’’ماں․ ․ ․ ․ ․ ․ یعنی محبت ،احسانات، احساسات، خوبیوں اور جذبات کابے مثال مجموعہ ہے

؂ لبوں پہ اسکے کبھی بد دعا نہیں ہوتی بس ایک ماں ہے جو کبھی خفا نہیں ہوتی
جب بھی ماں کا لفظ منہ سے نکلتا ہے ایسے لگتا ہے جیسے ساری دنیا کی محبت ہمارے آس پاس بکھر گئی ہو .جیسے کڑی دھوپ میں سایہ مل گیا ہو یا پھر کسی خطرناک سمندر کا ساحل مل گیا ہو ایسا لگتا ہے کے ہر مشکل سے آزادی مل گئی ہے یا پھر کسی نے ہماری مشکل اپنے سر لے لی ہے ایک ماں اپنی اولاد کے لیے اپنی آخری سانس تک قربانیاں دیتی ہے یہ خدا تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے ہمارے لئے۔ ایک بچے کو اس دنیا میں لانا اور پھر اسے اس زمانے میں رہنے کی تمام تر چیزیں طریقے ، تہذیب سکھانا۔ اس کے لئے زمانے بھر کی تکلیفیں برداشت کرنی۔ اس لیے تو کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھی ہے۔ اگر ہم ساری زندگی بھی اپنی ماں کی خدمت کرتے رہیں تو ہم اس کی ایک آہ کا بھی بدلہ نہ لوٹا سکیں گے۔ جو اس نے ہماری پیدائش کے وقت بھری تھی۔ماں کی اپنی اولاد کے لیے محبت دنیا میں آنے سے پہلے ہی شروع ہو جاتی ہے جب ہم نے دنیا میں آنکھ کھولی تو جس ہستی نے ہم کو سب سے پہلے گلے لگایا ہماری پیشانی پر اپنی محبت کا بوسہ دیا وہ ماں ہی تھی .اس کے بعد جب ہم تھوڑے بڑے ہوئے چلنا سکھایا بولنا سکھایا .جب ہم نے اپنی توتلی زبان سے پہلی دفع ‘‘ماں’’پکارا تو وہ ایسے خوش ہوئی جیسے ہم نے ان کو دنیا کی سب سے بڑی خوشی دے دی ہو، جب ہم ماں کے عظیم عہدے پر برجمان ہوتے ہیں تو ہمیں اپنی ماں کی صحیح قدر ہوتی ہے کہ کس طرح اُس کے دن رات ہمارے لیے وقف کر دیا تھا اپنی بچوں کے ہنسی خوشی دیکھ کر دل میں سکون سا بھر جاتا ہے ، ما ں کے قدموں تلے جنت ہے۔۔اگر یہ نعمت کھو جائے تو خواہ دنیا کی ساری دولت خرچ کر ڈالو یہ دوبارہ کسی کو بھی نصیب نہیں ہوتی۔ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو دنیا بھر میں اس دن کو خاص اہمیت دے کر ماں کی عظمت کو سلام کرنے، اس کی دعائیں اور پیارلینے کے لئے وقف کردیا گیا ہے۔ اسلام نے بھی ماں کی عظمت ، وقار اور احترام کا اعتراف کیا ہے ''یعنی ماں کی محبت''، اس کی اطاعت اور خدمت کو جنت کے حصول کا ذریعہ قرار دیا ہے ماں وہ عظیم ہستی ہے جس کے بغیر دنیا میں ہر چیزبے رونق ہے۔ماں اﷲ کی دی ہوئی نعمت ہے۔ ماں،کیا تعریف کروں میں اس لفظ کی شاید ایسے الفاظ ہی نہیں بنے جو اس لفظ کی اہمیت کو بیان کر سکے ماں،جنت کو پانے کا ایک آسان راستہ۔ماں،جس کا احساس انسان کی آخری سانس تک چلتا رہتا ہے۔

