بے پناہ وسائل اورمسلم ممالک کی ترجیحات
(Prof Masood Akhter Hazarvi, )
ہمیں اسلامک ہیلپ کے فلاحی کاموں
کی دیکھ بھال کے سلسلے میں براستہ دوبئی مشرقی افریقہ کے ملک تنزانیہ آنا
تھا۔ ایک دن ہم دوبئی میں رکے۔ یقینا یہاں کے پرشکوہ مناظر، بلند و بالا
عمارتیں اور منی یورپ ماحول زائرین کیلئے بہت دل خوش کن ہے۔ یہ سب دیکھ کر
جو خیالات ذہن میں ہلچل مچا رہے تھے ، سوچا کہ قارئین سے بھی شیئر کریں۔
عجیب بات یہ کہ یہ ماحول میرے لیے خوشی اور افسوس کے ملے جلے جذبات کا مظہر
تھا۔ اس حوالے سے اپنے رفقائے سفر پیر سلطان فیا ض الحسن قادری، پیر سلطان
فیاض الحسن قادری ، قاری ظہور احمد سیفی اور علامہ محمد عامر صاحب بھی
تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مسلم ممالک تیل، گیس،
سونا، چاندی ، پلاٹینیم اور دیگربے پناہ قدرتی وسائل اور معدنی ذخائر سے
بھرے پڑے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی امارت اورترقی کی منازل میں بھی
ان وسائل کا بڑا ہاتھ ہے۔یورپ اور امریکہ کے بنک مسلم ممالک کے حکمرانوں کے
جائز و ناجائز خزانوں سے بھرے پڑے ہیں۔لیکن دوسری طرف جہالت، غربت اور
کسمپرسی کے حالات بھی زیادہ تر مسلمان ممالک میں ہی ہیں ہیں۔
دوبئی میں برج الخلیفہ دیکھ کر فن تعمیر کی داد دیے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔
یہاں محمد بن راشد المخطوم کے نام پر ایک نیا شہر بس رہاہے۔ یہ سیاحت، فنون
اور تجارت کا بڑا مرکز ہے۔ ایک سو کے قریب ہوٹل اور دنیا کا سب سے بڑا
شاپنگ مال بھی اس کا حصہ ہیں۔ صرف آئی لینڈ منصوبہ پر اٹھنے والی لاگت آج
سے چند سال پہلے چھ ارب ددرہم تھی۔ کہا جا تا ہے کہ یہ دنیا سب سے بڑا
ٹورازم پوئنٹ ہے۔ اسی طرح انتہائی خوبصورت مصنوعی واٹر کینال بھی دوبئی میں
ہے۔ اس پر بے مثال اور دیدہ ذیب قسم کے پل تعمیر کیے گئے ہیں۔ یہاں چلنے
والی کشتیاں بھی بہت پر تعیش ہیں۔ اس کینال کے ارد گرد بڑے بڑے مہنگے اور
پر شکوہ ہوٹل ہیں۔ یہاں منفرد قسم کے تفریحی مراکز بھی ہیں تاکہ زائرین زرا
بھر بھی بوریت کا شکار نہ ہوں۔ اس منصوبہ پر کچھ سال پہلے آٹھ ارب درہم
اخراجات آئے۔ ابھی بھی کئی منصوبے زیر تکمیل ہیں جن کی لاگت اربوں ڈالرز ہے۔
سعودی عرب کے شہزادہ ولید بن طلال بھی کسی سے پیچھے نہیں۔دنیا کا سب سے
بلند(سولہ ہزار میٹر اونچا) برج تعمیر کر رہے ہیں جو دو ہزا سولہ کے اختتام
تک مکمل ہو گا۔ جس کی لاگت اربوں ڈالرز ہوگی ۔ دیگر خلیجی ممالک میں بھی اس
طرح کے کئی منصوبے مکمل یا زیر تعمیر ہیں۔ تفصیلات کیلئے کالم کے دامن میں
وسعت نہیں البتہ ان منصوبہ جات پر اٹھنے والے اخراجات ایک دفعہ ہوش ضرور
اڑا دیتے ہیں۔ قطر 2022 میں فٹبال میچ کی میزبانی کریگا۔ ہوٹل، کھیل کے
میدان اور سڑکیں زور شور سے بن رہی ہیں۔ مقابلے سات شہروں میں ہوں گے اس
لئے ساتوں شہروں کا مکمل انفراسٹرکچر تبدیل کیا جا رہا ہے۔ پل، زیر زمین
ٹرینیں اورسڑکیں تعمیر ہورہی ہیں۔ نوے ہزار کمروں کے ہوٹلز زیر تعمیر ہیں۔
فٹ بال کی میزبانی کیلئے ان منصوبہ جات پر اخراجات کا تخمینہ ستر ارب ڈالر
ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان تمام منصوبہ جات کی تکمیل پر ان ممالک کو اس
سرمایہ کاری کی نتیجے میں بہت منافع ہوگا۔ دنیا بھر سے لوگ یہاں آکر
ملازمتیں کریں گے۔
قارئین کرام!! یہ تصویر کا ایک رخ ہے جو آپ کے سامنے رکھا۔ ہم دوسرا رخ بھی
آپ کو دکھانا چاہتے ہیں۔ عالمی سطح پر ہر سال دنیا کی بہترین یونیورسٹیز کی
درجہ بندی ہوتی ہے۔ اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ دنیا کے کس ملک کا کون سا
ادارہ تعلیمی معیار اور سہولیات کے لحاظ سے کس کس نمبر پر ہے۔Academic
Ranking of World Universities 2014 کے مطابق پہلی ۱یک سو پچاس یونیور
سٹیوں میں سے ایک بھی کسی مسلمان ملک کی یونیورسٹی نہیں جو کہ ان حکمرانوں
کیلئے شرم سے مر مٹنے کا مقام ہے۔ اربوں ڈالر تفریحات پر خرچ ہو رہے ہیں
لیکن تعلیمی اداروں کے معیار کو بہتر بنانے کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ قطر،
دوبئی، ابوظہبی اور دیگر مسلم ممالک میں جو بڑی بڑی یونیورسٹیاں ہیں وہ
امریکی اور یورپی یونیورسٹیوں کے کیمپس ہیں۔ ان ممالک نے اپنے کیمپس کھول
کر کاروبار بھی چلایا ہوا ہے اور ساتھ ساتھ اپنا کلچر بھی وہاں کی نوجوان
نسل میں بآ سانی پہنچا رہے ہیں ۔ مسلم ملک برونائی میں دولت کی ریل پیل ہے۔
وہاں شاہی محلات کے باتھ روم کی ٹوٹیاں بھی خالص سونے کی ہیں۔ کہا جاتا ہے
کہ وہاں کے بادشاہ نے کبھی پرانے نوٹ کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ لیکن
یونیورسٹی ایک بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک
میں ایسے ایسے بادشاہ اور شہزادے موجود ہیں کہ ان کی چند کاروں یا ایک محل
کو بیچ کر ایک بہترین یونیورسٹی بن سکتی ہے۔ ملائشیا کی طرف بھی مسلم ممالک
کے طلبہ حصول تعلیم کیلئے جا رہے ہیں ۔ لیکن وہاں بھی اعلی تعلیم امریکی
اور یورپی یونیورسٹیز کے کیمپس میں ہے۔ ملائشیا کی اپنی یونیورسٹیاں ابھی
عالمی سطح پر اعلی معیار کی نہیں۔ پاکستان میں بھی بڑی بڑی انوسٹمنٹ کا ذکر
ہو رہا ہے جو کہ خوش آئند ہے لیکن وہاں بھی اس پورے منصوبے میں تعلیمی
معیار کی بہتری کے بارے کوئی خبر سننے کو نہیں ملی۔ مسلم ممالک میں وسائل
کی کمی نہیں بلکہ مسئلہ ’’تر جیحات‘‘ کا ہے۔ اسلام کا آغاز ہی لفظ ’’اقرء‘‘
سے ہوا جس کا معنی ہے پڑھ لیکن مسلم حکمرانوں کو تعلیم کی طرف توجہ ہی نہیں۔
انہیں احساس ہی نہیں کہ اکیسویں صد ی میں سائینسی علوم اور ٹیکنالوجی کے
فنون قوموں کی زندگی کیلئے موت اور زندگی کا مسئلہ بن چکے ہیں ۔ مسلم
حکمران علم کی اہمیت کے شعور سے عاری ہیں یا شاید جان بوجھ کر اس طرف توجہ
نہیں دیتے کہ لوگوں کو باشعور بنا کر کہیں اپنے پاؤں پر ہی کلہاڑی نہ مار
دیں۔ ان کے اپنے بچے تو دنیا کی مہنگی ترین یونیورسٹیز میں پڑھ رہے ہوتے
ہیں لیکن یہ سارے مسائل تو عوام الناس کیلئے ہیں۔ یہ بات آج کی نہیں بلکہ
اس زوال کی کہانی صدیوں پر محیط ہے۔ جس سال ایک مغل بادشاہ اپنی بیوی کے
نام پر’’ تاج محل‘‘ تعمیر کر رہا تھا اسی عرصہ کے دوران برطانیہ میں کیمبرج
اور آکسفورڈ جیسی یونیورٹیز کی بنیاد رکھی جارہی تھی۔ کاش وہ بھی کوئی ایسی
یونیورسٹی بنا دیتا تو شائد مسلم امہ کو علمی رسوائی کے یہ دن نہ دیکھنے
پڑتے۔ |
|