''ماں '' تیری عظمت کو سلام

حسبِ روایت اِمسال بھی 10 مئی 2015ء کو'' ماؤں کا عالمی دن'' منا یا گیا ۔یہ دن ہمیشہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ماہ مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد ماں کی عظمت، اہمیت و افادیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے ۔حضرت بی بی فاطمہ کا فرمان ہے کہ ''ماں'' کے پیروں سے لپٹے رہو ،اس لئے کہ جنت انہی کے پیروں کے نیچے ہے'' بیشک! ماں دنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جس کااشرف المخلوقات میں مقام بہت ہی بلند و بالا ہے ،عورت کو ماں بننے کیلئے جن جن مراحل سے گذرنا پڑتایعنی جو دُکھ اور تکالیف اٹھانا پڑتی ہیں انہیں بیان کرنے کیلئے الفاظ نہیں ۔'' ماں'' قدرت کا وہ انعام ہے جس کی دعاؤں کے طفیل انسان کامیابیوں اور کامرانیوں کی منازل طے کرتا ہے ۔ اولاد اس مادّہ پرستی کے دور میں ''ماں'' کی اس طرح خدمت سے عاری نظر آتا ہے جو ''ماں '' کا حق ہے کیونکہ ماں محد سے لحد تک اپنے بچوں پر اپنا دست شفقت برقرار رکھتی ہے ۔ دنیا کا ہر مذہب ماں کی عظمت کو تسلیم کرتا ہے ۔سردی ہویا گرمی ، بھوک ہو یا پیاس ۔سخت سے سخت تکلیف دہ حالات اور مصائب وآلام میں بھی ہر ''ماں'' کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اُس کے بچوں کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچے ۔ ماں خود بھوکی پیاسی رہتی ہے مگر اپنے بچوں کو کبھی بھوکا نہیں سونے دیتی ۔ بد نصیب ہوتی ہے وہ اولاد جیسے اپنی زندگی میںاپنی ماں کی خدمت کی اللہ توفیق نہیں دیتا اور مرنے کے بعد ''ماں'' کی قبر پر معافی کا طلبگار ہوتا ہے ۔۔رب کائنات نے ماں کی عظمت کو جن الفاظ میں بیان کیا ہے ۔ ہم سے اکثر لوگ ان احکامات سے اچھی طرح آگاہ ہیں ۔اس کے باوجود ان پر عمل کرنے میں تساہل پسندی سے کام لیتے ہیں

کہتے ہیں کہ دنیا میں ہر کامیاب انسان کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے حقیقت یہ ہے کہ انسان کی کامیابیوں میں جس عورت کا ہاتھ ہوتا ہے وہ ''ماں ''ہی ہوتی ہے ، بہت کم لوگ ہوں گے جن کی زندگی میں ''ماں'' کے علاوہ کوئی عورت محبوبہ یا شریک حیات کی صورت میں آئی ہو اور اس کے طفیل وہ زندگی میں کامیاب و کامران ہوا ہو۔ انسان کی پہلے درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے اس لئے یہاں اچھی تربیت پانے والا انسان ہی دنیا و آخرت میں سرخرو ہوتا ہے ۔

''ماں'' کی ممتا کو سمجھنے کیلئے ایک واقعہ ہی کافی ہے کہ جب ایک عاشق سے اُس کی محبوبہ نے یہ فرمائش کی کہ اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے تو تُم اپنی ''ماں '' کا کلیجہ مجھے لا کر دو ۔نوجوان اپنے عشق میں اس قدر دیوانہ ہو چکا تھا کہ وہ اپنی محبوبہ کی خواہش کی تکمیل کیلئے اپنے گھر چل دیا ، وہاں جا کر اُس نے اپنی ''ماں'' کا کلیجہ نکالا اور وہ لے کر اپنی محبوبہ کو دینے کیلئے چل پڑا ، چلتے چلتے نوجوان کو اچانک ٹھوکر لگی تو اُس کے ہاتھ سے ''ماں '' کا کلیجہ چھوٹ کر دور جا گرا ۔ اسی اثناء میں ماں کے کلیجے سے آواز آئی کہ'' بیٹا! چوٹ تو نہیں لگی ''۔یہ واقعہ جہاں ایک نوجوان کے عشق کی انتہاء کا آئینہ دار ہے وہاں ''ماں'' کی ممتا کو بھی اجاگر کرتا ہے ۔کہ ''ماں '' اپنے بچوں سے کس قدر پیار کرتی ہے ۔

