوجی ہیلی کاپٹر حادثے میں دو غیر ملکی سفیروں سمیت سات افراد
جاں بحق جس میں انڈونیشیا اور ملایشیا کے سفیروں کی بیگمات بھی شامل ہیں
۔اس کے علاوہ لبنان، پولینڈ ،انڈونیشیا ،رومانیہ اور جنوبی افریقہ کے سفیر
وں سمیت دس افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔۔۔اس واقعہ کے بعد وزیر آعظم
پاکستان اور جنرل راحیل شریف سمیت ملکی اور دیگر عالمی لیڈروں کا سوگواروں
کے ساتھ اظہار ہمدردی اور افسوس کے پیغامات کے علاوہ وزیر آعظم پاکستان کی
طرف سے ایک روزہ سوگ کا اعلان کرتے ہوئے چیئر لفٹ کا افتتاح کا پروگرام
ملتوی کر دیا ہے جبکہ مسلم لیگ گلگت نے تین روزہ سوگ کا اعلان کر دیا ہے
گلگت بلتستان میں فضائی حادثوں کی تاریخ پر نظر پڑتی ہے تو پی آئی اے
کافوکر جہاز جو گلگت سے راولپنڈی جاتے ہوئے لا پتہ ہوا تھا جس میں سینتیس
مسافر سوار تھے سب حادثے کا شکار ہوئے تھے اس حاڈثے کے بعد نلتر کا ہیلی
کاپٹر کا حادثہ نہایت ہی افسوناک اور قیمیتی انسانی جانوں کا نقصان ہے جس
کا جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔۔ نلتر گلگت سے تقریباً بیالیس کلومیٹر کے
فاصلے پر واقع ہے اور زمانہ قدیم ہی سے سیاحوں کا توجہ کا مرکز رہا ہے اور
گرمیوں کے موسم میں یہاں سیاحوں کی کثیر تعداد دیکھنے کو ملتی ہے اس کے
علاوہ پاکستان سیکی فیڈریشن آف پاکستان کی طرف سے لگایا گیا سیکی لفٹ اسی
خوبصورت اور دلکش سیرگاہی مقام میں قائم ہے جہاں سے پاکستان ائیر فورس اور
پاک آرمی کے علاوہ غیر ملکی بھی سیکینگ کی تربیت حاصل کرتے ہیں ۔۔اس کے
علاوہ چائنا حکومت کے تعاون سے قائم ہونے والا ہائیڈل پاور پراجیکیٹ جو
گلگت شہر کو بجلی سپلائی کرتا ہے اسی سیاحتی مقام پر واقع ہے ۔ یہاں بسنے
والی آبادی گجرات نسل اور مسلکی اعتبار سے اہل سنت سے تعلق رکھتی ہے ۔
نلتر تک پہنچنے کے لئے نومل سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ جہاں اثنا عشری کی
آبادی بستی ہے۔۔ اس محل وقوع کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اوپر درج دو
جھوٹی خبریں زمین کا تنازعہ اور تحریک طالبان کی ذمہ داری قبول کرنے کی خبر
اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ گلگت بلتستان میں را کے ایجنٹ بڑے سرگرم عمل
ہیں اور وہ کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جس میں مقامی آبادی کو
فرقہ واریت کی طرف نہ لے جایا جائے ۔اب تک گلگت بلتستان میں جتنے بھی
حاڈثات رونما ہوئے ہیں ان کے پیچھے یہی چیز کار فرما نظر آتی ہے کہ ان
علاقوں میں بسنے والے افراد کو فرقہ واریت کی نہ ختم ہونے والی آگ میں
دھکیلا جائے اور ان علاقوں میں معاشی ترقی کا پہیہ جام ہو جائے۔ خاص کر
پاکستان اور چین کے بڑھتے ہوئے تعلعقات بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ اور
حال ہی میں طے پانے والا پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کے بد
خوہوں کے لئے ایک ایٹم بم سے کم نہیں ۔ اس امر سے کسی کو انکار ہو ہی نہیں
سکتا کہ گلگت بلتستان کی سٹریٹیجک اہمیت بہت زیادہ ہے اور حالیہ پاک چین
راہداری منصوبے میں شاہراہ قراقرم کی توسیع اور ریلوے ٹریک اس کا منہ بولتا
ثبوت ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ را کے ان ایجنٹوں کو بے نقاب کیا جائے جو
اس قسم کی کاروائیوں اور منفی پروپگنڈے میں بھارت کے آلہ کار کے طور پر
کام کرتے ہیں اور بھائی چارے کی فضا کو خراب کر کے اپنے مذموم مقاصد حاصل
کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ |