ان دنوں شہر ِ قائد کے چند علاقوں میں پانی کا شدید بحران
ہے ۔ اس کی وجہ پمپنگ اسٹیشنوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہے ۔ جمعرات کو
خبرآئی کہ شہر میں پانی کی قلت 348 ملین گیلن ہوگئی ۔ جس سے قلت ِ آب کی
شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ ادھر وزیر ِ اطلاعات و بلدیا ت کے
الیکٹرک پر سخت بر ہم ہیں ۔ انھوں نے کے الیکٹرک کی جانب سے عدالت کے واضح
احکامات کے با وجود واٹر پمپنگ پر گھنٹوں لوڈ شیڈنگ کو کراچی کا امن و امان
خراب کرنے کے مساوی قرار دیا ۔ اس طرح انھوں نے سندھ اسمبلی میں بھی کے
الیکٹرک کو کھر ی کھر ی سنائیں ۔ انھوں نے کہا کہ اگر کے الیکٹرک کے ذمہ
داروں نے اپنا رویہ نہیں بدلا تو انھیں گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں میں
ڈالا جائے گا ۔
مسئلہ پانی کا ہو یا بجلی کا ۔ اس کے لیے سخت ترین اقدامات کی ضرورت ہے ۔
ابھی رمضان المبارک کا مقدس مہینا نہیں آیا ۔ ابھی سے ہی پانی اور بجلی کے
مسائل شروع ہو گئے ہیں ۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ۔ شہر ِ قائد کے عوام
کو اگر پہلے صرف بجلی کا مسئلہ درپیش تھا تو اب پانی جیسی اہم بنیادی ضرورت
کا مسئلہ در پیش ہے ۔ لوگوں نے شکا یت کرتے ہوئے مجھے بتا یا کہ ہمیں صبح
چار بجے اٹھ کر پانی بھرنا پڑتا ہے ۔ کیوں کہ پھر سارا دن پانی نہیں آتا ۔
لوگ پینے کا پانی خرید خرید کر پی رہے ہیں ۔ لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں
ہے ۔ ایک صاحب نے خوشی خوشی بتایا کہ آج کئی ہفتوں کے بعد وہ صاف ستھرے
پانی سے نہائے ۔ لوگ بد بودار پانی پر زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ کیا زمانہ
آگیا ہے کہ پانی بھی خرید خرید کر پیا جارہا ہے ۔ کیا کبھی پہلے بھی ایسا
ہوا تھا کہ اللہ کی اس انمول نعمت کو خریدا جائے ۔حکام کو چاہیے کہ وہ عوام
کو بنیادی سہولتوں سے محروم نہ رکھے ۔ سخت ترین گرمی میں اگر ایک انسان
پانی اور بجلی دونوں سے محروم ہو تو کیا بنے گا ۔ ہمارے ملک میں اکثریت
غریب لوگوں کی ہے ۔ امیر لوگ تو بجلی نہ ہونے کی صورت میں جنریٹر سے مستفید
ہوسکتے ہیں ۔ پانی نہ ہونے کی صورت میں خرید کر پی سکتے ہیں ، لیکن ان غریب
لوگوں کا کیا ہوگا ، جن کی کم زور معیشت میں جنریٹر خریدنے کی سکت نہیں ۔
جن کی جیبوں میں پانی خریدنے کے لیے وافر مقدار میں پیسے نہیں ۔
ماہرین باور کرار ہے ہیں کہ 2020۔25 میں جنوبی ایشیا میں میٹھے پانی کا
شدید بحران آنے کو ہے ۔ جس سے یہاں کے باسیوں کی حیات کو شدید خطرات لاحق
ہوں گے ۔ یہ آبی بحران انسانی زندگی کے ساتھ دوسری مخلوقات کی زندگی کو بھی
شدید متاثر کرے گا ۔ ماہرین کہتے ہیں کہ موسمی تغیرات کی وجہ سے جنوبی
