اللہ نے دنیا میں سب سے اچھی مخلوق انسان کو بنایا انسان
دنیا ميں اللہ کا نائب ہے تمام مخلوقات میں اسے اشرف المخلوقات کا لقب دیا
گیا ہے، انسانوں کو گروہوں اور فرقوں میں بنایا تاکہ وہ ایک دوسرے کو پہچان
سکیں، پھر انسانوں میں جو رشتے قائم ہوئے ان میں ماں، باپ، بھائی، بہن، چچا،
چچی، ماموں، ممانی، خالہ، خالو، تایا، تائی، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ
بنائے، ان سب ميں ایک رشتہ ایسا بھی ہے جو اس نے محبت، پیار اور شفقت کی
مٹھاس کے ساتھ بنایا، وہ رشتہ جسے اللہ نے ماں کا نام اور ممتا کا روپ دیا،
ماں اک ایسا لفظ جس سے اس کائنات میں بسنے والا ہر بشر واقف ہے نہ صرف واقف
بلکہ اسکی محبّت سے آشنا بھی ہے الله رب العزت نے فرمایا ہے کہ ماں کے
قدموں تلے جنّت ہے جس ہستی کے قدموں تلے جنّت رکھ دی گئی ہو اس کے سر کی
کتنی عزت کتنا احترم ہو گا ماں کی محبّت جس کی شیرینی سے ہر انسان لطف
اندوز ہوتا ہے تو دوسری جانب ماں لفظ جب پکارا جاتا ہے تو دونوں ہونٹ آپس
میں مل کر محبّت سے احترم سے اس لفظ کو چوم لیتے ہیں ماں الله رب العزت کی
جانب سے اک ایسا کرشمہ حیات ہے جس کے بنا یہ زندگی اور ہر انسان ادھورا ہے.
ماں کی تعریف نہ تو لفظوں میں بیان کی جا سکتی ہے نہ انسان اسے تحریر کرنے
کی صلاحیت رکھتا ہے انسان تو اتنا نہ اہل اور بےبس ہے کے اپنی پوری زندگی
ماں کے قدموں کی خاک بن کر بھی گزار دے تو اس اک رات کا قرض نہیں اتار سکتا
جس وقت ماں اپنی اولاد کو سوکھے اور خود گیلے پر سوتی ہے بلکہ ہم تو اتنے
بےبس ہیں ہیں کے دودھ کے اک قطرے کا بھی قرض اتارنے کے قابل نہیں ۔ ماں خود
تو تکلیف سہہ سکتی ہے مگر اسے یہ ہر گز گوارہ نہیں کہ اس کے بچے کو ایک
کانٹا بھی چبھے۔ قرآنِ مجید میں بھی بے شمار بار ماں کی حرمت پر تلقین کی
گئی ہے۔ماں کے متعلق تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ اگر ایک مسلمان بچے کی ماں
کافر ہوتو اس سے بھی حسنِ سلوک سے پیش آیا جائے کہیں دل آزاری نہ ہو جائے۔
ماں تاریخ اندھیرے میں روشن چراغ کی کرن، ماں تپتے صحرا میں چاند کی ٹھنڈک،
ماں ہوا کا جھونکا، ماں بنجر زمین میں بارش کی بوند، ماں بیٹی کے سر کی
چادر، ماں روتے بلکتے بچے کی لوری، ماں مصیبتوں کی ڈھال ، ماں گھر کی ملکہ
، ماں اک دعا، ماں کو مسکرا کر دیکھنا ایک مقبول حج کا ثواب ۔شاعر نے کیا
خوب کہا ہے۔
ماں کی ممتا، چھاؤں گھنیری، ٹھاٹھیں مارتی رحمت
ماں اک ایسی ہستی جس کے پاؤں تلے ہے جنت
ماں کی نظر میں چمکے ہر دم چاہت کا اک نور
خوش قسمت انسان وہی ہے ملی یہ جس کو راحت
ماں کو ہم جس روپ میں بھی دیکھنا چاہیں ا س کا ہر روپ ہمیں انوکھا اور
نرالا نظر ا ٓتا ہے ۔اس کو اگر ہم محبت و شفقت کے روپ میں دیکھیں تو دنیا
میں اس سے بڑھ کر کوئی محبت کر نے والا نہیں ہے ۔اس کو رشتوں کے باب میں
دیکھیں تو کوئی رشتہ اس کا ہمسر نہیں ہے۔ اس کو ہم دوستی کی شکل میں دیکھیں
تو اس سے بڑھ کر کوئی دوست نہیں ہے ۔ اور اگر ہم اس کو ہمدرد اور غمخوار کے
روپ میں پرکھنا چاہیں تو ماں سے بڑھ کر کوئی ہمدرد و غمخوار نہیں ہوتا ۔
ماں کی خدمت و اطاعت دنیا میں باعث رحمت و برکت اور آخرت میں ذریعہ نجات ہے
۔ماں کی فرمانبرداری کر نے والا جنت میں اور نا فرمانی کر نے والا جہنم میں
