کراچی میں ایک دفعہ پھر خون کی
ہولی کھیلی گئی اس بار اسماعیلی برادری پر حملہ کیا گیا اور چند لمحوں میں
پنتالیس انسان خون میں نہلا دیئے گئے۔ بس عائشہ منزل جارہی تھی کہ راستے
میں صفورا گوٹھ پر چھ حملہ آوروں نے اس پر حملہ کردیا اوراپنی وحشت وبربریت
کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی خون کی پیاس بجھائی۔ کراچی بیک وقت وہ خوش قسمت
اور بدقسمت شہر ہے جس نے اپنے اندر پاکستان کے ہر علاقے، ہر مذہب، ہر فرقے
کے لوگوں کو جگہ دی ہوئی ہے اوران کی چھت اور رزق کا ذریعہ بنا ہوا ہے لیکن
دوسری طرف اس کی بدقسمتی کہ یہاں انسان اپنی قدر کھوچکا ہے، کون کون ہے اور
کون کس کا دشمن ہے اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتابس روز لاشیں گرتی ہیں
اور اٹھالی جاتی ہیں۔ نامعلوم افراد اور نامعلوم دشمن مسلسل برسرپیکار ہے
اور پاکستان کی اس معاشی شہ رگ پر حملہ آور ہے۔ کبھی یہاں دکانیں بند کردی
جاتی ہیں، کبھی فیکٹریاں جلادی جاتی ہیں زندہ انسانوں سمیت اورکبھی تعلیمی
ادارے بند کر کے مستقبل سے کھیل لیا جاتا ہے۔ اکثر واقعات کی ذمہ داری کا
لعدم تنظیموں کی طرف سے قبول کرلی جاتی ہے۔ ایسا ہی اس واقعے کے بارے میں
بھی کیا گیا اور جنداللہ اور آئی ایس آئی ایس نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی
لیکن کیا یہ ذمہ داری واقعی ان پر ڈالی جانی چاہیے یا سانحہ نلتر کی طرح
دشمن اپنی دہشت بٹھارہا ہے۔ وہاں تو حادثہ تھا یہاں واقعی حملہ تھا اور اگر
سمجھ لیا جائے کہ داعش یا جنداللہ نے کیا ہے تو آخر یہ لوگ کس کے اشارے پر
ایسا کررہے ہیں کچھ ماہ سے سکیورٹی کی صورت حال میں انتہائی کم لیکن ہونے
والی بہتری ایک دم سے مزید خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کراچی میں سبین
محمود کا قتل بلوچ قوم پرستوں اور علحدگی پسندوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش
تو تھی ہی ساتھ ہی بین الاقوامی طور پر یہ کوشش بھی کی گئی کہ پاک چین
معاہدوں پر بھی اثر انداز ہواجائے کیونکہ یہ واردات چین کے صدر کے دورہ
پاکستان کے فوراً بعد کی گئی اور انہیں یہ بتا نے کی کوشش کی گئی کہ
بلوچستان میں واقع بندرگاہ یعنی گوادر اُن کے لیے ہرگز محفوظ نہیں۔ اس وقت
پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے معاہدوں سے جو لوگ خوفزدہ اور فکر مند
ہیں اور جو اسے اپنے لیے معاشی خطرہ محسوس کررہے ہیں ان میں اگر صنعتی
ممالک شامل ہیں کہ جنہیں اپنی مصنوعات کی منڈی میں چینی بالادستی بڑھتی
ہوئی نظر آرہی ہے اور ساتھ ہی وہ پاکستان کی تزویراتی کے ساتھ ساتھ معاشی
اہمیت بڑھ جانے کے خوف میں بھی مبتلا ہورہے ہیں یہ سب کچھ ہے ہی لیکن ان
معاہدوں سے بھارت براہ راست متاثر ہو سکتا ہے جو خود کو خطے میں سپر پاور
کی حیثیت دے رہا ہے اور سمجھتا ہے کہ ان معاہدوں سے اور گوادر کے راستے پاک
چائنہ معاشی راہداری سے اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکے گی اور یہی وجہ ہے
کہ اس کی خفیہ ایجنسی راء مزید سرگرم ہو گئی ہے۔ اگر یہ کہا جارہا ہے کہ اس
واقعے میں راء ملوث ہے تو کچھ غلط نہیں ہے اور حسب معمول ان کالعدم اور ملک
دشمن تنظیموں سے یہ کام کروایاگیا ہے کہ اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرلیں۔
ان ذمہ داری قبول کرلینے والے بیانات کی حقیقت تو نلتر میں ہیلی کاپٹر کے