ماں،ایک پھول ہے کہ جس کی مہک کبھی ختم نہیں ہوتی۔ماں،ایک سمندر جس کا پانی اپنی سطح سے بڑھ تو سکتا ہے مگر کبھی کم نہیں ہو سکتا۔ماں،ایک ایسی دولت جس کو پانے کے بعد انسان مغرور ہو جاتا ہے۔ماں،ایک ایسی دوست جو کبھی دھوکہ نہیں دیتی۔ماں،ایک ایسا وعدہ جو کبھی ٹوٹتا نہیں۔ماں،ایک ایسا خواب جو ایک تعبیر بن کر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ماں،ایک ایسی محبت جو کبھی کم نہیں ہوتی بلکہ وقت وقت کے ساتھ ساتھ اور بڑھتی رہتی ہے۔ماں،ایک ایسی پرچھائی ہے جو ہر مصیبت سے ہمیں بچانے کے لیے ہمارے ساتھ رہتی ہے۔ماں،ایک ایسی محافظ جو ہمیں ہر ٹھوکر لگنے سے بچاتی ہے۔ماں ایک دْعا جو ہر کسی کی لب پر ہر وقت رہتی ہے۔ماں،ایک ایسی خوشی ہے جو کبھی غم نہیں دیتی۔ ماں ایک نعمت ہے اور اس کے پیار کا انداز بہت پیارا اور نرالہ ہوتا ہے ہر انسان پیدا ہوتے ہی زندگی کے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے۔ اسے جینے، آگے بڑھنے اور ترقی کی منزلیں طے کرنے کے ہر مرحلہ پر اپنے خالق کے بعد جو سہارا ملتا ہے پھر اسے کامیابی اور ناکامی کی صورت میں جس وسیلے کے ذریعے اپنی فطری اور جسمانی صحت اور توازن کو قائم رکھنا پڑتا ہے وہ صرف اور صرف ماں کی لازوال محبت ہے۔’’ماں‘‘محض ایک لفظ نہیں بلکہ محبتوں کا مجموعہ ہے۔

''ماں ''کا لفظ سنتے ہی ایک ٹھنڈی چھاؤں اور ایک تحفظ کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔ ایک عظمت کی دیوی اور سب کچھ قربان کردینے والی ہستی کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ ''ماں '' کے لفظ میں مٹھاس ہے۔ انسانی رشتوں میں سب سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی ماں کی ہے۔ ماں خدا کی عطا کردہ نعمتوں میں افضل ترین نعمت ہے۔ تہذیبی روایات کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارے ہر دن کو ہماری ماں کی دعاؤں کے سائے میں طلوع ہونا چاہیے۔ دنیا کی عظیم ترین ہستی ماں ہے اس کا دوسرا نام جنت ہے اور ماں کے بغیر کائنات نامکمل ہے۔ چونکہ پاکستان عالمی افق پر بڑی اہمیت کا حامل ہے لہٰذاگلوبل ولیج میں رہ کر اپنی ثقافت کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لئے مہذب قوموں کے اچھے دنوں کو مثبت انداز سے دیکھنا اور اہمیت دینا ہماری ذمہ داری کا ایک حصہ ہونا چاہیے۔ ماں کی آغوش انسان کی پہلی درس گاہ ہے۔ ماں کی بددعا سے بچو۔ کیونکہ ماں اور خدا کے درمیان پردہ نہیں ہوتا

’ ’ماں․ ․ ․ ․ ․ ․ ‘‘ یہ لفظ بہت وسیع معنی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ممتا،ایثار ، قربانی، پیار،محبت، عزم ،حوصلہ ،دوست، ہمدرد، راہنما،استاد، خلوص، معصومیت،دعا،وفا،بے غرضی، لگن، سچائی، پاکیزگی، سکون، خدمت، محنت، عظمت، عبادت، ایمان، دیانت، جذبہ، جنت، یہ سب ماں کی خوبیوں کی صرف ایک جھلک ہے، ورنہ اس کی خوبیاں تو اس قدر ہیں کہ لفظ ختم ہوجائیں مگر ماں کی تعریف ختم نہ ہو۔ ماں ہی وہ عظیم ہستی ہے جس کے جذبوں اور محبت میں غرض نہیں ہوتی ،جب اولاد اس دنیا میں آنکھ کھولتی ہے تواس کے لئے خود کو وقف کر دیتی ہے جب بچہ بول بھی نہیں پاتا اس کی ضرورت کوسمجھتی اور پورا کرتی ہے پھر اسے بولنا سکھاتی ہے بھر انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتی ہے ہر آواز پر دوڑی چلی آتی ہے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیتی ہے،اولاد کی خوشی میں خوش اور اس کے دکھ میں دکھی ہوتی ہے ،عمر کے ہر دور میں ساتھ دیتی ہے اور دعاگو رہتی ہے
؂ مشکل راہوں میں بھی آسان سفر لگتا ہے یہ میری ماں کی دعاوں کا اثر لگتا ہے

’’ماں․ ․ ․ ․ ․ ․ ‘‘ احسانات، احساسات، خوبیوں اور جذبات کا وہ بے مثال مجموعہ ہے جو سارے زمانے کے حالات اور موسم کی سختیاں خودسہتی ہے مگر اس کا ہر لمحہ اپنی اولاد کے لیے فکر ودعاکرتے گزرتا ہے،ماں باپ جتنی دعائیں اولاد کے لئے کرتے ہیں اﷲ وہ تمام دعائیں ضرور قبول فرماتا ہے ،ماں کے اندر ممتا کا جو جذبہ ہوتا ہے وہ کسی اور میں نہیں ہوتا۔ اﷲ تعالیٰ نے جب ماں کی تخلیق کی تو اسے رحمت کی چادر، چاہتوں کے پھول، دعاؤں کے خزانوں، زمین و آسمان کی وسعتوں، جذبوں، چاہتوں، پاکیزہ شبنم، دھنک کے رنگوں، چاند کی ٹھنڈک، خلوص، رحمت، راحت، برکت، عظمت، حوصلے اور ہمت سمیت تمام اوصاف سے مزین کیا، یہاں تک کہ اس کے قدموں میں جنت ڈالی۔ یوں ماں قدرت کا بہترین تحفہ اور نعمت ہے جس کی قدر ہم پر فرض ہے۔ ماں کے احسانات، احساسات اور چاہتوں کا بدلہ کوئی بھی نہیں ادا کر سکتا،ہم تو ماؤں کی ایک رات کا قرض بھی نہیں چکا سکتے،مائیں عزم و حوصلے اور ایثار و قربانی کا پیکر ہوتی ہیں۔ والدین کے احسانات کے بارے میں سوچیں بھی، تو سوچ ان کے احسانات کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔ بلاشبہ ماں کا وجود ایک نعمت اور اﷲ تعالیٰ کا انعام ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی انسان کامیاب ہے تو اس کے پیچھے اس کی ماں ہی کا ہاتھ ہے جس کا وہ ثمر پارہا ہے۔ ان کی ماؤں نے پال پوس کر ان کو قابل بنایا اور اپنی ماؤں ہی کے طفیل آج یہ کامیاب ہیں۔ ان کی تربیت میں جو خوبیاں ہیں وہ ان کی ماؤں ہی کی مرہونِ منت ہیں،ماں کی دعاوں نے ہی اولاد کو بڑے سے بڑا ولی اور بادشاہ بنایا ہے۔ جو دور آج کل ہے ہر ماں باپ کی کوشش ہوتی ہے کے ان کے بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں وہ امیر ہوں یا غریب بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کے لیا جہاں تک ہو سکے کوشش کرتے ہیں اور پھر کیا ہوتا ہے جو بچے پڑھ لکھ جاتے ہیں ان میں سے کافی بچے بھول جاتے ہیں کے ان کو اس مقام تک پہچانے والے کون لوگ ہیں اور خاص کر اس ماں کی محبت بھول جاتے ہیں جس نے دن رات ایک کر کے ان کو اس مقام تک پہنچایا ہے .جب زندگی میں کوئی اہم فیصلہ کرنے کے موقع آتا ہے تو بڑی آسانی سے بول دیتے ہیں کے یہ زندگی ان کی ہے اور اس کا فیصلہ وہ خود کریں گے ماں باپ کو اس کا حق نہیں وہ ایسا بولتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کے اس ماں پر کیا گزرے گی جس نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنی اولاد کے لیے قربان کیاماں اپنے بچے کی آہ برداشت نہیں کر سکتی اور اس کو تکلیف میں دیکھ کر اپنے سارے دکھ بھول جاتی ہے .