طلاق کا سب سے اہم سبب !
(Muhammad Yaseen Siddiq, )
اﷲ تعالی چاہتا ہے کہ انسان خوش
رہے ( اور اپنی زوج کے ساتھ جنت میں خوش ہو کر رہو(القرآن مفہوم ) انسان
خود بھی خوش رہنا چاہتا ہے ۔ لیکن شیطان چاہتا ہے کہ میاں بیوی میں
اختلافات ہوں ۔ وہ خوش ہو کر نہ رہیں ۔ اس بات سے سب ہی واقف ہیں کہ شیطان
کو سب سے زیادہ خوشی میاں ،بیوی کے اختلاف سے ہوتی ہے (آپ ان افراد کو بھی
شیطان ہی سمجھیں جن کو اس سے خوشی ہوتی ہے )کیونکہ اس سے نہ صرف دو افراد ،بلکہ
ان کے بچے یا دو خاندان برباد ہوتے ہیں ۔طلاق ہوتی کیوں ہے وہ رشتہ جو اتنی
خوشی سے طے کیا جاتا ہے آخر ایسا کیا ہو جاتا ہے کہ اسے ختم کرنے کا سوچا
جانے لگتا ہے ۔میاں بیوی کی آپس میں ناچاقی ،حقوق و فرائض کی لڑائی ۔لیکن
دیکھا یہ گیا ہے کہ میاں یا بیوی کو اپنے حقوق و فرائض کا علم ہی نہیں ہوتا
،اگر ہوتا ہے تو وہ اس کو اہمیت ہی نہیں دے رہے ہوتے ۔سوچنے کی بات یہ ہے
کہ اچانک میاں ،بیوی کے اختلافات اتنے کیسے بڑھ جاتے ہیں کہ نوبت طلاق تک
جا پہنچتی ہے -
طلاق کے اسباب میں سے ایک اہم سبب دین اسلام سے دوری ہے ،اس کے بعد دیگر
وجوہات آتی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو دنیا کے علم کے
ساتھ دین کا علم کم سیکھاتے ہیں ،سمجھاتے ہیں ۔ تربیت نہیں کرتے کاش ذرا
توجہ اس طرف بھی ہوتی کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو دین آشنا بنایا جاتا،کسی نے
کیا خوب کہا ہے کہ بیٹی کو قرآن کے سائے میں رخصت کرنے کے بجائے قرآن کی
تعلیمات دے کر رخصت کرو گے تو اس کی زندگی زیادہ اچھی گزرے گی ۔ کاش لڑکے
اور لڑکی کو ان کے حقوق و فرائض سے آگاہ کیا جاتا مثلاََ زندگی گزارنے کا
طریقہ کیا ہے ؟ میاں بیوی کے حقوق و فرائض کیا ہیں؟ شادی کا مطلب کیا ہے ؟
،شادی کا مقصد کیا ہے؟ اس رشتے کو نبھانا کتنا ضروری ہے ؟ وغیرہ ۔یہ بھی ہے
کہ جس سے پوچھو اسے دین اسلام کے اس بارے میں کیا احکام ہیں اس کا علم ہوتا
ہے ۔سوچیں ۔اس ک باوجود گھر جہنم کیوں ہیں ؟اس لیے کہ عمل نہیں ہوتا اس لیے
کہ ان کو اہمیت نہیں دی جاتی ،اس لیے کہ شیطان کے اشاروں پر باچا جاتا ہے ،اس
لیے کہ اپنی ضد کو اﷲ کے احکام سے افضل سمجھاجاتا ہے ۔نکاح تو مولوی صاحب
پڑھا دیتے ہیں۔ اب زوجین کو علم ہی نہیں کہ ان کے کاندھوں پر کتنی بھاری
ذمہ داری آن پڑی ہے ، اور یہ کہ اس ذمہ داری داری کو پورا نہ کرنے سے سزا
کیا ہوگئی ۔اس دنیا میں اور آخرت میں ۔ان کو معلوم ہی نہیں کہ ازدواجی
زندگی کو کیسے خوشگوار بنایا جا سکتا ہے ۔وغیرہ وغیرہ دونوں سے غلطیاں ہوتی
ہیں ،تالی دو ہاتھوں سے ہی بجتی ہے ، چھوٹی چھوٹی باتیں اس کا سبب بنتی ہیں
ہوتا یہ ہے کہ نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے ۔پھر یہ بھی معلوم نہیں کہ طلاق
سے شیطان کو کتنی خوشی ہوتی ہے اور اﷲ کو سخت ناپسند ہے (اس بابت تو بہت کم
سوچا جاتا ہے کہ اسلام میں طلاق کے آداب کیا ہیں )۔ ایک بار اگر میاں بیوی
میں ناچاقی ہو جائے تو اب خاندان ،والدین ،بہن بھائی ، دوست احباب اس لڑائی
کو بڑھانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں ، یعنی سب شیطان کا ہاتھ بٹاتے
ہیں ۔بہت کم بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو میاں بیوی میں صلح کروانے کی کوشش
کرتے ہیں اور یہ کوشش صرف اﷲ کی خوشنودی کے لیے کرتے ہیں ۔اب میاں بیوی ضد
،انا،تکبر،کے ساتھ ساتھ دلوں کو پتھر بنانے کی،ایک دوسرے کو سبق سکھانے کی
، نیچا دکھانے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں اور ان دونوں کے قریبی عزیز اس میں
ان کا حوصلہ بڑھاتے ہیں ،ساتھ دیتے ہیں یہ وہ ہی عزیز ہوتے ہیں کل جنہوں نے
اس جوڑے کی شادی کی ہوتی ہے اب تماشا دیکھتے ہیں ۔اس دوران شیطان اپنی پوری
صلاحیتیں ان کی جدائی کے لیے خرچ کرتا ہے ۔انجام یہ ہوتا ہے کہ اکثر بیوی
بچوں کو اپنے ساتھ میکے لے جاتی ہے اور بعض اوقات بیوی(اگر زیادہ پتھر دل
ہویا اسے والدین یا بھائیوں کی سپورٹ حاصل ہو)تو خاوند کو سبق سیکھانے کے
لیے بچوں کو خاوند کے پاس چھوڑ کر میکے کا راستہ لیتی ہے ۔ اگر بچے ناسمجھ
ہیں تو ان کی زندگی اور بھی اجیرن ہوکر رہ جاتی ہے ۔ طلاق اپنے بچوں پر بھی
ظلم ہے ، کیونکہ باپ کبھی بھی بچوں کو ماں کا پیار نہیں دے سکتا اور نہ ہی
دوسری ماں(اگر خاوند دوسری شادی کر لے ) حقیقی ماں کی طرح بچوں سے محبت
کرسکتی ہے ۔طلاق خانگی زندگی کی تباہی کے ساتھ سب سے زیادہ اولاد کو متاثر
کرتی ہے دیکھا گیا ہے کہ طلاق کی آگ کی لپیٹ میں بچے بری طرح جلتے اور
جھلستے رہتے ہیں، یہ آگ ان کے ماں باپ نے لگائی ہوتی ہے ،ضد ،انا ،بغض کی
آگ ، دوسرے کو کمتر جاننے کی آگ طلاق جیسا انتہائی قدم اٹھانے والے لمحے
بھر کو بھی اِس نکتے پر غور نہیں کرتے ،سب سے زیادہ متاثر بچے ہوتے ہیں ان
کی تو زندگی ہی تباہ ہو جاتی ہے ہم نے بعض ایسی مائیں بھی دیکھی ہیں جو
اپنی اولاد کو چھوڑ دیتی ہیں ضد نہیں چھوڑتیں ۔ بعض باپ ایسے ظالم ہوتے ہیں
جو اولاد کی زندگی برباد کر دیتے ہیں لیکن سمجھوتا نہیں کرتے ۔نتیجتاً ا ن
کے بچوں کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے اور وہ کبھی نہ ختم ہونے والی احساس کمتری
اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہوجاتے ہیں۔نفسیاتی اور دماغی امراض کے ہسپتالوں
میں کئے گئے سروے کے مطابق اِن بیماریوں میں مبتلا ہونے والے مریضوں میں
بڑی تعداد ایسے افراد کی ہوتی ہے جوطلاق کی وجہ سے بچپن میں والدین کی شفقت
سے محروم ہوجاتے ہیں،یہ محرومی بچوں کو جرائم کی طرف راغب کرنے کا سبب بنتی
ہے ،جن والدین کے درمیان طلاق واقع ہوجاتی ہے ،ا ن کے بچے معمول کی زندگی
گزارنے کے قابل نہیں رہتے ،وہ عدم توازن اور عدم تحفظ کاشکار ہوجاتے ہیں۔
طلاق کی اور بھی وجوہات ہو سکتی ہیں ،میں نے جتنا غور کیا ہے طلاق کے جتنے
بھی اسباب ہیں ،ان سب کی جڑ ایک ہی ہے ،وہ ہے اﷲ کے حضور ،اپنے اعمال کی
جواب دہی ہے ۔دوبارہ پھر سمجھیں آخرت کا خوف نہ ہونا ہے ،اگر والدین اپنی
اولاد کی تربیت خوف خدا پر کریں تو ایسا دن کبھی نہیں آ سکتا۔لیکن ہمارے
ہاں اپنی اولاد کو طلاق پر خود اکسایا جاتا ہے ۔
جب معاشرہ میں مادہ پرستی ، حد سے زیادہ بڑھ جائے ،پیسے کو خدا سمجھا جائے
،کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فتوی اس کی امارت یا غربت کی وجہ سے ہو تو
ایسے لوگوں کو اﷲ کی باتیں ،اﷲ کے رسول کی باتیں ،آخرت کے خوف اور جواب دہی
کی باتیں کب سمجھ آتی ہیں ۔آتی بھی ہے لیکن تب تک وقت گزر گیا ہوتا ہے ،ایسے
ہی موقع کے لیے کہا گیا ہے کہ اب پچھتائے کیاہوت جب چڑیاں چک گئی کھیت ،لیکن
ہم نے اسی معاشرے میں ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو آخری لمحے تک اپنی ضد پر
اڑے رہتے ہیں ،اور اپنے جیون ساتھی کو نیچا دکھانے کی تگ و دو میں اپنی ،اپنے
ساتھی کی ،اپنے بچوں کی زندگی برباد کر دیتے ہیں ۔ان کو اپنی آخرت کا بھی
خوف نہیں ہوتا ۔جب کسی فر د (میاں یا بیوی ) میں بڑھی ہوئی شخصی آزادی ،
جنسی بے راہ روی ، انانیت (یہ مین سبب سمجھیں) ، لالچ ،ہوس اور بخل ناسور
یا کینسر کی طرح پھیل چکا ہو تو ،اﷲ سبحان و تعالی ،رسول اﷲ ﷺ اور بزرگوں
سیانوں کی باتیں کب اثر کرتی ہیں ، اور پھر بات بات پر ،گھر جہنم نہ بنے یا
طلاق نہ ہو تو کیا ہو۔ |
|