ایک اور علم کی شمع بجھا دی گی……
سچ کہنے والی ایک اور زبان خاموش کردی گئی…… پروفیسر شکیل اوج ، پروفیسر
سید آفتاب نقوی ، پروفیسر وحیدالررحمان المعروف یاسر رضوی یا پھر سماجی
کارکن سبین محمودکا قتل ہو ……ان سمیت بہت سارے روشنی کے چراغ جہالت کے
پیروکاروں نے ایک ایک کرکے گل کرنے کی کوشش کی…… ملالہ یوسف زئی کو ختم
کرنے والوں نے سوچا ہوگا کہ اسکی زندگی ختم کرکے وہ علم کے حصول کے لیے
بڑھتے قدموں کو روک دیں گے لیکن کہتے ہیں ناں کہ ’’مارنے والے سے بچانے
والا بڑا بے نیاز ہے‘‘
ہمارے اس دعوی کے باوجود کہ ہم جہالت کے جانی دشمن ہیں ، ہم اندھیرے
پھیلانے والوں سے نفرت کرتے ہیں،لیکن علم کی ان شمعوں اور روشنی کے ان
چراغوں کو گل کرنے کے درپے کون لوگ ہیں ؟ہم ہی ہیں یا ہمارے عزیز و اقربا
ہیں…… کیا ہم روشنی اور علم کے ان دشمنوں کو ان کے مقاصد میں کامیابی کے
لیے سہولیات فراہم نہیں کرتے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ کرائے کے یہ قاتل ہمارے
ہی آس پاس کرائے کی رہائشگاہوں میں نہیں رہتے؟ کیا مساجد اور مارکیٹوں میں
دوکانوں پر رکھے چندے کے بکسوں میں بھاری رقوم نہیں ڈالتے؟ ہماری اسی
معاونت کے بل بوتے پر یہ درندہ صفت بھیڑئیے معصوم لوگوں کی جانیں لے رہے
ہیں،
پروفئسر شکیل اوج کا قصور کیا تھا؟ پروفیسر آفتاب نقوی نے کیا جرم سرزد کیا
تھا؟ پروفیسر شکیل اوج کراچی یونیورسٹی میں اسلامی زبانوں کے شعبہ کے ڈین
تھے۔انہیں پچھلے سال سترہ ستمبر کو علم کے دشمنوں نے قتل کر کے کراچی
یونیورسٹی کو ایک علم دوست انسان سے محروم کردیا ……پروفیسر افتاب نقوی ،
پروفیسر شکیل اوج ،سبین محمود اور پروفیسر وھید الررحمان المعروف یاسر رضوی
کو قتل کرنے والے انہیں اپنے عزائم کی تکمیل کی راہوں میں (انکے خیال میں)
پروفیسر شکیل اوج رکاوٹ تھے۔
تخلیق حضرت آدم سے اب تک شر کے پیروکاروں کو شکست و ہزمیت کے سوال کچھ ہاتھ
نہیں لگا ،جبکہ فتح و نصرت اور کامیابی و کامرانی خیرکا مقدر ٹھہرا ہے، علم
کی شمعوں اور روشنی کے چراغوں کو بجھا نے کے درپے جہالت اور اندھیروں کے
علمبردار ہزار جتن کریں لیکن ان چراغوں کی روشنی اور علم کی شمعوں کی ’’لو‘‘
کبھی ختم نہ ہوگی، علم شمعوں کو بجھانے اور روشنی کے ان چراغوں کو ختم کرنے
والوں کے پس پردہ وہ قوتیں ہیں جن کے پاس طاقت ،اختیارات اور دولت کی
فراوانی ہے اس لیے یہ لاکھ پردوں کے پیچھے چھپ جائیں لیکن ایک دن دن یہ
ضرور بے نقاب ہوں گے کیونکہ مولائے کائینات حضرت علی ابن ابی طالب کا فرمان
ہے کہ’’طاقت ،اختیارات اور دولت ایسی طاقتیں ہیں جن کے ملنے سے لوگ بدلتے
نہیں بے نقاب ہو جاتے ہیں‘‘ اس لیے ہمارا ایمان ہے کہ تاریکی۔جہالت اور
اندھیروں کے تقلید کرنے والے اور ان کے سرپرست ضرور بے نقاب ہوں گے، اور
ذلت و رسوائی ان کا مقدر بنے گی اور پروفیسر سید آفتاب نقوی، پروفیسر شکیل
اوج ، سبین محمود اورپروفیسر وحید الر رحمان المعروف یاسر رضوی سمیت دیگر
روشنی کے چراغ ہمیشہ روشن اور منور رہیں گیملک مین روشنی کے چراغوں اور
مینارہ نور شخصیات کو چن چن کر موت کی وادی میں منتقل کرنے کے رجحان میں
اضافہ ہی اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ جہالت اور اندھیروں کے تقلید کار قاتل
درندوں کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جا رہا اور انہیں عبرت کا نشان
بنانے میں تاخیر کے باعث ان انسانیت دشمنوں کے حوصلوں کو جلا ملتی ہے،۔
حکومت کی ناکامی ہے کہ اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی، حکومت پاکستان
کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جتنے بھی روشنی کے چراغ بجھائے گئے ہیں ان سب کے
قاتلوں کو گرفتار کیا جائے اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے-
ورنہ اس ملک سے روشنی کے چراغ اسی طرح بڑی بے دردی اور بے رحمی سے بجھائے
جاتے رہیں گے اور ہم سب اظہار افسوس کرتے رہیں یا زیادہ سے زیادہ درند صفت
قاتلوں کی مذمت کرکے سمجھیں گے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے، یہ سوچ
مجرمانہ غفلت کے زمرے میں آتی ہے،لہذا ہم سب کو بشمول ھکومت پاکستان اور
ھکمرانوں کو عوام میں پائے جانے والے احساس ندامت اور غیر محفوظ ہونے کے
احساس سے نجات دلانے کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو احسن انداز مین نبھانا ہوں
گی
|