مقدمہ نمبر 214/14اور حافظ کمال انور کو ناکردہ گناہی کی سزا

ستم درستم ہیں کہ جو ہم سہتے چلے آرہے ہیں ۔ ہمارا تن بدن ہے جو مسلسل برداشت کئے جا رہا ہے۔ مجال ہے کہ کسی کے آگے فریادی ہوئے ہوں یا آہ و فغاں کی ہو …… ہر حال اور ہر حالت میں صابر و شاکر ہونے کا ثبوت دینے میں پیش پیش ہیں…… کیونکہ صبر اور شکر کرنے والوں کا اﷲ ساتھ دیتا ہے …… یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ہمارا صبر و شکر اﷲ کی رضا کیلئے نہیں اپنی نااہلی اور بے غیرتی چھپانے کی غرض کے لیے …… کس کس ظلم اور ناانصافی کا رونا روئیں…… ؟ کیا کوئی ایسا محکمہ ہے کہ جہاں بدعنوانی کا ناسور موجود نہ ہو ……؟ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہر محکمے میں کرپشن کا سُور موجود ہے جو نہتے شہریوں کا شکار کر رہا ہے …… دیکھنے کو تو ہر محکمہ اور بااثر شخص بدعنوانی کی بدترین بلندیوں کو چھو رہا ہے…… اس مقام پر بدعنوانی کی بدترین بلندی کی بجائے اگر پستی کی اصطلاح استعمال کی جائے تو سو فیصد درست تھامگر کیا کروں کہ میرے اس معاشرے میں بدعنوانی کو اعلیٰ مقام حاصل ہے اور اسے اعلیٰ اقدار کا نام بھی دیا جاتا ہے ……!

ہزار ہا واقعات ہیں اور لاتعداد مشاہدات ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اکثریت کرپشن کا ساتھ دیتی ہے اور کرپشن ہی کو اچھا اور مثبت عمل قرار دیتی ہے جب بھی کسی پولیس یا دیگر محکمہ کے افسران سے پالا پڑتا ہے تو وہ ٹھٹھہ کرنے لگتے ہیں کہ تم کیا صحافی ہو……؟ اور کیسے صحافی ہو …… جو جائیداد نہیں بناسکتے ……؟ جواب میں میرا موقف ہوتا ہے کہ کیا میں غریب یا مفلس ہوں ……؟ اﷲ نے مجھے شعور کی دولت دی ہے…… برے کو برا اور اچھے کو اچھا سمجھتا ہوں…… کیا یہ دولت کم ہے……؟ میرے نزدیک شعور ہی امیری و کبیری ہے ۔ شعور کے بغیر انسانی کھوپڑی محض شیطان کا مسکن ہے…… گناہوں کا سبب ہے……!

حالات حاضرہ اور سیاستدانوں اور افسر شاہی کی خوشامد میں کالم نگاری کرنے کے عمل کو فضول عمل قرار دیتا ہوں اور اس عمل کو گناہ جاریہ گردانتا ہوں۔ مظلوم کی مدد عین عبادت ہے جو میرا ماٹو اور نظریہ ہے ……؟ بھلا کوئی اپنے نظریئے سے منہ موڑ سکتا ہے……؟ میرے خیال میں کوئی بھی غیرت مند قلم کار ایسا نہیں کرے گا۔ ساتھ ہی ایسے عمل کو ملامت کرے گا……!

ہمارے ملک کی پولیس نہ جانے کیوں اس قدر بے حمیت ہونے کا ثبوت دیتی ہے …… کیون جانبدارانہ رویہ اختیار کرتی ہے تفتیش کے عمل میں ……؟ بے شمار مقدمات ہیں بلکہ تمام تر مقدمات غلط انداز میں زیر تفتیش ہیں۔ کوئی بھی ایسا مقدمہ نہیں ہے جو کرپشن کے بغیر درج ہو ……یا …… اس کی تحقیق و تفتیش کی مد میں کرپشن کا استعمال نہ ہوا ہو…… یا بے جاء سیاسی سفارش کا دخل نہ ہوا ہو…… یہ بھی سو فیصد درست ہے کہ آج کل پولیس ٹاؤٹ ہی پولیس اسٹیشنزکا تمام انتظامات سنبھالے ہوئے ہیں ……! جو پولیس کے چہرے پر سیاہ داغ ہے…… !

