آسانیوں سے پوچھ نہ منزل کا
راستہ اپنے سفر میں راہ کے پتھر تلاش کر
ذرے سے کائنات کی تفسیر پوچھ لے قطرے کی وسعتوں میں سمندر تلاش کر
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا اور پھر اپنی منزل کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہر
انسان کا خواب ہے ۔ بچپن میں جب ہم اسکول پڑھنے جاتے ہیں تو ہمیں اس بات کا
قطعی علم نہیں ہوتا کہ جو تعلیم ہم حاصل کررہے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد کیا
ہے اور ہم کیوں پڑھ رہے ہیں لیکن والدین کی ڈانٹ ڈپٹ اور ان کے ڈر سے روز
اسکول جاتے ہیں۔ ان دنوں ہم سے کوئی پوچھے ، بیٹا آپ بڑے ہوکر کیا بنیں گے
تو ہم سب اپنے اپنے نظریہ سے کہیں گے میں ڈاکٹر بنوں گا، میں انجینیر بنوں
گا ، میں پائلٹ بنوں گا وغیرہ وغیرہ لیکن جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے ہیں شعور
اگہی حاصل کرتے ہیں تو ہمیں محسوس ہونے لگتا ہے کہ ہم صحیح معنون میں کیا
کر سکتے ہیں۔ کونسا شعبہ تعلیمی کیریر کے حوالے سے مناسب رہے گا۔ اس وقت
ہمارے سامنے دو نکتے ہیں ۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ اکثر والدین کی یہ خواہش
ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا ان کی مرضی کے مطابق شعبے کا انتخاب کرے اور اسی میں
اپنا کیریر بنائے جیسے کہ اکثر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ انکا بیٹا ڈاکٹر
یا انجینئر بنے جب کہ نوجوانوں کی خواہش والدین کی مرضی کے برعکس ہوتی ہے ۔زندگی
میں کامیابی کے لیے تعلیم کے ساتھ ذہانت بھی لازمی ہے ذہانت کا مطلب اپنے
علم اور تجربے کو تجزیے کے ساتھ بروقت استعمال کرنا ہے- اچھی یادداشت ذہانت
کو حسن عطا کرتی ہے- کم سے کم وسائل کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنانا بھی
ذہانت کا کرشمہ ہے- انسان کوئی بھی کیریئر منتخب کرے, ذہانت کامیابی کے لیے
ضروری ہے-
ان دنوں ہم سے کوئی پوچھے ، بیٹا آپ بڑے ہوکر کیا بنیں گے تو ہم سب اپنے
اپنے نظریہ سے کہیں گے میں ڈاکٹر بنوں گا، میں انجینیر بنوں گا ، میں
پائلیٹ بنوں گا وغیرہ وغیرہ لیکن جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے ہیں شعور اگہی
حاصل کرتے ہیں تو ہمیں محسوس ہونے لگتا ہے کہ ہم صحیح معنون میں کیا کر
سکتے ہیں۔ کونسا شعبہ تعلیمی کیریر کے حوالے سے مناسب رہے گا۔ اس وقت ہمارے
سامنے دو نکتے ہیں ۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ اکثر والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے
کہ ان کا بیٹا ان کی مرضی کے مطابق شعبے کا انتخاب کرے اور اسی میں اپنا
کیریر بنائے جیسے کہ اکثر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ انکا بیٹا ڈاکٹر یا
انجینئر بنے جب کہ نوجوانوں کی خواہش والدین کی مرضی کے برعکس ہوتی ہے
نوجوان کسی دوسرے شعبے میں دلچسپی رکھتے ہیں لہٰذا جب ان حالات میں
نوجوانپنی خواہش کے شعبے کو چھوڑ کر اپنی والدین کی مرضی کے مطابق شعبے کا
انتخاب کرلیتے ہیں تو ایسے میں انکا دل پڑھنے میں بالکل نہیں لگتا ظاہر ہے
کہ اس شعبے سے دلچسپی نہ ہوتو پڑھنا کافی مشکل ہوجاتا ہے ایسی میں نتیجہ
والدین کہ امنگوں کے مطابق بالکل نہیں آتا اور نوجوان بھی پڑھائی کو سنجیدہ
نہیں کر پاتے ، پحر والدین بچوں سے گلہ کرتے ہیں کہ پڑھ نہیں سکتے تو وقت
کیوں ضائع کرتے ہو حالاں کہ نوجوان اپنی طور پر کوشش کرتے بھی ہیں کہ وہ
پڑھیں اور والدین کہ اپیدوں کو پورا کریں لیکن ایسا کرنا ان کے بس میں نہیں
ہوتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہیں کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ والدین اور نوجوان وں کے اس
شوق ایک جیسے ہوتے ہیں جو پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں اپنی دلچسی کے شعبے میں
نوجوان سخت محنت کرکے آگے بڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اسکا نتیجہ بھی انکی