داخل کیا جائے گا ۔جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ماں کی قدر کم ہوتی گئی، وہ بچہ
جو کبھی ماں کی انگلی تھامے پہلا قدم لیتا تھا آج وہی بچہ بڑا ہو گیا ہے،
ماں کا پیار آج بھی وہی ہے مگر اب اولاد کے لئے وہی پیار گھٹن بنتا جا رہا
ہے، بچپن میں ماں کے ہاتھ سے روٹی کھانے والا بچہ آج اسی ماں کے آگے
انگلیوں کے اشاروں سے بدتمیزیاں کر رہا ہے۔ کل جو بچہ اپنی ماں کی آغوش میں
سکون محسوس کرتاتھا آج وہی بچہ اپنی ماں کو دکھوں کے پہاڑ دے رہا ہے، کل جب
وہ بچہ چھوٹا تھا تو اپنے بالوں کی مالش کرواتا، کبھی بالوں کو تیل لگواتا
اور وہی بچہ آج اگر ماں اس کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھ دے تو کہتا ہے کہ
آپ نے میرا ہئیر سٹائل خراب کر دیا ۔ کیا یہ سب اس لئے ہوا کہ ماں کا پیار
بدل گیا؟ ہر گز نہیں ماں توآج بھی وہی ہے۔ غلط تو ہم اولاد ہیں، ہم نے اپنے
ماں باپ بالخصوص ماں کے پیار پر ہی شک کرنا شروع کر دیا ہے۔ آج کے بچے یہ
بھول گئے ہیں کہ کتنی تکلیف برداشت کی تھی اس ماں نے جب اس کے دنیا میں آنے
کا وقت ہوا تھا، آج کا بچہ یہ بھول گیا ہے کہ کیسے اس کی ماں نے اپنی تمام
خواہشات کو، اپنی خوشیوں کو دفن کر دیا صرف اس لئے کہ میرے بچے کی زندگی
سنور جائے، اس ماں نے کبھی دنیا سے لڑائی کی تو کبھی خود اپنے شوہر کے آگے
کھڑی ہوئی کہ مجھے اپنے بچے کا مستقبل روشن بنانا ہے، میرا بچہ کبھی بھی
اداس نہ ہو، میرے بچے کی ہر خواہش پوری ہونی چاہئے، مگر دوسری طرف آج کا
بچہ ایک ناجائز ضد کی خاطر اپنی ماں کو یہ کہتا ہوا زرہ برابر بھی نہیں
جھجھکتا کہ اے ماں!تو نے میرے لئے کیا ہی کیا ہے؟
ماں کی عظمت دیکھنی ہے تو دیکھئے ماں کی خدمت کے عوض حضرت اویس قرنی رضی اﷲ
عنہ کو جو بلند مقام عطا ہوا اس کا اندازہ بھی ہم جیسے دنیادار نہیں
لگاسکتے۔ اگرچہ انہیں حضورنبی کریمﷺ کا ظاہری دیدار اور صحبت میسر نہ آئی
تھی مگر پھر بھی ان کے مقام ومرتبہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے
کہ حضورﷺ اپنی صحبت میں رہنے والے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے حضرت اویس
قرنی رضی اﷲ عنہ کے فضائل اور درجات بیان فرمایا کرتے تھے۔حضوراکرم ﷺ صحابہ
کرام رضی اﷲ عنہم کو بتاتے تھے کہ میرے اویس کی یہ علامت ہے کہ اس کے ہاتھ
پر داغ ہے اور اس کا مقام یہ ہے کہ اس کی دعا سے میرے لاکھوں امتیوں کی
بخشش و شفاعت ہوگی.ماں کی عظمت اسلام میں جس طرح بیان کی گئی ہے وہ کسی
مذہب میں نہیں ملتی۔ ھمارا مذہب ہمیں سکھاتا ہے کہ ماں باپ کی خدمت کرنے سے
جنت ملتی ہے اور انہیں محبت کی نظر سے دیکھنے سے ایک حج کا ثواب ملتا ہے۔
ماں کے پیار کا کوئی نعم البدل ہے اور نہ ہی ہوگا۔ جن کی مائیں موجود ہیں
اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے کہ وہ ان کی خدمت کرکے جنت کمائیں اور جو اس
نعمت سے محروم ہیں اللہ تعالیٰ انہیں دعا کی توفیق دے کہ وہ اپنی جنتوں
کیلئے جنت اور درجات کی بلندی کیلئے دعا کریں۔ماں وہ جنتی میوا ہے جو اللہ
تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس دنیا میں عنایت فرمایا ہے یارب العزت میری ماں کو
اپنی پناہ میں لے اور اسے تمام تکلیفوں سے بچا اس دنیا میں اور آخرت میں
اعلی درجات نصیب عطا فرما۔ آمین
”والدہ ، اُم ، امی ، مادر ، ماں“ترے ہی نام ہیں
تجھ پہ سب قربان ، روح و جاں ترے ہی نام ہیں |