مقدمہ نمبر 214/14تھانہ سول لائن ڈیرہ غازیخان ، ایک ایسا مقدمہ جس کا تفتیشی عمل پولیس کی بدنیتی پر چلتا رہا …… اس عمل میں سب سے اہم کردار مقامی ، بعد میں سرکل اور پھر آخر میں ضلعی پولیس کی جانبداری دیکھنے میں آتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھلا پولیس کو کیا ضرورت تھی اس مقدمہ میں ناقص یا غیر جانبدارانہ تفتیش کرنے کی ……؟ تو…… اس سلسلے میں ایک عام سی دلیل ہے جو دی جائے تو عوامی سطح پر کئی حقائق سامنے آسکتے ہیں ۔ مذکورہ بالا مقدمہ کے ایک ملزم حافظ محمد کمال انور ہیں جو پڑھے لکھے اور سرکاری ملازم ہیں جو سیاسی اور خاندانی رقابت کی بھینٹ چڑھے ۔ ایک طرح سے انہیں ناکردہ گناہ کی سزا ملی جس کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ جب مقدمہ نمبر 214/14کے مذکورہ ملزم ( جس کا نام پولیس نے اپنی تفتیش میں شامل کیا ) کے بھائی نے میرے ایک دوست کے توسط سے مجھ سے رابطہ کیا تو اس دوران مقدمے سے متعلقہ کچھ حقائق سامنے آنے لگے……! ملزم محمد کمال انورکے بھائی پولیس کے ظلم و ستم سے اس قدر تنگ تھے کہ دوران گفتگو وہ زار و قطار رونے لگے ۔ ان کہنا تھا کہ مذکورہ مقدمہ میں نامزد ملزمان مرنے والی لڑکی کی موت کا سبب نہ ہیں اور نہ ہی پوسٹ مارٹم اور ڈی این اے رپورٹس میں زیادتی یا قتل ثابت ہوا ۔ حافظ محمد بلال کلیری وضاحت کرتے ہوئے کہتے رہے کہ تھانہ سول لائن کے ایس ایچ او اور تفتیشی اپنے سیاسی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے میرے بھائی کمال انور کو اس مقدمہ میں شامل کیا …… ایک اہم بات کا انکشاف یہ بھی ہوا کہ جب حافظ محمد بلال کلیری نے واضح کیا کہ ایک سب انسپکٹر محمد یار کلیری نے متعلقہ ایس ایچ اور اور تفتیشی جاوید سے گٹھ جوڑ کرکے خاندانی دشمنی کا انتقام لینے کیلئے ان کے تعلیم یافتہ اور اعلیٰ شعور کے حامل میرے بھائی کو مقدمہ نمبر 214/14میں ناحق ملوث کیا ۔ یہاں یہ وضاحت انتہائی ضروری ہے کہ سب انسپکٹر محمد یار کلیری مبینہ طور پر اپنی معصوم بیٹی کے ناحق قتل میں بھی ملوث ہے۔ انتہائی بوسیدہ اور فرسودہ روایا ت کا خود کو علمبردار کہلوانے کا دعویدار ہے……!

جب مقدمہ نمبر 214/14کی تبدیلی تفتیش کیلئے درخواست ایڈیشنل آئی جی انوسٹی گیشن پنجاب کو دی گئی ……تو اس اہم درخواست کی سماعت کیلئے اے ایس پی سٹی ڈیرہ غازیخان شہباز الہی کو مقرر کیا گیا…… جنہوں نے ناصرف درخواست کی سماعت کے دوران میرٹ اور انصاف کی دھجیاں اڑائیں بلکہ ملزم پارٹی کو سماعت کے دوران اپنے دفتر کے باہر بھیج کر تفتیشی جاوید کے ساتھ اکیلے میں کوئی کمٹمنٹ کی اور درخواست برائے تبدیلی تفتیش خارج کردی یا ملزمان کے خلاف فیصلہ بھیج دیا۔ اگر پولیس جسے قانون نافذ کرنے کی مقدس ذمہ داری سونپی گئی ہے…… ناپاک فریضے سرانجام دیتی رہی تو عوام کا کون محافظ ہوگا

Mansha Fareedi
About the Author: Mansha Fareedi Read More Articles by Mansha Fareedi: 66 Articles with 51898 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.