ایک اور واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ'' ماں'' نے اپنے چھوٹے بچے کو ایک پُل کراس کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا!میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لو۔بچہ بولا: نہیں،ماں، آپ میرا ہاتھ پکڑ لیں ۔ماں :''اِس سے کیا فرق پڑے گا ۔۔؟''۔بچہ:'' اگر میں آپ کا ہاتھ پکڑوں گا تو شاہد مشکل میں ، میں آپ کا ہاتھ چھوڑ دوں لیکن اگر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ اتو مجھے یقین ہے کہ آپ میرا ہاتھ کسی بھی حالت میںنہیں چھوڑیں گی۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ عین جوانی میں ''بیوہ '' ہونے والی مائیں اکثر اپنے معصوم بچوں کی خاطر دوسری شادی سے بھی گریزاں رہتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ کوئی بھی شخص کتنا ہی پُر خلوص کیوں نہ ہو وہ کسی عورت کی پہلی اولاد کو وہ پیار اور محبت نہیں دے سکتا جو حقیقی باپ دے سکتا ہے ۔ عظیم ہیں وہ مائیں جو اپنی اولاد کی خوشی کی خاطر اپنی زندگی اُن کیلئے وقف کر دیتی ہیں ۔ ''ماں '' کودکھ دے کر کون سکھ پا سکا ہے ''ماں'' ہی بچوں کیلئے مرکزِ سکون ہے ، ''ماں ''سے ہی بچوں کوراحت ملتی ہے ۔
نامور شعراء نے بھی ماں کی عظمت کو خوبصورت الفاظ میں بیان کیا ہے بقول شاعر
یا رب! میری ماں کو لازوال رکھنا
میں رہوں نہ رہوں، میری ماں کا خیال رکھنا
میری خوشی بھی لے لو ، میری سانسیں بھی لے لو
مگر میری ماں کے گرد سدا خوشیوں کا جال رکھنا
ایک اور شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
گردشیں لوٹ جاتی ہے میری بلائیں لے کر
گھر سے نکلتا ہوں ماں کی دُعائیں لے کر

رب کائنات نے تکمیل کائنات کیلئے مرد و عورت کو پیدا کیا اور ہر شخص نے اسی نظام کے باعث زندگی بسر کرنا ہوتی ہے ، انہی مقاصد کو پروان چڑھانے کیلئے انسان شادی کرتا ہے ۔لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بچے شادی کے بعد اپنی ماں کے تم تر احسانات بھلا کر اپنی بیوی کا غلام بن جاتا ہے فی الوقت یہ بھی قیامت کی ایک نشانی ہے کہ لوگ '' ماں ''سے زیادہ اپنی بیوی کی تابعداری میں مگن ہوجاتا ہے ۔ شادی کے بعد اکثر گھرانوں میں والدین اور اولاد کے مابین اختلافات جنم لیتے ہیں اگر ہم اپنی'' ماں'' کے ساتھ بُرا سلوک کریں گے تو یقینا دنیا بھی ہمارے ساتھ کوئی اچھا برتاؤ نہیں کرے گی۔ عملی زندگی میں ہم اٹھتے بیٹھتے ''ماں'' کی عظمت کے معترف نظر آتے ہیں لیکن ہمارا کردار وعمل اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے ۔پاکستانی معاشرے کا المیہ ہے کہ یہاں ہم لوگوں کی اکثریت سارا دن ایسے ایسے کارہائے نمایاں سر انجام دیتا ہے کہ لوگ نا چاہتے ہوئے بھی کسی نہ کسی انداز میںموصوف کی ''ماں'' کو بُرے القاب سے یاد کرتے نظر آتے ہیں ۔ ''ماں'' کسی کی بھی ہوسب کیلئے باعثِ تعظیم ہوتی ہے ۔ جس طرح ہم خود چاہتے ہیں کہ لوگ ہماری ''ماں ''کی عزت و تکریم کریں اسی طرح ہمارا یہ فرض بھی بنتا ہے کہ ہم دوسروں کی'' ماں'' کوبھی عزت دیں ۔ لیکن معاشرے میں آج بھی یہ روایت بن چکی ہے کہ اگر بہو کوئی غلطی کرے حتیٰ کہ اگر وہ کھانا پکانا بھی نہ جانتی ہو تو اسے یہی طعنہ دیا جاتا ہے کہ کیا تمہیں ''ماں ''نے کھانا بنانا بھی نہیں سکھایا ۔ ساس بھی ایک ماں ہوتی ہے ، بہو لاکھ اپنی ساس کی تابعداری کرے ۔ساس کبھی بہو کو اپنی بیٹی سمجھنے کو تیا ر نہیں ہوتی ۔ اسی طرح معاشرے میں انسان غلطی تو خود کرنا ہے مگر لوگ غصّے میں ''گالی'' دوسرے کی ماں کو ہی دیتا ہے ۔ مائیں تو سب ہی اچھی ہوتی ہیں کوئی ''ماں'' اولاد کی غلط تربیت نہیں کرتی ۔یہ الگ بات ہے کہ ہماری موجودہ نسل ''ماں '' کی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتی ۔۔بلکہ خود کو'' عقل ِکُل'' سمجھتی ہے ۔ یہ وہ بات ہے کہ جس کی وجہ سے سارا دن لوگ دوسروں کی پاکباز ، باسیر ت اور باکردار ''ماں ''کے بارے میں اول فول بکتے نظر آتے ہیں ۔