بڑے بدقسمت ہیں وہ لوگ جن کے پاس ماں جیسا عظیم رشتہ موجود ہوتا ہے اور وہ اس کی قدر نہیں کرتے .انسان یہ بھول جاتا ہے کے اس کو بڑا کرنے والی اور اس مقام تک پہچانے والی ہستی ماں ہی ہے دنیا میں ایک ماں کا ہی رشتہ ایسا ہے جس کو صرف معاف کرنا ہی آتا ہے انسان کوئی بھی غلطی کر کے ماں سے معافی مانگے تو ماں اس وقت انسان کی سب غلطیاں بھول کر اس کو گلے لگا لیتی ہے دنیا میں سب سے بڑی نعمت ماں ہے وہ ایک ایسی ہستی ہے جواپنی؂ اولاد کے لیے خود تکلیف سہتی ہے لیکن بچوں پر کوئی آنچ آنے نہیں دیتی ہے جو ہمارے لیے ہر حال میں بہتر سوچتی ہے ہمارے فائدے کی بات کہتی ہے دعا ہے کہ جن کے والدین حیات ہیں خدا کرے ان کا سایہ تا دیر سلامت رہے اور وہ ہر دکھ، پریشانی، آفت اور آزمائش سے محفوظ ہوں،پورے خلوص اور سچے دل کے ساتھ والدین کی خدمت کریں انہیں راضی کرلیں،والدین کی رضا میں اﷲ کی رضا شامل ہے۔ اور جو لوگ والدین کی نعمت سے محروم ہیں وہ اس دعا کا ورد کرتے رہا کریں،رب ارحمھما کما ربینی صغیرا ’’اے میرے رب میرے ماں باپ پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن مجھ پر رحم کیا۔حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ نیک آدمی کا جنت میں اﷲ ایک درجہ بلند کرتا ہے تو وہ پوچھتا ہے کہ اے اﷲ مجھے یہ درجہ کیوں ملاتو اﷲ فرماتا ہے تیری اولاد نے تیرے لئے مغفرت کی دعا کی ہے اس لئے اپنے والدین کے حق میں دعا کرتے رہنا چاہئے ،اﷲ سے دعا ہے کہ اے اﷲ ہمیں والدین کی قدر نصیب فرمااور ان کے لئے محبت، خدمت،اطاعت و حسن سلوک کا جذبہ عطا فرما اور ان کی بہترین اولاد میں شمار فرما۔آمین۔جن کے پاس ماں ہے اس عظیم نعمت کی حفاطت کریں اس سے پہلے کہ یہ نعمت تم سے بچھڑ جائے اور جن کے پاس نہیں ہے ہمیشہ یاد رکھنا کہ انھوں نے تمھارے لیے کیا کچھ کیا اور ان کی مغفرت کے لیے دعا کرتے رہا کریں اپنی ساری زندگی ہم پر قربان کرنے کے بعد جب وہ بڑھاپے میں پہنچ جاتے ہیں تو پھر اولاد کا فرض بنتا ہے کہ ان کی ہر طرح کی خدمت کرے نہ کہ انہیں بڑھاپے میں چھوڑ کر خود اپنی زندگی گزارے۔ اﷲ رب العزت نے دنیا میں ہر چیز کا نعم البدل رکھا ہے لیکن والدین کا کوئی نعم البدل نہیں ہے یہ ایک ایسی عظیم نعمت اور رحمت ہے۔ جس کا احساس ہمیں تب ہوتا ہے جب یہ ہم سے بچھڑ جاتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ سب کے والدین کو تاحیات قائم رکھے! (آمین)۔
؂ ماں تیرے بعد بتا کون لبوں سے اپنے وقت رخصت مرے ماتھے پہ دعا لکھے گا .
farheen riaz
About the Author: farheen riaz Read More Articles by farheen riaz: 33 Articles with 47100 views rukht e safar (رختِ سفر )the name of under which numerous column and Articals has been written by Columnist Farheen riaz
starting 2012
.. View More