ادب کے شہر میں با حجاب طالبہ سے اسکول کی بد سلوکی

شہر لکھنؤ کے ایک کانوینٹ اسکول سے ایک مسلم طالبہ کو حجاب اختیار کرنے پر اسکول سے نکال دیا۔اس سلسلہ میں بروقت جو بھی کاروائی کی گئی وہ مناسب ہے۔طالبہ کے گھر والوں نے ڈی․ایم․سے شکایت کی جس کے بعد جانچ کا حکم ہو گیا۔لڑکی فرحین فاطمہ نویں درجہ کی طالبہ ہے وہ حجاب میں اسکول گئی تھی، پہلے دِن اس کو منع کیا گیا اور دوسرے دن اسکول سے نکال دیا گیا۔اسکول انتطامیہ کا یہ فیصلہ بہت ہی بدبختانہ اور قابل مذمت ہے۔قابل مبارکباد ہیں اس بچی کے گھر والے جن کی تربیت میں اس نے حجاب اختیار کیا۔

ہم اپنے عمل سے یہ بتانے میں بالکل ناکام رہے ہیں کہ ہماری شریعت کہتی کیا ہے۔شریعت کو ہم نے تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔مسلم بچیاں حجاب بھی کرتی ہیں اور مسلم بچیاں جسم کی نمائش کرنے والے کپڑے بھی پہنتی ہیں۔ان دونوں بچیوں کی تربیت میں فرق کیوں؟حجاب کرنے والی لڑکی دقیا نوسی اوردوسری قسم کی لڑکی روشن خیال مسلمان کہی جاتی ہے۔اس فیشن کے دور میں روشن خیال مسلمان خواتین کی تعداد بہت ہے۔کسی بھی مسلم تقریب میں روشن خیال مسلم خواتین اکثریت میں ملیں گی۔

ایک مشاعرے کی محفل میں انور ندیم صاحب ، جو کسی بھی تعریف کے محتاج نہیں ہیں، اپنا کلام سناتے ہوئے اچانک رک گئے اور کچھ زیادہ روشن خیال ایک محترمہ ، جو فراک پہنے تھیں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا’ان کی ننگی ٹانگیں مجھے یہاں سے چلے جانے پر مجبور کر رہی ہیں‘ ۔یہ کہہ کر وہ اسٹیج سے اترے اورچلے گئے۔ان محترمہ اور ان کے خاوندکی حالت کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا، بیان نہیں کیا جا سکتا اور مناسب بھی نہیں ہے۔

فرحین فاطمہ اور ان کے گھر والے لاکھ کہتے رہیں کہ ہمارے لیے حجاب فرض ہے۔پرنسپل صاحبہ کی سمجھ میں اس وقت کیا خاک آئے گا جب ان سے معلومات حاصل کرنے کے لیے’تحفظ اطفال کمیشن کی رکن ’ناہیدلاری خان صاحبہ‘ بے حجاب ان کے سامنے پہنچے گی۔ابھی بہت زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں آپ کو یاد ہوگا کہ داڑھی رکھنے کی وجہ سے ایک مسلم طالب علم کو اسکول سے نکال دیا گیا تھا۔یہ معاملہ عدالت تک گیا۔وکیل کے داڑھی کے حق میں بحث کرنے کے بعد جج صاحب نے وکیل صاحب سے پوچھا اگراسلام میں داڑھی کی اتنی ہی اہمیت ہے تو آپ کی داڑھی کہا ہے؟۔

ہم مسلمان خود ہی شریعت سے کھلواڑ کرتے ہوئے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں سبقت حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ہمیں اب سنجیدہ ہونا پڑے گا اور اسلام کا پیروکار بننا پڑیگااس طرح سے ہم جلد ہی اپنا کھویا ہوا مقام پا سکتے ہیں اگرہم مسلم شعارکو پھر سے اپنا لیں توپھر سے لوگ کہنے لگیں گے کہ ’وہ مسلمان ہیں اگر انھوں نے یہ بات کہی ہے تو صحیح ہوگی‘۔کوئی جذبہ ہے جو آج بھی غیر مسلم عورتیں اپنے شیر خور کو مسجد کے دروازے پر، نمازیوں سے پھونک ڈلوانے کے لیے لائن لگاکر کھڑی رہتی ہیں۔
Shamim Eqbal Khan
About the Author: Shamim Eqbal Khan Read More Articles by Shamim Eqbal Khan: 72 Articles with 67433 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.