ہم اور ہمارا نظام

آج ھم بات کرتے ھیں اپنے حکمرانوں کی ،اپنے قانون کی،اپنی عدالتوں کی اور اپنے ملک کی اگر بات نھیں ھوتی تو صرف ھمارے گھر کی نھیں ھوتی۔کیوں کہ امی نے بچپن میں سیکھایا تھا کہ گھر کی بات باھر نھیں کرتے امی کی باقی باتیں تو ھم بھول گئے لیکن یہ بات یاد رہ گئی-

غور طلب بات یہ ھے کہ اپنے گھر کی حفاظت کے لیے دروازے پر چوکیدار ھم خود بیٹھاتے ھیں گھر کی دیواریں ھم خود اونچی رکھتے ھیں جدید دور ٹیکنالوجی کا دور ھے اپنے گھر کی حفاظت کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہیں مگر جب بات گلی،محلہ،شہر یا ملک کی آتی ہے تو ھم اپنے حکمرانوں اور اپنے قانون کو پرکھنے لگتے ھیں یہ سوچے بغیر کہ جس گلی،شہر میں ہم رہ رہے ہیں اس کی حفاظت کے لیے ہم نے کیا کیا۔

کچھ نہیں کیوں کہ یہ ہماری زمہ داری تو ہے ہی نہیں یہ زمہ داری حکومت کی ہے۔

آج ہمارے سامنے بندہ قتل ہو جائے ہم چپ کر کے گھر بیٹھ جاتے ہیں تب قانون کو،عدالت کو ہماری ضرورت ہوتی ہے مگر ہم خاموش تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

مگر جب ہمارے گھر میں کویَ ایسا واقحہ ہو جاےَاور ہمیں قانون کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم میڈیا کو اکٹھا کر لیتے ہیں۔اور چیخ چیخ کر اپنے قانون کو اپنے حکمرانوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔

ہم بھول جاتے ہیں کہ "جیسی عوام ویسے حکمران"

ہماری حکومت اور حکمران،قانون اور قانون دان،عدالتیں اور جج سب بدل سکتا ہے تو کیا ہم اور ہماری سوچ نہیں بدل سکتی؟

SABA SHAHEEN
About the Author: SABA SHAHEEN Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.