اردو کے لیے مصروف عمل تین اشخاص

آج اکثر پچھلی نسل کے پڑھے لکھے افراد یہ شکوہ کرتے آپ کو نظر آتے ہیں کہ نئی نسل کے نزدیک انٹرنیٹ کے اس دور میں کتابیں اپنی اہمیت کھو چکی ہیں۔ بے شک ایسا ہی ہے لیکن ساری دنیا میں نہیں۔ کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ جس مغرب سے موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیاکی شروعات ہوئی، وہاں تو روز بروز کتاب پڑھنے کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں کسی زمانے میں ہر محلے میں موجود کرایہ لائبریری کے ذریعے بچے بچے میں کتابیں پڑھنے کا شوق ہوا کرتا تھا، جو بڑھتے بڑھتے کتابوں سے ایسی دوستی لگا جاتا تھا کہ پھر کتاب سفر و حضر کی ساتھی بن جایا کرتی تھی، لیکن اب اسی ملک میں کتب بینی کا شوق کم ہوتے ہوتے اتنا کم ہو گیا ہے کہ شاید ہی کسی علمی کتاب کا ایڈیشن ہزار دو ہزار سے زیادہ شایع ہوتا ہو!

میں جو ابھی چالیس کے سن کو نہیں پہنچا، پلٹ کر پندرہ بیس سال پہلے کی زندگی پر سرسری نظر بھی دوڑاتا ہوں تو خود کو اسی شوق کا اسیر پاتا ہوں۔ کہانیوں کی کتابیں ہوں یا نصابی مضامین کی کتابیں، اخبار کی خبریں ہوں یا کالم، یا راہ چلتے دیواری اشتہارات ہی سہی… کچھ ایسا جنون سا تھا کہ بیان سے باہر ہے۔ یہاں تک کہ نوالہ حلق سے نہ اترتا تھا، جب تک ہاتھ میں کوئی کتاب نہ ہو، نیند آتی نہ تھی، جب تک کہانیوں کی دنیا کی کچھ سیر نہ کر لی جائے۔ امی جی کسی کام کے لیے پکارتیں اور ہم کتاب میں مگن ہوتے پھر… امی کی پھٹکار اور ابو کی چپل ہی ہوتی جو ہمیں کتاب چھوڑ کر کام کے لیے اٹھنے پر مجبور کرتی مگر پھرنیا زمانہ آیا… کمپیوٹر آگیا اور تنہا نہیں بلکہ ساتھ انٹر نیٹ کے ذریعے پوری دنیا کو ہمارے چھوٹے سے گھر میں گھسیٹ لایا ۔ اس وقت تک انٹرنیٹ پر کتابیں تو نہیں تھیں، البتہ معلومات کا ایک طوفان ضرور تھا۔بس اس کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے کتابوں کا جنون کچھ کم کر دیا۔

اب کھانا کھاتے ہوئے کتاب نہیں، اسمارٹ موبائل ہاتھ میں ہوتا ہے، سونے سے پہلے کتاب کی جگہ موبائل پر سوشل میڈیا کی سیر ہوتی ہے ۔ یہ بے شک ایک افسوس ناک رجحان ہے کیوں کہ کتاب کی بات دیگر ہے، مگر بہرحال نیٹ پر اب چندپرعزم عشاق اردو کے ذریعے اور سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک وغیرہ کے ذریعے سے لوگوں میں پڑھنے کا رجحان بہت بڑھا ہے اور نہ صرف پڑھنے کا بلکہ بلاگنگ اور فیس بک کے ذریعے اچھے لکھاریوں کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

انٹرنیٹ کی دنیا میں اردو کتابوں کے لیے سرگرم میرے نزدیک تین اشخاص کا بہترین کام داد کا مستحق ہے۔ ایک محترم حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والے اعجاز عبید صاحب کہ جنہوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے موزوں استعمال کے ذریعے نیٹ پر اردو ادب کی ترویج و اشاعت کا بیڑہ کچھ اس طرح اٹھایا کہ’ جملہ حقوق‘ کی بیڑیوں سے کتابوں کو آزاد کر کے برقیایا جائے اور ایک مفت ای لائبریری قارئین کے لیے پیش کی جائے ۔ جی ہاں وہ اور ان کے رفقاء کی مسلسل کاوش اب ان کی سائٹ ’اردو کی برقی کتابیں‘ جس کا لنک (https://lib.bazmeurdu.net/) ہے، کی صورت اردو داں حضرات کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ دوسرے محترم راشد اشرف صاحب ہیں ، جو ہیں تو انجینئر مگر کتابوں اور اردو کی قد آور شخصیات کے گویا عاشق ہیں۔ موصوف اب اپنے کام کی بدولت کسی تعارف کے محتاج نہیں رہے۔ ان کی خدمات کا دائرہ تو کافی وسیع ہے کہ محترم محقق بھی ہیں اور خاص طور پر ابن صفی اور مولانا چراغ حسن حسرت کے حوالے سے بہترین تحقیقی کتابیں لکھ چکے ہیں مگر ان کا ایک اور کارنامہ تشنگان اردو ادب کے لیے یہ بھی ہے کہ وہ بھی ایک سائٹ اسکرائبڈ(Scribd) پر پانچ سو سے زیادہ کتابیں اپ لوڈ کر چکے ہیں۔

تیسرے صاحب ہیں اردو کی ایک بہت بڑی ویب سائٹ ’ہماری ویب‘ (Hamariweb) کے بانی اور سربراہ جناب ابرار صاحب!ابرار بھائی نوجوان ہیں اور اول الذکر دونوں صاحبان کی طرح اردو ادب ان کا میدان نہیں کہ وہ تو آئی ٹی کے میدان کے شہ سوار ہیں۔ مگر ان کی اردو کے لیے تڑپ حیران کر دینے والی ہے۔ جناب ابرار احمد صاحب نے صرف آٹھ سال پہلے اس ویب سائٹ کی بنیاد رکھی، اور حیرت انگیز رفتار سے ترقی کرتے ہوئے آج کئی ملکی و غیر ملکی ایوارڈ ونر یہ ویب سائٹ ’ہماری ویب‘ شاید پاکستان میں وزیٹرز کی تعداد کے حوالے سے سب سے بڑی ویب سائٹ ہے۔ انہوں نے بھی اردو ادب کے حوالے سے یہ شاندار کام کیا کہ آن لائن رائٹرز کو لکھنے کی ترغیب دی اور ان کے مضامین کوہماری ویب پر شایع کر کے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ اور حوصلہ افزائی وہ جادو ہے جس کے اثر سے آدمی کے دل و دماغ میں سوئی صلاحیتیں انگڑائی لے کر بیدار ہو جاتی ہیں اور انسان اس حوصلہ افزائی کے سہارے بڑی بڑی منزلیں پار کرتا چلا جاتا ہے۔

ہماری ویب کا اگلا قدم رائٹرز کلب کا قیام تھا، جس نے صرف تین ماہ کے قلیل عرصے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چنیدہ لکھاریوں کی ای بکس نہ صرف تیار کیں بلکہ مشہور ادیب پروفیسر سحر اکبر انصاری کی زیر صدارت آرٹس کونسل میں ان ای بکس کی شاندار افتتاحی تقریب کر کے یہ ثابت بھی کر دیا کہ اگر کچھ اچھا کرنے کا عزم ہو تو قدرت بھی بہت جلد اپنی راہیں کھول دیتی ہے۔آرٹس کونسل کی یہ تقریب اپنے جلو میں بے شمار حسین لمحات لے کر آئی اور یہ حسین لمحات ہمیشہ کے لیے میرے ذہن میں ایک خوشگوار یاد کے طور پر محفوظ ہو گئے! جب ہم وہاں پہنچے تو شام جوان ہو چکی تھی اور محفل جم چکی تھی۔ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہے تھے، ہمارے بلبل کی طرح چہکتے ساتھی، سنیئر صحافی کالم نگار عطا محمد تبسم صاحب، جو بہت ہی خوبصورت طریقے سے محفل کو آگے لے کر چلے۔ اسٹیج پر مشہور ادیب پروفیسر سحر انصاری صاحب براجمان تھے۔ ان کو دیکھ کر بے اختیار جون ایلیا اور میرا جی یاد آ گئے۔ وہی حلیہ … کاندھے تک لہراتے لمبے بال اور نقوش بھی بالکل جون صاحب جیسے!دل سے بے اختیار دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ ان کی عمر دراز کرے کہ ادب کی دنیا ویران سے ویران تر ہوتی جا رہی ہے۔ پندرہ ای بکس تھیں۔ تمام احباب کو ایک ایک کر کے بلایا گیا۔روزنامہ ایکسپریس سے تحریری تعلق رکھنے والے ہم دو دوستوں (میں اور عابد محمود) کی ای بکس بھی اس میں شامل تھیں۔ اور بھی بہت سے اخبارات میں لکھنے والے ساتھی اس خوشگوار تقریب کے میزبان بھی تھے اور مہمان بھی۔ آیندہ کے لیے یہ عزم کیا گیا کہ نہ صرف مزید لکھاریوں کی ’ای بکس‘ لائی جائیں گی بلکہ بتدریج ان ’ای بکس‘ کو کاغذ پر بھی منتقل کر کے باقاعدہ شایع بھی کیا جائے گا۔ مجھ سمیت کئی کالم نگاروں کے نزدیک شاید یہ بہت بڑی بات نہ ہو کہ اس تقریب میں کئی ایسے افراد بھی تھے جن کا جوش و خروش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ جو صرف لکھنے کا شوق رکھتے تھے، ایک ٹیم نے ان کے شوق کے لیے نہ صرف ایک وسیع پلیٹ فارم مہیا کیا بلکہ ان کی ایسی حوصلہ افزائی کی کہ مزید اچھے سے اچھا لکھنے کی ایک طلب ان میں پیدا کر دی۔

پچھلے سال ہم نے ایکسپریس میں ایک کالم لکھا تھا کہ ہم سال بھر میں مختلف دن مختلف ناموں سے مناتے ہیں۔ تو ایک دن ’’اعتراف ڈے‘‘ سے بھی منانا چاہیے تا کہ کم ازکم ہم سال میں ایک دن تو اپنے علاوہ دوسروں کی خوبیوں کا ادراک کرکے ان کا اعتراف کر سکیں۔ وہ لوگ جنہوں نے ہم پر کسی بھی نوعیت کا احسان کیا ہو،ا ن کا شکریہ ادا کریں۔ میں آج اس کالم کے ذریعے انہی تینوں اشخاص کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جو سود وزیاں کی تنگنائیوں سے بالاتر ہو کر محض اردو کے لیے اپنی بہترین صلاحیتیں استعمال کر رہے ہیں!

محترم اعجاز عبید صاحب، محترم راشد اشرف صاحب اور محترم ابرار احمد صاحب آپ تینوں کا بہت شکریہ!
Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 172123 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More