آج کا کالم اس ہستی کے نام ہے جس
کا اس دنیا میں کوئی نعم البدل نہیں۔ وہ ہستی جس کی آواز پر فرش سے عرش تک
ہل جاتا ہے۔یہ وہ ہستی جب بچہ دنیا میں آتا ہے تو سب سے پہلے ایک ہی نام
پکارتا ہے اور وہ ہے ’’ماں‘‘۔ ماں کو عربی زبان میں اْم کہتے ہیں۔ اْم قرآن
مجید میں 84 مرتبہ آیا ہے۔ اُم کی جمع اْمھات ہے اور یہ لفظ قرآن مجید میں
گیارہ مرتبہ آیا ہے ۔ جب بچہ بولنا سیکھتا ہے تو آغاز میں اْم اْم وغیرہ
کہتا ہے۔دنیا میں سب سے بری نعمت ماں ہے۔وہ ایک ایسی ہستی ہے جواپنی اولاد
کے لیے خود تکلیف سہتی ہے۔لیکن بچوں پر کوئی آنچ آنے نہیں دیتی ہے۔جو ہمارے
لیے ہر حال میں بہتر سوچتی ہے۔ہمارے فائدے کی بات کہتی ہے۔
ماں کی تعریف کے لئے الفاظ ناکافی میں یہ ایک بے لوث رشتہ ہے جس کا کوئی
متبادل نہیں۔ دنیا میں جتنے بھی رشتے ہوتے ہیں اور ان میں جتنی بھی محبت ہو
وہ اپنی محبت کی قیمت مانگتے ہیں۔ شوہر بیوی بچے بہن بھائی جو رشتے بھی
دنیا میں ہیں اگر آپ انہیں پیار دیتے ہیں تو پیار ملتا ہے جتنا آپ دیں گے
اتنا آپ واپس لیں گے مگر ماں کا رشتہ دنیا میں واحد ایک ایسا رشتہ ہے جو
صرف آپ کو دیتا ہی دیتا ہے۔ اور اس کے بدلے آپ سے کچھ نہیں مانگتا۔
حدیث نبویﷺہے’’ما ں کے قدموں تلے جنت ہے‘‘۔اس طرح ماں کی اہمیت اور بھی
واضح ہو جاتی ہے۔ یوں تو پہلے تین درجے ماں کے ہیں۔اور ایک درجہ باپ کا ہے
وہ بھی ہرحال میں ہمیں سکون دیتے ہیں۔ماں خود گیلے بستر پر سوتی ہے اور بچے
کو خشک بستر پر سلاتی ہے۔ماں وہ نعمت ہے جوکھو جائے تو خواہ دنیا کی ساری
دولت خرچ کر ڈالو یہ دوبارہ کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی۔یہ وہ عظیم ہستی ہے
جس کے بغیر دنیا میں ہر چیزبے رونق ہے۔
ماں کی ہستی اتنی بلند ہے کہ اگر سال کے365 دن بھی اس کے نام کر دئیے جائیں
تو اس کے احسانات کا شمار ممکن نہیں۔ اسی اہمیت کی بنا پر ماں کے احسانات
کو ہر کوئی جانتا، سمجھتا اور اسے بیان کرتا ہے۔ خواہ وہ کوئی پڑھا لکھا
افسر ہو یا کوئی انگوٹھا چھاپ ۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ماؤوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن مئی کے
مہینے میں دوسرے اتوار کو منا یا جاتا ہے۔ ویسے تو ماں کی محبت کے اظہار کے
لیے کوئی دن مخصوص نہیں مگر دنیا وی معاملات میں یہ دن مختص کیا گیا ہے۔
’ماؤوں کا عالمی دن‘‘ سب سے پہلے 1870ء میں انسانی حقوق کی کارکن اور شاعرہ
جولیا وارڈ (julia ward) نے اپنی ماں کی یاد میں منایا۔ بعد ازاں 1907میں
امریکی ریاست فلاڈیلفیا میں اینا جیروس نامی خاتون ٹیچر نے باقاعدہ طور پر
اس دن کو اپنی ماں کی یاد میں منایا۔ اس دن اس نے ایک خصوصی تقریب کا
انعقاد بھی کیا۔ جس میں اس نے اپنی ماں کے پسندیدہ پھول پیش کیے۔اینا کی
کاوشوں کو سراہتے ہوئے یہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی اور اس وقت کے
امریکی صدر نے ماؤوں کے احترام میں مئی کے دوسرے اتوار کو نہ صرف ’’مدرز ڈے‘‘
کے نام سے موسوم کیابلکہ اسے ہر سال قومی سطح پر منانے کا اعلان بھی کیا۔
یوں ایک بیٹی کی ماں کے لیے محبت کی طاقت نے اپنے آپ کو ملکی سطح پر منوایا۔
اس طرح ہر سال یہ دن منایا جانے لگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ کئی ممالک نے
امریکا کی تقلید کی اور اسی دن کو ماوؤں کے دن کے طور پر منانے کے لیے چن
لیا۔ مغربی معاشرے میں اس دن خصوصی طور پر ماں سے الگ رہنے والے لوگ اپنی
ماؤوں سے ملنے جاتے ہیں۔ انہیں تحائف پیش کرتے ہیں۔ اولڈ ہاؤس منتقل کی
جانے والی ماؤوں کے لیے یہ دن عید جیسا ہوتا ہے جب ان کی خدمات کو سراہتے
ہوئے ان کی اولادیں انہیں پھول پیش کرتی ہیں۔
ماں کا مقام دیکھنا ہے تو آخرت کے متعلق پڑھو۔ دنیا میں آج بچہ ہو بچی اس
کو باپ کے نام سے جانا جاتاہے مگر قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ اسی بچے یا بچی کو
ماں کے نام سے پکارے گا۔ مجھے اپنے والدین پر فخر ہے۔ میں جو کچھ ہوں ان کی
محبت کی بدولت ہوں۔ مجھے اپنی ماں کی قربانیوں پر فخر ہے جن کا میں کبھی
بھی صلہ نہیں اتار سکتا۔ میری تمام لوگوں سے یہ ہی درخواست ہے اگر ان کی
والدہ حیات ہے تو اپنی جنت کما لیجئے۔آخر میں اپنے ایک انتہائی محترم بھائی
عباس تابش کا ایک شعرماؤوں کے اس عالمی دن کے نام کرتا ہوں جس کی دو لائنوں
میں سب کچھ سمٹا ہوا ہے۔ان دو لائنوں میں ماں کی وہ محبت بھری ہوئی ہیں جس
کی اگر تشریح کرنے لگے توکئی صفحات بھر سکتے ہیں۔
ایک مدت سے میری ماں سوئی نہیں تابش
میں نے ایک بار کہاتھا مجھے ڈر لگتا ہے |