امنگوں کے مطابق نکلتا ہے شوق کی بات ہوتی ہے جس شعبے میں نوجوان زیادہ شوق
رکھتے ہیں تو ایسے شعبے کا انتخاب کرکے اپنے کیریر کو روشن کر سکتے ہیں بعض
نوجوان تعلیمی کیریر کے حوالے سے کافی رہنمائی کی ضرورت پڑھتی ہے -
زندگی میں کامیابی کے لیے تعلیم کے ساتھ ذہانت بھی لازمی ہے ذہانت کا مطلب
اپنے علم اور تجربے کو تجزیے کے ساتھ بروقت استعمال کرنا ہے- اچھی یادداشت
ذہانت کو حسن عطا کرتی ہے- کم سے کم وسائل کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنانا
بھی ذہانت کا کرشمہ ہے- انسان کوئی بھی کیریئر منتخب کرے, ذہانت کامیابی کے
لیے ضروری ہے-- رجحان / میلانِ طبع- ہر شخص کو کوئی ایک یا چند کام آسان
لگتے ہیں وہ انہیں دوسروں کے مقابلے میں جلد سیکھ جاتا ہے, ان کے تکنیکی
پہلوؤں کو فوری طور پر سمجھ لیتا ہے- دوسرے افراد کے مقابلے میں اسے یہ
برتری اس لیے حاصل ہوتی ہے کہ اس کا رجحان اس خاص کام یا شعبے کی طرف ہوتا
ہے بعض نوجوانوں کو الیکٹرونکس کے آلات سے اس قدر دلچسپی ہوتی ہے کہ اس کے
اسرار و رموز سے خود بہ خود واقف ہوجاتے ہیں- لڑکے گڑیوں کے کھیل میں
دلچسپی نہیں رکھتے لیکن لڑکیاں وہی کھیل کھیلتی ہیں-
والدین سے اگر پوچھا جائے کہ وہ اپنی اولاد کو کیا بنانا چاہتے ہیں، زیادہ
تر والدین بے ساختہ کہیں گے ڈاکٹر یا انجینئر اور آج کل اس میں بی بی اے
اور ایم بی اے کا ایک اضافہ ہوگیا ہے۔
ہمارے ہاں جب کسی ایک پیشے کی طرف لوگوں کا زیادہ رجحان ہونے لگتا ہے، تو
سب اس میں ہی اپنا ’’شاندار مستقبل‘‘ دیکھنے لگتے ہیں اور بہت پرْامید ہو
کر اس میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا سوچنا کوئی بْری بات بھی نہیں،
ہر کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اور اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے لئے
اچھے سے اچھے شعبے کا انتخاب کرے، مگر غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کہیں آپ
دوسروں کی دیکھا دیکھی بلا سوچے سمجھے اس پیشے کا انتخاب تو نہیں کر رہے۔
ایسی صورت میں یہ جہاں آپ کے بچوں کے مستقبل کے لئے انفرادی طور پر خطرناک
ثابت ہو سکتا ہے، وہاں اس سے معاشرے کو مجموعی طور پر بہت سے کثیر الجہتی
مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
جس طرح ایک نارمل انسانی جسم کے لئے متوازن غذا کی ضرورت ہوتی ہے، اس طرح
ایک نارمل معاشرہ بھی تبھی تشکیل پاتا ہے، جب اس میں ضرورت کے مطابق ایک
توازن کے ساتھ مختلف پروفیشنلز، سکالر، بزنس مین، ہنر مند، مزدور، آرٹسٹ
وغیرہ موجود ہوں۔ جب کسی ایک پروفیشن میں ضرورت سے زیادہ لوگ آ جاتے ہیں،
تو ہم پیشہ لوگوں میں مسابقت بڑھ جاتی ہے اور معاشی اعتبا ر سے بھی اس کی
پہلے جیسی اہمیت برقرار نہیں رہتی۔ اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ
دوسرے شعبوں میں، جنہیں عام طور پر لا علمی کی وجہ سے لوگ نظر انداز کر
دیتے ہیں، اوسط درجے کے لوگ اوپر آ جاتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کو ترقی کے
لئے صرف اچھے ڈاکٹروں کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ اچھے برنس مین اور اچھے
مکینک بھی درکار ہوتے ہیں۔ اسی طرح صرف اچھے انجینئرز سے کام نہیں کام نہیں
چلایا جا سکتا، تربیت یافتہ لیبر اور اچھے سول سرونٹ بھی اتنے ہی اہم ہوتے
ہیں اچھی شہرت کے حامل تعلیمی ادارے سے ڈگری حاصل کرنے سے بھی آپ کو ملازمت
کے حصول میں مدد ملتی ہے۔ پڑھائی کے دوران عملی تجربہ حاصل کرنے کے لئے کی
گئی انٹرن شپ بھی، پڑھائی کی تکمیل کے بعد ملازمت کے وقت کام آتی ہیں۔ اس
سے آپ کو کام کی نوعیت سمجھنے میں بھی مدد مل سکے گئی، فیلڈ میں موجود
لوگوں سے تعلق استوار ہو گا اور اپنی ملازمت کے آغاز سے ہی آپ کو اپنے کام
کے متعلق تمام ضروری باتوں کا علم ہو گا، جس کی وجہ سے آپ پورے اعتماد کے
ساتھ اپنی ملازمت کا آغاز کر سکیں گئے- |