سِل کا بَٹّہ

ایک دیہاتی کی بیوی بہت ہی نازک مزاج تھی۔ جب بھی اسے کوئی کام کہا جاتا وہ ہزار نخرے کرتی اور کام سے جی چراتی۔ ایک دن دیہاتی نے اپنی بیوی سے کہا کہ سامنے رکھا ہوا سل کا بٹّہ تو مجھے اٹھادو۔ جس پر بیوی نے ہزار نخرے کئے اور کہنے لگی کہ میری کلائیاں اتنی کمزور ہیں کہ اس بٹّے کو اٹھانا میرے بس کی بات نہیں ۔ اور پھر یہ سل بٹّہ اتنا وزنی ہے کہ مجھ سے اٹھایا ہی نہیں جائے گا۔

دیہاتی ، بیوی کی باتیں سن کر بڑا پریشان ہوا اور سوچنے لگا کہ اس بیوی کے ساتھ میرا گزارہ کیسے ہوگا۔ میں ایک جفا کش اور محنتی انسان ہوں اور بیوی کے نخرے تو حد سے زیادہ ہیں، زندگی کی گاڑی کیسے چلے گی؟۔ دیہاتی بڑا سمجھ دار اور ہوشیار تھا ، وہ شام کو گھر میں آیا اور خاموشی سے وہ سل کا بٹّہ اٹھا کر لے گیا اور سنار کے پاس لے جاکر اس پر سونے کا پانی چڑھواکر گھر آیا۔گھر آکراس نے بیوی سے کہا کہ تیرے لئے سونے کا بہترین قسم کا زیور بنوا کر لایا ہوں۔

بیوی نے جب یہ سنا تو اسے بڑا تجسس ہو ا کہ وہ کیسا زیور ہوگا ۔میاں سے کہا کہ جلدی سے دکھاؤ وہ زیور کہا ں ہے۔ دیہاتی نے کہا اگر تو اسے پہنے تو میں تجھے دکھاتا ہوں۔ کہنے لگی ضرور پہنوں گی ۔ جب بیوی کا تجسس زیادہ بڑھا تو اس نے وہ سل بٹہ جس پر وہ سونے کا پانی چڑھواکر لایا تھا اور ساتھ میں سونے کی زنجیر بھی ڈلوائی تھی، نکالا اور بیوی کے سامنے پیش کردیا۔

بیوی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، فوراََ گلے میں لٹکالیا اور خوشی خوشی سارا دن اسے گلے میں لٹکائے گھومتی پھرتی رہی۔ بلکہ گھر کے سارے کام کاج بھی کرتی رہی۔ دیہاتی نے پوچھا کہ یہ زیور کیسا ہے ؟ زیادہ وزنی تو نہیں؟ کہنے لگی نہیں، یہ تو اتنا ہلکا ہے کہ کیا کہنے۔ دیہاتی نے کہا کم بخت! یہ وہی پتھر ہے جو کل تجھے وزنی لگ رہا تھا اور تو اسے اٹھانے سے اپنی معذوری ظاہر کررہی تھی۔ اور آج سارا دن تو اسی پتھر کو اٹھائے اٹھائے پھرتی رہی اور تجھے ذرا وزن محسوس نہیں ہوا ۔ محض اس لئے کہ اس پتھر کے ساتھ آج سونے کا نام آگیاہے۔ (ماخوذ)

مسلمان بھائیوں اور بہنوں ،سادگی اور اسلامی شعار کو اپنائیے۔فیش کے نام پرعجیب وغریب ملبوسات، زیورات اور فضول چیزوں میں اپنا دل مت لگائیے۔موبائل فون اور انٹرنیٹ مانا کہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اہمیت رکھتے ہیں اس کا استعمال ایک حد تو درست ہے ۔لیکن ان کا فضول، ناجائز اور غیر اخلاقی استعمال عزت و سکون دونوں برباد کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ یہ زندگی چند روزہ اور عارضی ہے۔ تو پھر دنیا کے چند روزہ عیش و طرب میں دل لگانے کا کیا فائدہ۔ مسلمان بھائیوں اور بہنوں تم تو ایسی عظیم المرتبت قوم سے تعلق رکھتے ہو جسے اﷲ نے پوری دنیا میں ممتاز کیا ہے۔لہٰذا‘ بطور مسلمان غیرت کا تقاضہ تو یہ ہے زندگی کے تمام معاملات میں حرام اور حلال، شرم و حیا اور بے حیائی میں فرق کو قائم رکھا جائے۔ ہم اشرف المخلوقات کہلانے کے حق دار اسی وقت ہونگے جب ہم زندگی کے معاملا ت میں اس فرق کو قائم رکھیں گے ،ورنہ زندگی تو حیوان بھی گزار لیتے ہیں۔

یاد رکھیئے ! گناہوں کی لذّت چند روزہ ہے ۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کو خارش لگ جائے تو وہ جب کھجاتا ہے تو اسے بڑا مزا آتا ہے ۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد ایسی جلن ہوتی ہے کہ انسان پریشان ہوجاتا ہے اس تھوڑے سے مزے کے لئے آخرت کی دائمی زندگی کو برباد کردینا بہت بڑی حماقت اور نادانی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے ، حرام و حلال ، حیاء اور بے حیائی میں تمیز عطا فرمائے۔ آمین
M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 303785 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.