روایات بمقابلہ قوانین
(Malik Mushtaq Ahmad Kharal, Jatoi)
ایام ماضی میں چند شعوری اور لا
شعوری ، دانستہ و غیر دانستہ اور مصدقہ اورغیر مصدقہ طرززندگی اور سوچ نے
روایات کو جنم دیا اوریہی روایات کبھی دین سے ٹکرائیں تو کبھی انکا سامنا
اس دور کے قوانین سے ہوا چند روایا ت کو فرسودہ اور دقیانوسی خیالات کی
پیداوار قراردیا گیا تو چند کو بد عات جیسے زہر آلودالزامات سہنے پڑے لیکن
تاریخ کے اوراق نے کبھی روایات کے زیر ہونے کی گواہی نہیں دی حکومت وقت کی
ون ڈش کی پابند ی،ونی پر سخت سزائیں اور شادی کے موقع پر ا سلحہ کی نمائش
کیخلاف کاروائیاں کوئی خاطر خواہ نتائج بر آمد نہ کر سکیں کہ کائٹ فلائنگ
آرڈیننس جاری کر دیا گیا اور اس میں مزید جان ڈالنے کیلئے عدالت عالیہ کی
مہر ثبت کروادی گئی ۔ لیکن ہوا کیا قوانین ٹوٹ گئے پتنگ اور پتنگ بازوں کا
راج قائم رہا ۔
اک ہندو کی یاد میں منائے جانے والے اس تہوار نے اسلامی ثقافت کالباد ا
اوڑھ لیا ہے آج مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد بسنت کے تہوار کو خوش وخروش اور
دلی عقیدت کے ساتھ مناتی ہے ۔سادہ ڈوراور سادہ کاغذ سے شروع ہونے والے اس
شوق نے اس وقت متنازعہ حثییت اختیار کر لی ۔جب دھات کی تار کا استعمال عام
ہو گیا وطن عزیز کے ننگے بجلی کے نظام میں رکاوٹ کیساتھ ساتھ ی ڈور کئی
معصوم لوگوں کیلئے پھانسی کا پھندا ثابت ہوئی ۔ فروری کے مہینہ کے آخری
ایام میں منایا جانیوالا یہ بسنت کا تہوار کئی گھروں میں شام غریباں کے
ساتھ اختتام پذیر ہونے لگا ۔ گزشتہ کئی سالوں میں درجنوں افراد اس قاتل ڈور
کے ہاتھوں لقمہ اجل بنے ۔ بین الاقوامی قرضوں کے بوجھ تلے ڈوبے ہوئے اس وطن
کے باسیوں کا اب بھی یہ عقیدہ ہے کہ ’’شوق دا کوئی مل نہیں ‘‘ دل بولے بوکا
ٹا سے مماثلت رکھتے گیتوں کے ساتھ کئیوں کے تو گلے کٹ جاتے ہیں اور کئیوں
کی تو نظریں آسمان پر اور پاؤں چھت سے نیچے زمین پر ہوتا ہے ۔ الیکٹرانک کا
قیمتی سامان جل جاتا ہے لیکن شوق دا کوئی مل نہیں۔
اس رسم کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ کائیٹ فلائنگ ایسوسی ایشن
کی بنیادڈال دی گئی ۔ جسکا کام تہوار اور تاریخ کا تعین، حکومت سے مذاکرات
اور جدید خطوط پر استوارکئے جانے والے پتنگوں اور ڈوروں کو مارکیٹ میں لانا
ہے۔ آ ج کل اس ایسوسی ایشن کی حکومت سے ٹھن گئی ہے اور اسے در پردہ اور
پردہ سکرین پر حکومت پنجاب کیلئے اپوزیشن کا کام دینے والے گورنر کی حمایت
حاصل ہے ۔جنکا یہ کہنا ہیکہ پتنگ اڑانا عوام کا پیدائشی حق ہے اور انہوں نے
خود اپنا بچپن اور جوانی اسی کام میں گزاراہے اور شاید بڑھاپا بھی اسی طرح
کے کاموں میں گزارنے کا منصوبہ ہے ۔ پچھلے سال حکومت پنجاب کی پتنگ بازی پر
پابند ی کے بعد قوانین اور روایا ت ایک مرتبہ پھر میدان میں آگئے ۔ اس
معرکہ کا انجام ابھی باقی ہے کیا خود ساختہ معاملات میں الجھی ہوئی حکومت
اس رسم دیر پا کو یکسر ختم کرنے میں کامیاب ہوجائے گی ؟یا پھر رسم و رواج
قوانین پر حاوی رہیں گے۔
تما م تر پابندیوں اور کارروائیوں کے باوجود زندہ دلان لاہور نے پتنگوں سے
ناتہ نہ توڑا اور 19فروری کو آسمان پتنگوں کے رنگوں میں رنگا نظر آیا ۔ وہی
حادثات اور کچھ گرفتاریاں اور اگر کچھ کسر رہ گئی تھی تو کائیٹ فلائنگ
ایسوسی ایشن نے 7او ر8مارچ کو اس تہوار کو دوبارہ منانے کا فیصلہ کیا ہے
گورنر پنجاب کی آشیر باد سے منائی جانیوالی یہ بسنت حکومت پنجاب کا امتحان
ہے حکومت وقت کو جہاں توانائی کے بحران ، عدلیہ کے ساتھ ٹکراؤ ، دہشت گردی
اور مہنگائی جیسے طوفانوں کا سامنا ہے وہاں پتنگ بازی جیسے شوق کی سنگینی
نے اور متعدد تہذیب یافتہ افراد کی قانون شکنی نے مسائل میں الجھاؤ پیدا
کردیاہے ۔ دیکھنا ہے کہ قانون اور رسم کی اس جنگ میں شکست کس کی ہوتی ہے
کیا حکومتی اقدامات سے یہ دیرینہ رسم دم توڑ جائیگی کیا دہشتگردی کے خوف کے
سائے میں پروان چڑھتی جواں نسل بسنت اور بیساکھیوں کا لطف صرف کتابوں میں
حاصل کریگی کیا جہاں دینا نئے افق کو چھو رہی ہے وہاں اقبال کا شاہین
پتنگوں کی ڈور میں الجھا رہے گا؟ |
|