ایشیا کے تمام گلیشیرز پگھل جائیں ۔جس سے میٹھے پانی کا یہ جان لیوا بحران
جنم لے گا ۔ عقل مند لوگ وہ ہوتے ہیں ، جو پہلے سے ہی کچھ بچا کر رکھیں ۔
وہ عقلمند نہیں جسے خطرات کا علم ہو ، لیکن وہ پھر بھی چپ سادھےمنتظر ِ
فردا ہو ۔ اب اس بحران سے پہلے سے نمٹنے کا دو طریقے ہیں ۔ پہلا تو یہ ہے
کہ سمندری پانی کو میٹھا بنانے کے اقدامات کیے جائیں ۔ مگر یہ ایک مہنگا
طریقہ ہے ۔ اس کے لیے بہت زیادہ سرمایہ چاہیے ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ڈیمز
بنائے جائیں ۔ دنیا بھر میں زیادہ تر ملک دوسرے طریقے کو ترجیح دے رہے ہیں
۔ کیوں کہ یہ ایک سستا ترین طریقہ ہے ۔ اس کے لیے زیادہ سرمائے کی ضرورت
نہیں ہے ۔ اب حالت یہ ہے کہ پڑوسی ملک انڈیا اور بنگلہ دیش ڈیمز پر ڈیمز
بناتے جارہے ہیں ۔ لیکن پاکستان کی طرف سے ایسے اقدامات بالکل نظر نہیں
آرہے ۔میرے خیال میں سڑکوں اور پلوں سے زیادہ ڈیمز بنانے کی ضرورت ہے ۔
کہتے ہیں ، مستقبل میں تیسری جنگ کی بڑی وجہ پانی کا مسئلہ ہوگا ۔ اس بات
میں کتنی حقیقت ہے ، یہ تو اس وقت پتا چلے گا ، جب ہماری یا ہماری آنے والی
نسلوں کی آنکھیں تیسری جنگ کا مشاہدہ کریں گی ۔ مگر اسی پانی کے مسئلے کی
وجہ سے جمعے کے روز سندھ اسمبلی کا درجہ ِ حرارت عروج پر تھا ۔ ارکان کی
طرف سے گرم گرم باتیں ہوئیں ۔ جس سے ایک طرف تو پانی کے بحران کی شدت کو
جانچا جا سکتا ہے ، جب کہ دوسری طرف ارکان کے غم اور غصے کا اندازہ بھی لگا
یا جا سکتا ہے ۔ مختصرا سمبلی میں ہونے والی باتیں لکھتا ہوں ۔پانی کی شدید
قلت کے حوالے سے متحدہ قومی موومنٹ کے رکن محمد حسین کی تحریک التوا پر بحث
کرتے ہوئے ارکا ن نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کراچی کے
واٹر بورڈکو فوج یا رینجرز کے حوالے کر دیا جائے یا اس کی نج کاری کر دی
جائے ۔ کراچی میں پانی کے مسئلے پر فساد ہو سکتے ہیں ۔ کراچی کے ڈھائی کروڑ
عوام قلت ِ آب کا شکار ہیں ۔ وفاقی حکومت کھربوں روپے موٹر ویز اور دیگر
منصوبوں پر خرچ کر رہی ہے ۔ لیکن کراچی میں پانی کے منصوبے کے لیے رقم جاری
نہیں کی جار ہی ۔ کراچی میں پانی کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ واٹر ٹریٹمنٹ
پلانٹ لگائے جائیں ۔آخر میں سندھ کے وزیر ِ بلدیات و اطلاعات شرجیل انعام
میمن نےاسمبلی کے ارکان کو بتا یا کہ دھابیجی پمپنگ اسٹیشن کی گنجائش 550
ایم جی ڈی سے زیادہ نہیں ۔ اس کی گنجائش مزید 65 ایم جی ڈی بڑھانے پر کام
ہورہا ہے ۔ دعا کریں کہ بارش ہوجائے ۔ اور حب ڈیم سے 100 ایم جی ڈی پانی
ملنا شروع ہو جائے ۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری باتیں ہوئیں ۔
کراچی کے غریب عوام پانی اور بجلی کے مسئلے کے حل کے لیے حکام کی جانب دیکھ
رہے ہیں ۔نہ جانے یہ مسائل کب حل ہوں گے !! |