میری نظر میں

میری نظر میں میری قوم کاہل نہیں ہے،کام چور نہیں ہے،بے وفا نہیں ہے،مفاد پرست نہیں ہے،بزدل نہیں ہے،لاچار نہیں ہے ،بے بس نہیں ہے اور نہ ہی میری قوم اُن قوموں میں شمار ہوتی ہے جن کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ہاں البتہ میری نظر میں قوم کو کاہل بنانے والے،مفادپرست بنانے والے،بزدل بنانے والے،لاچار بنانے ،بے بس بنانے والے اور بے مقصد بنانے والے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔آج بھی میری قوم میں باعزم نوجوانوں کی کمی نہیں ہے،ہونہار طلباء کی کمی نہیں ہے،با اخلاق عورتوں کی کمی نہیں ہے،شرم و حیا کی پیکر لڑکیوں کی کمی نہیں ہے اور نہ ہی میری قوم اُن قوموں میں سے نہیں ہے جس کے کوئی عزائم نہیں ہیں۔پھر بھی ہم ہماری قوم سے یہی شکوہ کرتے ہیں کہ ہماری قوم کب سدھریگی؟ہماری قوم کے لوگوں میں کب عقل آئیگی اور ہماری قوم میں کوئی جذبہ نہیں ہے۔یقین جانئے کہ ہم ہماری قوم کو پہنچانے سے قاصر رہے ہیں کیونکہ ہمارے پاس منفی یعنی نیگیٹو نظریات ہیں اور ہم اپنے خیالات کو وسیع النظر بنانے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔کیونکہ ہم ہمیشہ خوف کھاتے ہیں کہ اگر فلاں کام کریں تو وہ کیا ہوگا کیا ہم ہماری قوم ہما را ساتھ دیگی؟کیا ہم ہماری قوم کے سہارے سے کچھ بہتر کام کرپائینگے؟یہ سوالات ہمارے دلوں میں وسوسوں کی طرح بھرے ہوئے ہیں۔لیکن ہمارا ماننا ہے کہ صرف خدائے واحدہُ کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہوئے کوئی کام کرنے کیلئے آگے بڑھتے ہیں تو یقینا کامیابی و کامرانی ہماری قدموں میں ہوگی۔حضرت ٹیپوسلطان شہیدؒ کاقول ہے کہ’’ شیر کی ایک دن زندگی گیڈر کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔فرق صرف اتنا ہے کہ ہم اپنے حوصلوں کو بلند کریں اور ہمارے اندرکے ضمیر کو جگایا جائے او رصرف اﷲ کی ذات پر بھروسہ اور اس کو حاضر وناظر جان کہ روزمرہ کے کام انجام دیتے جائیں۔اگر حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ سوچتے کہ اسلام کی سرحدیں عرب پار نہیں کرسکتی تو آج ہم اسلام سے آشنا نہیں ہوتے،اگر حضرت ٹیپوسلطان شہیدؒ یہ سوچتے کہ انگریزوں کی طاقت ان سے زیادہ اور ان کے ساتھ وفاداروں سے زیادہ میرصادق و پنڈت پرنیا جیسے غداروں تعداد زیادہ ہے تو وہ میدان جنگ میں ہرگز بھی نہ اترتے۔اگر سر سید احمد خان یہ سوچتے کہ یہ قوم ان کے ساتھ نہیں ہے تو آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام ممکن نہیں ہوتا۔اگرامام احمد رضا خان فاضل بریلوی یہ سوچتے کہ وہ باطل پر حق کا سکہ نہیں جما سکتے تھے۔اگر مولانامحمد قاسم نانوتوی اپنے حوصلوں کو بلند نہ کرتے توآج یہ مدرسہ ایشاء کا سب سے بڑا مدرسہ نہ کہلاتا اور یہاں سے ہر سال فرزندان توحید اپنے ہاتھوں میں اسلامی تعلیمات کے چراغ لیکر نہیں نکلتے۔ہم ایسی قوم کے لوگ ہیں جہاں پر ہر قدم پر ہماری صحیح رہنمائی کرنے والوں کی کمی نہیں ہے اور ہماری قوم میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو قوم کیلئے اپنے جان ومال کی قربانی کرنے کیلئے تیارہیں۔ایسے میں ہمیں چاہیے کہ ہمارے حوصلوں کو با عزم رکھیں اورقوم کی تائید لیکر قوم کی خدمت کیلئے آگے آئیں ،جب تک قوم ایک دوسرے کے کام نہ آئیگی اس وقت تک کوئی کام ممکن نہیں ہوگا۔

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 177379 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.