پچھلے ایک ہزار برس سے مسلم دنیا
کا سوچنے سمجھنے اور لکھنے بولنے والا ذہن طبقہ تقلید اور عوام الناس کا
طبقہ تصوف کے ذریعے نفسیاتی غلامی میں مبتلا رہا ہے۔ مسلم دنیا کی پوری
تاریخ میں ایسے افراد کی شدید کمی رہی ہے جنہوں نے طے شدہ دائرے سے ہٹ کر
سوچنے (Thinking outside the box) کی کوشش کی ہو۔ بعض جلیل القدر اہل علم
نے کسی حد تک روایتی طریقے سے ہٹ کر غور و فکر کی کوشش کی لیکن ان حضرات کی
فکر کو بالعموم مسلم معاشروں میں قبول عام حاصل نہیں ہوا۔
ان سب حضرات کو اپنی زندگیوں میں زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں
سے بہت سے حضرات کو کافر و مرتد قرار دے کر دائرہ اسلام سے خارج قرار دے
دیا گیا۔ ایک طبقہ غیر روایتی طرز فکر سے متاثر ہوا بھی لیکن اس کا اثر
مسلم معاشروں میں بالعموم محدود رہا ہے۔ ایسا ضرور رہا ہے کہ عیسائی دنیا
کے برعکس ہمارے ہاں "آزادی فکر" کو قانون اور ڈنڈے کی طاقت سے نہیں بلکہ
زیادہ تر شخصیتوں کی طاقت سے محدود کیا گیا ہے۔
اس تفصیل سے پوری طرح یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ مسلم دنیا میں غلامی کے
خاتمے کی کوئی تحریک شروع کیوں نہ ہو سکی؟ جب معاشرے کے ذہین ترین طبقے سے
لے کر عام آدمی تک ہر شخص نفسیاتی غلامی میں نہ صرف مبتلا ہو بلکہ اس غلامی
کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتا ہو تو یہ خیال کسے سوجھ سکتا ہے کہ وہ کسی بھی
قسم کی غلامی کے خاتمے کی بات کرنے کی جرأت کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم
معاشروں میں اگرچہ غلامی کے خاتمے کی کمزور اندرونی تحریکیں موجود رہی ہیں
لیکن فیصلہ کن طریقے پر غلامی کا خاتمہ اہل مغرب کے دباؤ پر ہی کیا گیا ہے۔ |