آج ماؤں کا عالمی دن ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم ''ماں '' کی عزت وتوقیر کا احساس کریں ۔ اور اس بات کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنائیں کہ ہم ایسا کوئی غلط کام نہیں کریں گے کہ جس کی وجہ سے کوئی بھی شخص ہماری ''ماں'' کے بارے میںغیر اخلاقی زبان استعمال کرے ۔ معاشرتی اعلیٰ اخلاقی اقدار ہمیں ہر وقت مقدم ہونا چاہئے ۔ ''ماں'' کی قدر تو ہم اُن لوگوں سے پوچھیں جن کی مائیں کم عمری میں ہی اس دنیا سے انہیں چھوڑ کر چلی گئیں ۔ انسان خود بُراہو سکتا لیکن ''ماں '' تو وہ پاکیزہ ہستی ہے کہ جس کی بدولت اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں آنے کا موقع فراہم کیا ہے ۔ کبھی اگر ہم اس بات کا تصور کریں کہ ''ماں'' کس طرح اپنے بچوں کو پال پوس کر جوان کرتی ہے اور بڑھاپے میں اس اُمید کے سہارے زندگی گذار دیتی ہے کہ اُس کی اولاد بڑھاپے میں اُس کا سہار ا، اُس کا دست وبازو بنے گی ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اپنی ''ماں'' کے احسانات کا عشر عشیر بدلہ بھی نہیں چکا سکتے ۔ آج ہمیں چاہئے کہ ہم اگر ہماری مائیں زندہ ہیں تو اُن کی خدمت پر توجہ مرکوز رکھیں ۔ کیونکہ ''ماں '' تو سراپا رحمت ہے ۔ زندگی میں جس قدر ہو سکے ماں کی دعائیں لینے کی سعی کریں ۔۔وہ لوگ جن کی مائیںاِس دنیا میں نہیں رہیں انہیں بھی چاہئے کہ وہ اُن کی مغفرت اور بلندی درجات کیلئے دعاکو اپنی بقیہ زندگی کا حصہ بنائیں ۔ اور ''ماں ''کی زندگی میں کی گئی اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگیں ۔ کیونکہ اگر ہماری'' ماں'' ہم سے راضی نہیں ہو گی تو رب کائنات ہم سے کیسے راضی ہوگا ۔ ''جنت '' ماں کے قدموں تلے ہے تو ہمیں اپنی ''ماں ''کی خدمت کرکے ''جنت'' پانے کی کوشش کرنا چاہئے ۔ ہماری'' ماں'' ہم سے راضی ہو گی تو یقینا ہماری زندگی کامیابیوں اور کامرانیوں سے ضرور ہمکنار ہو گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 130381 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.