حادثے نے ہی ظاہر کردی ہے کہ ایک حادثے کی ذمہ داری بھی قبول کرلی گئی جو
کہ مکمل طور پر ایک فنی اور تکنیکی خرابی کے باعث پیش آیا۔ لہٰذا اس بار
بھی ایسا ہی ایک ذمہ داری قبول کرلینے والا بیان منظر عام پر لایا گیا۔ اس
واقعے کو بھی کئی طرح سے استعمال کیا جائے گا پاک چین معاشی راہداری کو
نقصان پہنچانے کے ساتھ اسے فرقہ واریت کا رنگ بھی دیا جائے گا بلکہ دیا
جارہا ہے۔ اسماعیلی برادری کے لوگ پاکستان کے پر امن شہری ہیں جنہوں نے
تعلیم اور صحت کے شعبے میں بالخصوص بہت کام کیااور ان کو یوں نشانہ بنانا
یقیناًپاکستان کے بہتر ہوتے امیج کوخراب کرنا ہے۔ اس حملے کے بعد پاکستان
میں اقوام متحدہ کے نمائندے جیکی بیڈ کاک نے کہا کہ ہم اس واقعے سے خوفزدہ
ہوگئے ہیںیعنی پہلا اثر آچکا اور دشمن کو پہلی کامیابی مل چکی۔ وزیراعظم کی
برہمی بھی بجا ہے کہ اگر دشمن کو ہمارے اندر سے اتنے مخلص کارندے میسر
آجاتے ہیں کہ وہ ان کی خاطراپنے ہموطنوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کررکھ
دیتے ہیں تو ہم کیوں اس کا توڑ نہیں کر پا رہے ۔جب تک ہم اپنی کوتاہی کا
اعتراف نہیں کریں گے تب تک ہم اپنی خرابیوں اور غیروں کی سازشوں کا تدارک
نہیں کرسکیں گے دشمن کی باربارکی کامیابی دراصل ہماری اپنی ناکامی ہے۔ اگر
ہم اپنا دشمن جانتے بھی ہیں تو اس کے اوپر ہماری نظر کیوں نہیں پڑرہی۔
مانتی ہوں کہ اپنے ہی اندر اپنے ہی بہروپ میں دشمن کی شناخت مشکل ہے لیکن
ظاہر ہے کہ اس کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا کر ہمیں ایسا کرنا ہو گا۔
دوسری طرف یہ ہماری پولیس کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کچھ دن
پہلے سندھ پولیس کے لیے ایک خوبصورت گیت میڈیا پر چلایا جاتا رہا لیکن وقت
آنے پر اس کارکردگی کا گراف سب کو پتہ چل گیا۔ بات کارکردگی دکھانے کی ہے
بتانے کی نہیں یہ خود نظر آجاتی ہے ۔ حادثہ ایک دوبار ہوتا ہے اگر باربار
ہو تو یہ اپنی ناکامی اور کوتاہی ہوتی ہے اور باربار ان کے لیے توجیہات
تلاش کرنا بھی اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہمیں
بیک وقت کئی دشمنوں کا سامنا ہے اور مقابلہ مشکل بھی ہے اور اس دشمن کے لوگ
میڈیا سے لے کر گلی کوچوں میں ہر جگہ موجود بھی ہیں اور ہماری ترقی اور
کوئی بھی کامیابی اس کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ ہم ہر بار یہ اعلان بھی کرتے
ہیں کہ ایسی کاروائیاں مزید برداشت نہیں کی جائیں گی لیکن قوم مجبور ہے اور
باربار انہیں یہ سب برداشت کرنا پڑرہاہے ۔ حادثوں کے بعد ہماری سیاسی اور
عسکری قیادت مل بیٹھتی ہے فیصلے بھی ہوتے ہیں لیکن ان پر عمل کی ضرورت ہے۔
فوج یہ جنگ لڑرہی ہے اور ہمت اور حوصلے سے لڑرہی ہے لیکن ہر ادارے کو ان
دشمنوں کے خلاف ہر محاذ پر متحد ہوکر لڑنا ہوگا قوم کو بحیثیت قوم اپنے
فرائض ادا کرنے ہوں گے اپنے اردگردکسی بھی مشکوک شخص اور منصوبہ بندی پر
نظر رکھیں اور اس کی اطلاع متعلقہ اداروں کو ضرور دیں۔ قوم کے ہر فردکو ایک
سپاہی کی طرح ان لوگوں سے لڑنا ہوگا اور ان کے منصوبوں اور ارادوں کی خبر
اپنے خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دینا ہوگی تو شاید ہم اپنے
ملک کواس ناسور سے پاک کر سکیں گے ۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔ |