روبہ ترقی روحانی شفاخانے
(Shaikh Wali Khan AlMuzaffar, Karachi)
دلیل واثبات کی ضرورت نہیں ،
انسانی شعور اورعُرف ِ عام کہتا ہےکہ ایک اچھے مطَب اور بہترین طبیب کی
علامت یہ ہوتی ہے کہ اس سے مریض کو شفایابی ہو، گو کہ اس کا محل وقوع مناسب
نہ ہو،ما حول بھی جاذب نظرنہ ہو، بناوٹ بھی دیدہ زیب نہ ہو،نظم ونسق بھی
شایانِ شان نہ ہو، اشتہار بھی زیادہ نہ ہو ، رکھ رکھاؤ میں بھی مبالغہ نہ
ہو،معالج کی تعلیمی اور فنی قابلو شں کی فہرست بھی طویل نہ ہو، پر جو مریض
آیا ،اس خستہ حال عمارت میں اسے اپنی نشست وبرخاست اور گردوپیش سے بے نیاز
ایک ایسا معالج میسر آیا،جو آنے والوں کیلئے جگہ کی تنگ دامنی کے باوجود
دیدہ ودل فرشِ راہ کےے ہوئے ہیں، جو اپنے کام و مقصد سے بے انتہا مخلص ،بیماروں
کے دکھ دردمیں شریک اوران کے دکھوں کے مداوا کے لیے بے کل ہے،ان کی دیکھ
بھال اورصحت کی بحالی کے لیے سرگرداں وپریشاں ہے، ایساسراپا رحمت طبیب جب
تشخیصِ مرض کیلئے مریض کی نبض ٹٹولتاہے ،تو اس کی انگلیوں کی برودت سے ہی
رنجورکی حرارت ِ بخار میں کمی آجاتی ہے ،پھر جب اس کا دست ِشفقت مریض کی
جبینِ ناز کو چھوتاہے، تو وہ گویا اس کی نسوں میں پھیلی ہوئ بیماری کو جذب
کر لیتا ہے ،سینے پر ہاتھ رکھتا ہے توجسم سے اٹھنے والی ٹیسیں دستِ طبیب کی
برقی لہر کے ساتھ تیلار ہوجاتی ہیں ، بیماری کی شناخت کے بعد لبوں پر ایک
حوصلہ افزا مسکراہٹ بھکیر کر جب وہ ہم دردی کے دومیٹھے بول بولتاہے، تو اس
رسیلے کلام کےنشاط افزا جھونکے سےمریض کی مردہ رگوں اور جمے ہوئے لہو میں
زبردست تازگی پیدا ہوجاتی ہے ۔
وہ زائل شدہ صحت کے نقصان کی سنگینی بھی بیان کرتاہے اور اس کی تلافی اور
تدارک کی صورتیں بھی بتاتاہے ،مریض کے توازن ِصحت کو برباد کرنے والی چیزوں
کے نکمے پن کوہی وجہ قرار دے کروہ ان سے آئندہ کے لئے پرہیز کا حکم دیتاہے،
اور جس خوراک کی اجازت دیتاہے یا اسے تجویز کرتاہے اس کی افادیت کو مریض کے
عقیدےسے نتھی کردیتاہے ،مریض شفاخانے سے اٹھتا ہے تو خود کو طبیب کا گرویدہ
پاتاہے اور وہ مطب اس کے دل میں ایسا گھر کرجاتاہے ،جیسے کوئی بر گزیدہ
شخصیت یامقدس مقام ،یوں از راہِ تقدیس اس کے گنبدِ خاطر میں وہ بسیرا کرتا
ہے۔
خلق کے غمگساری میں جب طبیب کی توانائیاں آزمودہ نسخوں کا معیار بر قرار
رکھنے کے ساتھ ساتھ علاج کی نت نئی شکلوں کی دریافت اور سلسلۂ علاج کی
وسعت میں صَرف ہوتی ہیں ،تب خلوص اور محنت کی مٹی اور ہمت واستقامت کے پانی
سے اُگنے والی یہ طبابت رفتہ رفتہ لوگوں کے دلوں کی دھڑ کن بن جاتی ہے ،
اور پھر کبھی خدا نخواستہ اگر اس طبیب یا اس کےمطب پر براوقت آتاہے ،یااس
کا وجود خطرے میں پڑتاہے ، تویہاں سے برسہابرس سےتندرستی کی دولت سمیٹنے
والے بے شمار لوگ اس کے دفاع اور بچاؤکیلئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ،وہ کسی بھی
بلاکارخ موڑ دیتے ہیں اور سلسلہ ٔطبابت پر بالکل بھی آنچ نہیں آنے دیتے۔
مریض اور معالج کا اَٹوٹ رشتہ ہے، جو زمانے کے بڑے سے بڑے طوفان کا مقابلہ
کرسکتاہے، ہوشیار معالج کسی بھی حیلے وسےلع کو اس رشتے کامتبادل سمجھنے کی
غلطی نہیں کرسکتا،وہ کبھی کھوکھلے نعروں اور بلند بانگ دعؤوں پر یقین نہیں
رکھے گا۔
میرے دیس اور گرد وپیش کے دینی ادارے بھی شفاخانوں کی مانند ہیں ، یہ مدعی
کا کوئی اپنا ذہنی اختراع نہیں،بلکہ یہ ایک ابدی سچائی ہے ،کتابِ حق کہتی
ہے کہ ‘‘شافی’’ رب کی صفت ہے،‘‘ شفا’’ کتاب خداوندی کی خاصیت ہے اوررب کے
عصیاں میں مبتلا ،نافرماں لوگ عنادونفاق کے مریض ہیں ،توپھر مسجد ومدرسے ہی
وہ شفاخانےٹھرے، جہاں اس نسخۂ شفاکی دستیابی ممکن ہے ۔
آج روحانی معالج(عالمِ دین) دوائےدل دے رہاہے اور مریضوں کو خاصافائدہ بھی
ہورہاہے ،مگر اُدھر نت نئے امراض رونما ہورہے ہیں،جبکہ یہاں بات دوانوشی
اور شفافروشی سے آگے نہیں بڑھ رہی ،اِدھر معالج میں وہ ہمدردی اور غمگساری
باقی ہے نہ نرمی اور دلداری ،بلکہ وہ بے رحمانہ طریےس سے فاسد موادکے اخراج
کیلئے فرسٹ اسٹیج میں ہی دل دہلانے والےعمل ِجرّاحی پر اتر آتاہے، اور پھر
مجروح کی دیکھ بھال کی ضرورت محسوس کرتاہے نہ زخم کے اندمال میں دلچسپی
لیتاہے ،تب دھول اُڑتی ہے ،کہیں پانی کے چھینٹے پڑتے ہیں،کئی ایک موذی
جرثومے اس کے رِستے زخموں کےدھانے پر جا پہنچتے ہیں اور اسے زخم خوردہ عضو
کے بگاڑکے اذیت ناک مرحلے سے گزرنا پڑتاہے، اس پر مستزاد یہ کہ معالج کی
ترش روئی مریض کی شکستہ طبیعت کو مزید پژمردہ کردیتی ہے ۔
معالج کی زبوں حالی اورنارسائی کا یہ عالم ہے کہ اس نے قصرِ سلطانی کی داغ
بیل رکھنے اورفنِ تعمیر کے نادر نمونے پیش کرنے کو مسیحائی کی معراج
سمجھاہےاور ہوس کے اَسپِ تازی پر بیٹھ کر تاریخ ساز اسلاف کے ہر اول دستے
میں شامل ہونے کا خواب دیکھاک ہے، انسانوں کی بستی میں دل والوں کی کمی
نہیں ہوتی،چناں چہ جہاں اہل نظر کرتے ہیں تازہ بستیاں آباد۔۔۔ وھاں جاگیر
دار کو بھی کوئی قطعۂ اراضی شفاخانے کیلئے وقف کرکے اپنے کالے دہن کو سفید
کرنے یا کم سے کم اوقات سےزیاد ہاتھ لگے اثاث کوہضم کرنے کی تدبیر سوجھتی
ہے، سرکا ر کو بھی بھی آل اولاد کی خیر او رعزت منصب کی بقاکیلئے کسی صاحب
ِآستانہ کی دعائیں درکار ہوتی ہیں، کسی گدی نشین کی آشیر باد کی ضرورت ہوتی
ہے اور وہ بہت کچھ ایواں کے نام کرنے میں سعادت سمجھتاہے۔
تب سچائی کے لبادے میں دست ِقدرت کامار، اور نگاہِ خلقت سے گراہوا کوئی
دریوزہ صفت وارد ہوتاہے ،کچھ ادائے دل نواز اور نوائے جاں فزا ہو،تو کاسۂ
گدائی لبالب بھرتاچلاجاتاہے ، اور ایک روز پھر اس بوریہ نشیں کے زیرِ نگیں
دنیا تعجب سے دیکھتی ہےکہ ایک فلک بوس وناپیداکنار سلطنت جگمگاتی ہے، جدّی
پشتی تہی دست کی دست رس میں آج قدرت کادیاسب کچھ ہوتا ہے۔
کوئی اسے صلۂ عمل کہتاہے، توکوئی منزلِ مراد، کوئی ہمتِ گدائی اورفنِ گنج
بخشی کاکرشمہ ،توکوئی حوصلہ ٔملامت کااثر، کسی دانائےرازکی ‘‘عقل ِ زر
خیز’’کو یہ راہ سوجھتی ہے پھر چراغ سے چراغ جلتاہے اور دیکھتے ہی دیکھتے
