یہ زبان اور د و ہونٹ ہیں
جو مافی الضمیر کی توضیح اور اظہار مدعا کے وسائل و آلات ہیں۔ ان سے انسان
بہت کچھ کام لے سکتا ہے۔ بعض اوقات ایک بات ایک جملہ تلوار اور توپ کے گولے
بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کام کرتا ہے۔ کسی ایک بات یا جملہ کے نتیجے میں
انسان جہنم کی آگ میں جا گرتا ہے۔ جیسا کہ ایک جملہ یا ایک بات انسان کو
رفعتیں بخشتی ہے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ہے کہ 90 فیصد جھگڑے اور
تنازعے زبان کی بداحتیاطی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ انسان
زبان کو سنبھال کر رکھے اور اسے قابو سے باہر ہونے نہ دے ورنہ بڑی سے بڑی
مصیبتوں کا شکار ہوسکتا ہے۔ حدیث شریف کی کتابوں میں آیا ہے کہ :
’’حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا، میں نبی
صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا ، ایک دن میں آپؐ کے قریب آگیا
اور ہم ساتھ ساتھ چلتے چلنے لگے! میں نے عرض کیا، اے اﷲ کے رسول! مجھے ایسا
عمل بتائیے جو مجھے جنت میں پہنچائے اور دوزخ سے بچائے! آپؐ نے فرمایا، تم
نے بہت بڑی بات پوچھی! مگر یہ عظیم امر ان لوگوں کیلئے آسان ہے جن کیلئے اﷲ
آسان کر دے! وہ یہ ہے کہ تم اﷲ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ
ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اﷲ کا
حج کرو! پھر آپؐ نے فرمایا، کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ خیر کے دروازے
کیا ہیں! میں نے کہا ، ہاں! اے اﷲ کے رسول! بتائیے ! فرمایا روزہ ڈھال ہے!
صدقہ گناہوں کو اس طرح مٹاتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے اور رات کے
نصف آخر می نماز صالحین کا شعار ہے، پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ الْاٰیَۃ۔’’ان کے پہلو (رات کو)
بستروں سے دور رہتے ہیں، وہ اپنے رب (کے عذاب) سے ڈر کر اور اس (کی رحمت)
کی طمع میں اس سے دعا اور اس کی عبادت کرتے ہیں!‘‘ پھر آپ نے فرمایا، کیا
میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس معاملہ کا سرا کیا ہے، اس کا ستون کیا ہے اور
اس کی بلند ترین چوٹی کیا! میں نے کہا، اے اﷲ کے رسول! فرمائیے۔ فرمایا، اس
معاملہ کا سرا اسلام ہے! ستون نماز ہے اور بلند ترین چوٹی جہاد! پھر آپؐ نے
فرمایا، کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ ان سب معاملات کا دارو مدار کس چیز پر
ہے؟میں نے کہا، اے اﷲ کے رسول! فرمائیے۔ آپؐ نے فرمایا، اس پوری طرح قابو
رکھو! آپؐ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا! میں نے کہا، اے اﷲ
کے نبیؐ! کیا جو کچھ ہم بولتے ہیں، اس پر بھی ہم سے مواخذہ ہوگا؟ آپ نے
فرمایا’’تمہاری ماں تمہیں روئے! لوگ اپنی زبانوں کی کٹی ہوئی فصلوں کے باعث
ہی منہ کے بل یا یہ فرمایا کہ ناک کے بل جہنم کی آگ میں گریں گے!‘‘ (احمد،
ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)
صحیحین میں حضرت ابوذر رضی اﷲ عنہ کی روایت جس نے اپنی زبان قابو میں رکھی
اس نے اپنا پورا معاملہ اپنے قابو میں رکھا کیونکہ جیساکہ رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فرمایا: یہ زبان کی بوئی ہوئی فصل ہے جو انسان کو جہنم تک
پہنچاتی ہے۔ انسان اپنے قول و عمل سے دنیا میں نیکیوں اور برائیوں کی کاشت
کرتا ہے پھر قیامت کے دن اپنی فصل کاٹے گا، جس نے بھلائی بوئی ہے اسے عزت
ملے گی جس نے برائی بوئی ہے اسے ندامت و ذلت کا سامنا ہوگا۔
اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کو سب سے زیادہ جو چیز جہنم میں
لے جانے والی ہے وہ زبان ہی ہے، زبان ہی سے انسان بڑے گناہ کرتا ہے جن میں
سر فہرست شرک ہے۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ کے تعلق سے ایسی باتیں کہتا ہے جن کا
اسے علم بھی نہیں ہوتا۔ زبان ہی شرک کے قریب پہنچانے والی چیز ہے، اسی میں
جھوٹی گواہی بھی شامل ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے شرک کے برابر قرار دیا ہے، اسی
طرح جادو کرنا، تہمت لگانا، غیبت کرنا، جھوٹ بولنا اور چغلی کرنا وغیرہ بے
شمار بڑے چھوٹے گناہ زبان ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔
صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے فرمایا: آدمی ایک بات بولتا ہے اسے (اس کی اہمیت کا) اندازہ بھی
نہیں ہوتا لیکن وہ اس بات کی وجہ سے جہنم میں اس سے بھی زیادہ دور چلا جاتا
ہے جتنا مشرق و مغرب کے درمیان فاصلہ ہے۔
ابن بریدہ علیہ الرحمہ کی روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ
عنہم کو دیکھا کہ وہ اپنی زبان کو پکڑ کر فرما رہے تھے: تیری بربادی ہو،
بھلی بات بول تو تیرے لئے غنیمت ہوگا یا چپ رہ تو محفوظ رہے گی ورنہ جان لے
کہ تجھے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان سے کہا گیا کہ آپ کہہ رہے ہیں تو
فرمایا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ قیامت کے دن انسان کیلئے سب سے مبغوض و
ناپسندیدہ چیز زبان ہی ہوگی سوائے اس کے جس نے بھلی بات بولی ہو۔
حضرت عبداﷲؓ ابن مسعود قسم کھاکر کہتے تھے کہ روئے زمین پر زبان سے زیادہ
لمبی قید میں ڈالنے کی ضرورت کسی اور چیز کو نہیں۔
حضرت حسن بصریؒ کہتے ہیں: زبان جسم کی سردار ہے، اگر وہ جرم کرے گی تو سارے
اعضاء جرم کریں گے اور اگر وہ بچی رہی تو سب بچے رہیں گے۔
حضرت یونسؒ بن عبید کہتے ہیں: زبان کے علاوہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی
نیکی سے برائی کے مل جانے کا خدشہ نہ ہو۔ ایک آدمی دن بھر روزہ رکھتا ہے،
ہوسکتا ہے شام کو کسی حرام چیز سے افطار کرلے، ایک آدمی رات بھر نماز پڑھتا
ہے، ہوسکتا ہے دن میں کوئی جھوٹ بول دے، اسی طرح اور چیزیں ہیں لیکن اگر وہ
حق بات کہتا ہے تو اس کے خراب ہونے کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔ |