زندگی فانی ہے ۔ ایک دن سب کو
دنیا سے جانا ہے۔ انسان اس دنیا میں کیا کیا جمع کرتا ہے۔ لیکن ایک دن اسے
خالی ہاتھ لوٹ جانا ہے۔ آخری ہچکی سے ذرا پہلے، سانس کی ڈور ٹوٹنے سے کچھ
دیر قبل، جب آس کی ڈوری ٹوٹ جاتی ہے۔ اس وقت انسان کو پتہ چلتا ہے کہ وہ اس
دنیا سے خالی ہاتھ جارہا ہے۔ سکندر اعظم کے کفن سے باہر نکلے خالی ہاتھ ایک
معروف استعارہ بن چکے ہیں۔ دنیا سے سکندر گیا تو کفن سے باہر اس کے دونوں
ہاتھ خالی تھے۔ بستر مرگ پر جب سکندر سے پوچھا گیا کہ اس کے بعد کس کو
بادشاہ بنایا جائے تو اس نے کہا ”سب سے طاقت ور کو“ اور یہ ہی اس کے آخری
کلمات تھے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان کے لبوں پر دم
آخرت یہ الفاظ تھے، ”اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔“ بابائے ترکی مصطفیٰ کمال
اتاترک نے کومے میں جانے سے قبل پوچھا ”کیا وقت ہوا ہے؟“ برطانیہ کے سابق
وزیراعظم اور معروف سیاستدان سرونسٹن چرچل نو دن کومے کی حالت میں رہنے کے
بعد آں جہانی ہوئے اور اس طویل کومے میں جانے سے پہلے انہوں نے کہا تھا میں
اس سب سے بہت اکتا گیا ہوں۔ گوتم بدھ کے آخری کلمات تھے، ”بھکشو یاد رکھنا
تمام مرکب مادی اشیاﺀ فنا ہو جائینگی، مستعدی اور محنت سے جدوجہد کرنا۔“
جیک ڈینیل امریکا کے معروف شراب ساز کار خانے جیک ڈینیلز ٹینسی وہسکی
ڈسٹیلیری کا بانی تھا اور اس کے آخری الفاظ تھے ”ایک اور جام.... پلیز!“
چارلزڈ کنز ممتاز برطانوی ادیب تھے۔ فطرت سے محبت اور اس کی منظر کسی ان کے
کلام بنیادی موضوع رہا۔
یہ بات مشہور ہے کہ جب برطانیہ میں ریل کی پٹری بچھانے کے کام کا آغاز ہوا
تو ڈ کنزنے زمین پر آہنی پٹریاں بچانے کو پند نہ کیا، جو ان کی زمین سے
محبت کی ایک مثال بن گئی۔ اتفاق دیکھئے۔ جب چارلس ڈکنز اپنے گھر کے قریب
چہل قدمی کر رہے تھے اور انہیں دل کا دورہ پڑا۔ انہوں نے سہارا دینے والے
افراد سے کہا، ”زمین پر زمین پر“ یعنی زمین پر لٹا دو اور یہ کہتے کہتے ہی
وہ عظیم شاعر دنیا سے رخصت ہو گیا۔ تھامس ایڈیسن کا شمار سائنس دانوں میں
ہوتا ہے جن کی ایجادات نے اکیسویں صدی میں انسانی زندگی پر بے پناہ اثرات
مرتب کیے۔ یہ معروف مؤجد جب بستر مرگ پر تھا تو اس کے سامنے کھڑکی کھلی
ہوئی تھی وہ یہ کہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوا وہاں کتنی خوب صورتی ہے ان
کلمات کے مفہوم یہ بہ بحث کی جاتی ہے کہ آیا ایڈیسن کھڑکی سے نظر آنے والے
منظر کی خوب صورتی کی طرف اشارہ کر رہا تھا یا موت کے بعد آنے والی زندگی
کی طرف۔ فرانس کے فرماں رواں نپولین بونا پارٹ کے آخری کلمات تھے ”فرانس،
فوج جوزفین۔“شاعر مشرق علامہ اقبال کا انتقال طویل علالت کے بعد ہوا۔ ان کے
آخری وقت کے متعلق تذکرہ نگاروں نے اقبال کے دیرینہ خادم علی بخش کے بیان
کو نقل کیا ہے جس کے مطابق علی الصبح اقبال کے سینے میں درد اٹھا علی بخش
نے اقبال کو سہارا دیا، ”اللہ! میرے یہاں درد ہو رہا....“ کہتے ہوئے اقبال
کا سر پیچھے کو ڈھلک گیا اور مشرق بلند ستارہ وقت سحر غروب ہو گیا۔ نظریہ
ارتقا سے شہرت پانے والے چارلس ڈارون آخری دم کہہ رہے تھے ”میں موت سے ڈرنے