شفا خانوں کی ایک دنیا آباد ہوجاتی ہے، جن میں بظاہرمرضِ جہل کا علاج
ہوتاہے، فسادِ نظر کی دوا ملتی ہے ، علیل طبیعتوں کی اصلاح کی کو شش ہوتی
ہے ، بعض کیمیااثر ‘‘نسخوں ’’سے کام لےکے مریضوں کی رگِ عاطیت پھڑ کانے کی
یک گونہ مخلصانہ سعی ہوتی ہے ، لہذاایک مفید سلسلہ بھی چل جاتاہے ،اس طرح
کسی نہ کسی کا تو فائدہ ہوہی جاتاہے، یہ بھی کیاکم ہے کہ کچھ گھرانے دینی
اور دنیاوی لحاظ سے خود کفیل ہوجاتے ہیں ،اور عزتِ نفس کا محرمِ راز
بنتےہیں ،نو مسلم کے ایمان کی طرح نو دولتو ں کامال بھی کمال کی تاثیر
رکھتاہے، کہیں کسی فیلڈ میں تو صلاحیتوں کا لوہا منوادیا ، ان طبیبوں کا
قبیل اپنی بستی کی بقا، اور باسیوں کے مفاد کیلئے بعض اوقات اٹھ کھڑا ہونے
میں حق بجانب ہے ، زمانے کو مگر شفاخانے کے تحفظ کا خیال جب ہی آئے گا ،جب
وہ ملت کے حفظانِ صحت کو اولین ترجیحات میں رکھے گا ،بصورتِ دیگروہ اپنے
دجود کا جوازہی کھودے گا ،کیوں کہ زمینی سچ یہی ہے کہ شفاخانے کا اثاثہ صحت
پانے والے مریض ہوتے ہیں، نہ کہ معمار،حصے دار، تیمار دار اور دیگر نمک
خوار، اگرمرکزِ شفا صحت جیسی ہزار نعمت کا ضامن ہے، تو یہی اس کی نیک نامی
ہے اور اسی میں اس کا سامانِ بقاہے، ورنہ ظاہری رعب ودبدبے اورثروت وخطابت
کے زور پر اس کے لئے بیرونی ہمدرد وجانثار تلاش کرنا عبث اور ناپائیدار عمل
ثابت ہوگا۔
عمومی طور پرروحانی معالج میں ماضی کی طرح کامل بے غرضی ہے نہ واضح مقصد یت
ہے ،وہ انگریزی دواکے مثل مرض زائل کرنے کے بجائے دبانے چھپانے کاکام کرتا
ہے ، وہ نادار ولاچاربیمارکے ساتھ حاکمانہ ابھے تبھے اور کامل بے رُخی سے ،جبکہ
خوشحال و متنعم مریض سے آپ ،جناب اور خادمانہ مسکراہٹوں کے لہجے میں مخاطب
ہوتاہے ،یہیں سے وہ ایک طبقاتی امتیاز میں منقسم سماج میں اپنا مقام متینس
کردیتاہے ،وہ درحقیقت نادار کو نہیں خود ہی کو فریب دیتاہے،دوعملی ثابت کر
کے اپنے ہی پاؤں پر کلھاڑی مارتا ہے، ادھر نئی دنیا میں دریافتوں کی بھر
مار ہے اورمیرا معالج ابھی تک پرانی گلی سڑی ترکیبوں اور قرونِ وسطی کے
ٹوٹکوں کوماہرِ آثارقدیمہ کی طرح سینے سے لگائےبیٹھا ہے، پھر روشن دماغ اور
جہاں دیده شہری، اورترقی یافتہ سماج کواس کاطرزِ عمل کیسے بھاسکتاہے،
لامحالہ اس کا مطب پسماند گاں و تنزل زدگاں کی آماجگاہ بن جائےگا ،جو بیشتر
طور پر خام خیال اورکوڑھ مغز ہوتے ہیں، جن کے کیسۂ دانش میں نفیس جواہرات
سما ہی نہیں سکتے، پھر جب خوراک میں بھی خسّت اور ماحول میں سڑاند ہو ،تو
خون بھی لازماًگدلا ہی پیدا ہوگا، اور پھر اس سے جنم لینے والے تخیّل
وادراک میں بھی ژولیدگی ہوگی، سوچئے، ایسوں کو آگے جاکرکوئی کیمیااثر
معالج بھی کتنا اور کیسے رو بصحت کرسکتا ہے ؟؟
سبق اس حکایتِ دراز کا فقظ اتنا ہے کہ سماج کو شفاخانوں کی ضرورت کل بھی
تھی اور آج بھی ہے، پریہ مسیحا کی شکم سیری ،تعیش اورخود نمائی کاذریعہ
نہیں، بیمار سوسائیا کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کی خرابیوں کی تشخیص اور پھر
ان میں دلداری کے ساتھ صحت ہزار نعمت کی خوشیاں بانٹنے کا ذریعہ ہے اور کچھ
نہیں ،اس هدف کا خوش اسلوبی سے حصول ہی اس میدان میں ترقی کہلاتا ہے۔
ظالم سماج یا کچھ اپنے اور پرائےدشمنانِ صحت ،شفاخانے کی لغزشیں اچھال کر
بندش کا بے جا مطالبہ کرتےہیں اورادہر ہمارے شفا خانے کا غافل و نارَسا
مسیحابھی منزل سے بھٹکا ہوا راہی ہے، جو‘‘شفا ’’کو بھول کر خالی خانے کی
تقدیس کی ثنا خوانی میں شکوهٔ بے جا کرکے عصری شعور سے عاری ہونے کا ثبوت
دے رہاہے،یہ رونا تو ان کا رویا جاہا ہے جو قرآن کریم کو ‘‘شفاءٌ لما فی
الصدور’’سمجھتے اور گردانتے ہیں،غلطی سے ان کی ساری توانائی انسانیت کی
تعمیر پر نہیں بلڈنگوں کی تعمیرات پر صرف ہوتی ہے،ان کا کیا کیجئے گا جنہوں
نے اس کتاب ِمقدس کو صرف ظاہری و بدنی امراض کا تریاق سمجھا اور پھر اس کے
لئے کار خانے کھول کر بیٹھے ہیں،کتاب کا اصل پیغام کیا ہے، انہیں خبر نہیں۔
اس علاج وشفا کے طے شدہ اور مجرب طریقوں کے ساتھ اس کی تأثیر کے جدید ترین
اور غیر مضر، نت نئےاسبا ب وعوامل کو بروئے کار لانے کی حاجت ہے،کیونکہ خوب
سے خوب ترکی ضرورت سب کے یہاں مسلّم ہے ،بہتر سے بہترین کی طرف سفر نیک
نامی کا یقینی ضامن ہے ،اس کا رگاہِ حیات کے قاضی کا ازل سے فیصلہ ہے، کہ
ناقد کی انگلیاں اٹھتی ہیں،بے خبر کے کان کھڑے ہوتے ہیں، دل کی دھڑکن تیز
هوتی ہے، آنکھں نشانہ لیتی ہیں ،پھرکہیں جاکرراست قدم اٹھتے ہیں اور
کامیابیاں قدم چومتی ہیں ۔
گویامسیحائی کے دعوے دار کی حقیقی منزل ابھی نہیں آئی ہے ،اس کابہت کام
باقی ہے ،ادب کا انجکشن اور علم کی گولیاں دینا ہی اس کی ذمہ داری نہیں
،علم ِابدان کے ماہرین جس طرح ابتدائی طبی امداد اور مکمل علاج کافرق ملحوظ
رکھتے ہیں، کمپاؤنڈر اور اسپیشلسٹ کا دائرہ کار متعین کرتے ہیں ، ری ایکشن
اورسایڈ ایفیکٹس سے نمٹناجانتےاور بتاتے ہیں ، دوا کے ساتھ غذامیں توازن کی
ہدایات دیتے ہیں، ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ، قوتِ مدافعت کی بڑھو تری
،حفظانِ صحت کے اصول اور صحت ومرض کے حوالے سے شعور وآگہی پیدا کرنے کی سعی
کرتے ہیں، اسی طرح یا اس سے بھی بڑھ کر ایک روحانی معالج بھی جب ایک صحت
مند معاشرے کی تشکیل چاھتاہے، تواس کاخاکہ یا نصب العین یہ ہوتا ہے کہ وہاں
فکرونظرمیں اعتدال ہو ،ماحولیاتی رنگارنگی ہو ، معاشرتی احترام وانبساط ہو
، چُوک جانے والے کی رحمدلانہ مددہو، سائل کی تشفی کی فکر ہو، کانوں میں رس
گھولنے کا ہنرِِ گفتگو ہو ،مہلک اخلاقی ومعاشرتی جراثیم کی قلع قمع کی گہری
جستجو ہو ۔
مثبت ارتقا اور مفید اجتماعیت کے لئے سازگار مواد کا فروغ ہو ، اعلیٰ مثالی
معاشرے کی تیل کیلئے ضروری عناصر کی تخم ریزی ہو اور اس کا ر خانۂ عالم
میں ہر طرف روشنیوں کو عام وتام کرنے کی مہم جو ئی جوبن پر ہو،تب جاکر یہ
روحانی علاج کے نام پر بننے والے خانے حقیقی شفا خانے کہلائنگے،توفیق یا رب
۔ |
|