والا دنیا کا آخری شخص نہیں۔“ جب رومیوں نے یونانی سلطنت کے شہر سائزس پر
قبضہ کر لیا تو فوج کو خاص طور پر حکم دیا گیا کہ معروف یونانی ماہر
ریاضیات، طبیعات داں اور موجدار شمیدس کو زندہ گرفتار کیا جائے۔ جو فوجی
ارشمیدس تک پہنچنے میں کامیاب ہو گے، انہوں نے دیکھا کہ ارشمیدس زمین پر
کچھ دائرے بنا رہا ہے۔ فوجیوں نے ارشمیدس کو اپنے ساتھ جانے پر مجبور کیا
اور زبردستی شروع کر دی جس کے جواب میں ارشمیدس نے کہنا شروع کر دیا میرا
دائرہ خراب مت کرو! اس پر ایک رومی فوجی نے طیش میں آکے اسے قتل کر دیا۔
بنجمن فرینکلن کا شمار ریاست ہائے متحدہ کے بانیوں میں ہوتا ہے ایک موجد،
ماہر طبیعات، سیاستدان، سفارت کار اور صحافی سمیت کئی حوالوں سے فرینکلن کا
نام جانا جاتا ہے۔ اپنے آخری وقت میں اس نے ایک درد ناک حقیقت بیان کی۔ جب
اس کی بیٹی نے اسے کروٹ بدلنے کو کہا تاکہ اسے سانس لینے میں جو دشواری پیش
آرہی ہے وہ دور ہو جائے تو فرینکلن نے یہ کلمات ادا کیے مرتا ہوا انسان
کوئی بھی کام آسانی سے نہیں کر سکتا۔“ معروف روسی ناول نگار لیون ٹالسٹائی
کے آخری کلمات تھے لیکن کسانو! ایک کسان کیسے مرتا ہے؟“
کہا جاتا ہے کہ پرنسز آف ویلز لیڈی ڈیانا گاڑی کے حادثے کے بعد زخمی حالت
میں یہ کہتے ہوئے موت کی آغوش میں چلی گئی، ”میرے خدا! یہ کیا ہو گیا؟“
مغربی فلسفے کے بادا آرم قدیم یونانی فلسفی سقراط نے زہر کا پیالہ پینے سے
قبل اپنے شاگردوں سے یہ آخری کلمات کہے، ”کریٹو! ہمیں ایسکلی پئیس کی نذر
ایک مرغا کرنا چاہیے، دیکھو! یہ بھول نہ جانا ” ایسکلی پئیس علاج اور نجات
کے یونانی دیوتا کا نام تھا۔ ان کلمات سے لگتا ہے کہ سقراط روح کے جسم میں
قید ہونے کو زندگی سمجھتا تھا اور موت کو روح کی نجات اور آزادی سے تعبیر
کرتا تھا جب ہی اس نے اپنی موت پر شکر بجالانے کیلئے نجات کے دیوتا کو نذر
چڑھانے کی وصیت کی۔ ارسطو کے آخری کلمات اس کے مشاہدے اور طرز فکر کو عیاں
کرتے ہیں اس نے دم آخر کہا ”قدرت نے کوئی چیز بے کار نہیں بنائی۔“ نابغہ
روزگار سائنس داں آئزک نیوٹن نے اس کائنات پر غور و خوض ذریعے جو کارنامے
انجام دیے وہ ناقابل فراموش ہیں، لیکن وہ آخری لمحات میں اپنی ساری جدوجہد
کو ان لفظوں میں بیان کرتا ہے مجھے نہیں معلوم کہ دنیا کے بارے میں مجھ پر
کیا کچھ ظاہر ہوا لیکن میں نے تو سمندر کے کنارے کھیلنے والے اس لڑکے کی
طرح اس دنیا کو دیکھا جس کے سامنے حقیقت اور سچائی کا سمندر تھا اور وہ
ساحل پر سیپیاں اور خوش نما پتھر تلاش کرتا رہا۔ اس دنیا سے جانے والوں
مشہور لوگوں کے کہے ہوئے یا تحریر کردہ آخری کلمات اپنے اندر کئی معنی خیز
پیغامات سموئے ہوئے ہیں۔ ان آخری کلمات میں کہیں حکمت اور دانائی پنہاں ہے
تو کسی کے حرف حرف سے بے بسی عیاں ہے۔ یا خواہش کا اظہار موت کا خوف اپنی
زندگی کا کام یابی کا احساس اور کہیں خالق سے ملاقات کا شوق، استقلال،
ندامت، رشک اور سفاکی کے الگ الگ لہجوں میں ادا کیے گئے یہ آخری الفاظ
زندگی کے مختلف روپ دکھاتے ہیں۔ دنیا سے جانے سے پہلے ہر انسان کو سوچنا
چاہئے کہ اس کی موت کے وقت اس کے آخری الفاظ کیا ہوں گے۔ |