فادرز ڈے - Father's Day
(Muhammad Azeem Hasil Puri, )
۲۰ جون ۱۹۱۰ء
امریکی خاتون سنوراداد(Sonora Dadd) بچپن سے اپنے باپ کی شفقت سے محروم ہو
گئی اس کی پہلی مرتبہ ۲۰ جون ۱۹۱۰ء میں باپ کی یاد میں فادر ڈے منایا۔ پھر
کئی ملکوں میں اس تہوار کو منانے کا رواج شروع ہو گیا۔ ۱۹۲۴ء کو امریکی صدر
کیلون کالیج (Calvin Coolidge) نے اس دن کو نیشنل فادر ڈے کے نام سے منانے
کا حکم دیا۔ پھر ۱۹۶۶ء کو لندن میں ہیومین نے اسے عالمی سطح پر متعارف
کروایا۔ اس طرح یہ تہوار کئی ممالک میں متعارف ہوا اوراسے پذیرائی ملی
بالآخر ۱۹۷۲ء میں صدر چرڈنکس کی کاوشوں سے اس تہوار کو عالمی تہواروں میں
شامل کر دیا گیا۔ دیگر تہواروں کی طرح اس تہوار کو بھی بعض مذہبی حلقوں میں
مغربی رسوم کا عندیہ دیا جاتا ہے یہ بات سچ ہے کہ اس تہوار کو اقوام مغرب
میں عیسائیوں نے منانا شروع کیا لیکن تقریباً تمام مذاہب کے لوگ اسے مناتے
ہیں۔
اسلام کی تعلیم سال بھر میں ایک مرتبہ فادرزڈے منانے کی تلقین نہیں کرتی
بلکہ مسلمان ہر دن ، دن کا ہر لمحہ والدین کی خدمت اور ان سے حسن سلوک کرتا
ہے۔ سال بھر میں صرف ایک مرتبہ ماں باپ کی خدمت ، انھیں تحائف دینا، ان کے
ساتھ خوش رہنا اقوام مغرب کی تعلیم ہے اوراسلام نے ان کی مشابہت سے روکا
بھی ہے اور اس کے برعکس تعلیم بھی دی ہے کہ والد اور والدہ دونوں تمھاری
جنت ہیں ان کی خدمت کر کے اورانھیں صبح وشام راضی کر کے اﷲ کو راضی کریں۔
اورہمیشہ ان کے سایہ شفقت میں رہیں اور انھیں اپنے پاس رکھ کر ان کی خدمت
کر کے اﷲ کو راضی کریں نہ کہ غیروں کی طرح والدین کو اولڈ ہاؤس میں چھوڑیں۔
والد کا مقام قرآن مجید کی نظر میں
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور تمہارے رب نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور
ماں باپ کیساتھ بھلائی کرتے رہو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو
پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ اُنہیں جھڑکنا، اور ان سے بات
ادب سے کرنا ۔ اور عجز و نیاز سے اُن کے آگے جھکے رہو اور اُن کے حق میں
دعا کروکہ اے اﷲ! جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت سے )پرورش کیا ہے تو
بھی اُن ( کے حال )پر رحمت فرما ۔‘‘ (الاسراء: ۲۳،۲۴)
اﷲ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد ماں اور باپ دونوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم
دیا ہے اوراگر ماں اکیلی ہو تب بھی اوراگر والد محترم اکیلے ہوں تب بھی
دونوں کی خدمت ان کے ساتھ حسن سلوک اور انھیں ہر طرح کی تکلیف سے دور رکھنا
انھیں ڈانٹ ڈپٹ سے دور رکھنا اور ان کی خدمت کو اپنے لیے اعزاز سمجھنا ان
آیات کا درس ہے۔
لیکن اب صورتحال دیگرگوں ہے حالانکہ باپ یعقوب کی طرح اور بیٹا یوسف
جیسااسلام چاہتا ہے ،باپ ابراہیم جیسا اور بیٹا اسماعیل جیسا اسلام کی
تعلیم ہے ۔ مگر یہاں تو باپ بیٹے سے بات کرنے سے پہلے کئی بار سوچتا ہے اگر
بیٹے کو کچھ کہا تو اس کا رد عمل کیا ہوگا۔
وہ لفظ ڈھونڈ رہا تھا لرزتے ہونٹوں سے
ضعیف باپ نے بیٹے سے بات کرنی تھی
مزید اﷲ پاک ارشاد فرماتے ہیں:
’’اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا
اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔‘‘ ( البقرۃ: ۸۳)
ا یک دوسرے مقام پر فرمایا:
’’ اور اﷲ ہی کی عبادت کرو اور اس کیساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں
باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔‘‘ (النساء:۳۶)
اورفرمایا:
’’(لوگو!) آؤ میں تمہیں وہ چیز یں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے رب نے تم پر حرام
کی ہیں (اُن کی نسبت اُس نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے) کہ کسی چیز کو اﷲ کا
شریک نہ بنانا اورماں باپ سے (بدسلوکی نہ کرنا بلکہ) سلوک کرتے رہنا ۔‘‘
(الأنعام: ۱۵۱)
والد کا مقام حدیث کی نظر میں
حدیث مبار کہ میں نبی کریمؐ نے ماں کے قدموں تلے جنت کا تذکرہ کیا تو ساتھ
یہ بتایا کہ اﷲ نے باپ کو جنت کا دروازہ بنایا ہے جب تک باپ کی خدمت ،
اطاعت، تابعداری نہیں کروگے جنت میں داخلہ کیسے لے سکوگے۔
ابوالدرداء ؓسے روایت ہے کہ:
انکے پاس ایک آدمی آیا اور ان سے عرض کیا کہ میری بیوی ہے میری ماں اسے
طلاق دینے کاحکم دیتی ہے (میں کیاکروں؟) آپ نے فرمایا میں نے رسول اﷲؐ کو
فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:
’’والد جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے پس تو اگر چاہے تو اس
دروازے کو ضائع کردے یااس کی حفاظت کر ۔‘‘
سنن ترمذی :۱۹۰۰، سنن ابن ماجہ : ۲۰۸۹، حسن
جہاں ماں سے حسن سلوک کی تلقین ہے وہاں والد کا احترام اوراس سے حسن سلوک
کی بھی تعلیم جناب محمد ؐنے دی ہے ۔
سیدناابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اﷲ ؐکی خدمت میں حاضر ہوا
اور عرض کیاے اﷲ کے رسول ! میرے حسن سلوک کے سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟
’’آپ نے فرمایا:تمہاری ماں ، اس نے کہا پھرکون ؟ آپ ؐنے فرمایاتمہاری
ماں:اس نے پھر پوچھا ‘پھر کون ؟ آپ ؐ نے فرمایاتمہاری ماں ۔اس نے پھر پوچھا
پھر کون ؟ آپ ؐ نے فرمایاتمہارا باپ ۔‘‘
صحیح بخاری ،الادب،باب من احق الناس……الخ(۵۹۷۱)و مسلم (۲۵۴۸)
باپ کا احترام کیا کرو
ایک مرتبہ رئیس المنافقین عبداﷲ بن ابی ایک دیوار کے سائے میں اپنے حواریوں
کے ساتھ بیٹھا گپیں ہانک رہا تھا ۔ اﷲ کے رسولؐ اپنے ایک صحابی کے ہمراہ
سواری پر گزرے۔ عبداﷲ بن ابی نے دیکھا تو حسد کے مارے رہ نہ سکا۔ پکار کر
کہنے لگا:
یعنی اﷲ کے رسولؐ کے اجداد میں سے ایک کا نام لے کر کہنے لگا کہ ابن ابی
کبشہ ہمیں غبار آلو د کر دیا۔دراصل غبار اڑانے والی کوئی بات نہ تھی مگر یہ
اس کا تکبر تھا۔ اﷲ کے رسولؐ کے ساتھ حسد تھا۔ اﷲ کے رسولؐ کو اس کے ان
الفاظ پر غصہ آیا۔
ادھر عبداﷲ بن ابی کے سچے مسلمان بیٹے عبداﷲ کو اس واقعہ کا علم ہوا کہ
میرا باپ آپؐ کے ساتھ گستاخی کا مرتکب ہوا ہے ۔ وہ آپؐ کی خدمت میں حاضر
ہوا۔ ایمان اس کو کہتے ہیں کہ ادھر باپ ہے اور ادھر کائنات کے امام ہیں مگر
یہ امام کائنات ؐکے آگے اپنے منافق باپ کو ہیچ اور ناقابل توجہ سمجھتے
ہیں۔انھوں نے عرض کیا : اﷲ کے رسولؐ! مجھے معلوم ہوا ہے کہ میرے باپ نے آپ
کی شان میں ہرزہ سرائی کی ہے۔
’’ ا س ذات کی قسم جس نے آپ کو عزت وتوقیر سے نوازا اور آپ پر اپنی کتاب
نازل فرمائی۔ اگر آپ چاہیں تو میں اپنے باپ کا سرکاٹ کر آپ کے قدموں میں
رکھ دوں۔‘‘
ارشاد ہوا: ’’نہیں اپنے باپ کی عزت کر واور اس کے ساتھ حسن معاشرت سے پیش
آؤ۔‘‘
صحیح ابن حبان ۱۷۰/۲ حدیث ۴۲۹۔
باپ کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ؐنے فرمایا: تین قسم کی دعائیں
قبول کی جاتی ہیں ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں ہے۔
مظلوم کی دعا
اور مسافر کی دعا
اور باپ کی اپنے بیٹے کے حق میں دعا ۔
ترمذی، البر والصلۃ، باب ما جاء فی دعوۃ الوالدین (۱۹۰۵) صحیح
باپ کی دعا قبول ہو گئی
ایک شتربان جو بہت سے اونٹوں کا مالک تھا۔شہروں میں سامان منتقل کیا کرتا
تھاکیونکہ اس وقت مال برداری کے لیے صرف اونٹ ہی استعمال ہوتے تھے ۔یہ شخص
بڑا مال دار تھا اورشہر میں بیوی اور بچوں سمیت رہتا تھا۔اس کا باپ بوڑھا
اور کمزور تھا ، دیہات میں رہتا تھا۔ اس کے پاس تھوڑی سی زمین تھی، جس میں
وہ کھیتی باڑی کر کے گزراوقات کرتا، لیکن بڑھاپے کی وجہ سے اپنا کام کرنے
کی طاقت نہیں تھی ۔وہ ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں رہ رہا تھا۔
ایک دن حالات سے تنگ آ کر اس نے اپنے بیٹے کے سامنے آکر اپنی فقیری کا حال
بیان کرتے ہوئے کہا:بیٹا! ہمیں کچھ رقم دے دو جس سے ہم گزارہ کر سکیں۔ باپ
کے اصرار پر کہنے لگا کہ ان شاء اﷲ کل ضرور تعاون کروں گا۔باپ خوشی سے واپس
گھر آیا،بیوی کا خوشخبری سنائی۔ قرض خواہوں کو بتایا کہ کل آپ کا قرض چکا
دوں گا۔صبح ہوتے ہی باپ بیٹے کے گھر پہنچا تومعلوم ہوا بیٹا تو سامان لے کر
دوسرے شہر جا چکا ہے۔ اس نے جھوٹا وعدہ کیا تھا، اسے معلوم تھا کہ میں رات
کو سفر پر روانہ ہونے والا ہوں۔
باپ یہ صورت حال دیکھ کر انتہائی پریشان ہوا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری
تھے اوروہ اپنی بے بسی کا شکوہ اﷲ تعالیٰ کے سامنے کر رہا تھا۔پریشان حال
باپ کے منہ سے بددعا نکلی کہ اے اﷲ! اس کی عقل چھین لے ، اس کا مال برباد
کر دے اور اس کی بینائی ختم کردے۔
یہ وقت بھی قبولیت کاتھا کہ ادھر منہ سے بددعا نکلی ، عرش تک پہنچی اور شرف
قبولیت حاصل کر گئی ۔ باپ کا یہ نافرمان سفر سے واپس روانہ ہوا، رات کے وقت
آندھی آئی، آندھی کیا تھی ایک طوفان تھا، سخت سردی کاموسم تھا اور ریت بھی
اڑ رہی تھی ، ہر طرف اندھیرا چھا چکا تھا۔ اس اچانک طوفان کی وجہ سے قافلہ
بکھر گیا۔ نوکر بھاگ گئے، اونٹ بلبلا رہے تھے، یہ شتربان چیختا چلاتا رہا
مگر اس کا کوئی پرسان حال نہیں تھا، اسی حالت میں وہ بے ہوش ہو گیا، صبح
ہوش آیا تو وہ نامعلوم جگہ پرپڑا تھا، اس نے رونا شروع کر دیا، روتے روتے
بینائی ختم ہوگئی، بھوک اور پیاس کی شدت تھی جنگل میں آہ وبکا کرتا رہا
یہاں تک کہ عقل جواب دے گئی، یعنی پاگل ودیوانہ ہو گیا، مال پہلے ہی ضائع
ہو چکا تھا، ایک آدمی نے پہچان کر اس کو گھر تک پہنچا دیا۔ یہ وہ عذاب تھا
جو اس پر نازل ہوا۔ یہ سڑکوں پر پھرتا بچے اسے تنگ کیا کرتے تھے۔اس کا
بوڑھا باپ اوروالدہ اسے کچھ کھلانے کی کوشش کرتے تو وہ دور بھاگ جاتا
تھااوراجنبی لوگوں کے ہاتھوں کھا کر زندگی کے ایام پورے کر رہا تھا۔ یہ
مملکت سعودیہ کے شمالی علاقے کا واقعہ ہے جو ہر ایک کے لیے عبرت کا پہلو
رکھتا ہے۔
زمین میں والد راضی تو آسمان پر رب راضی
سیدنا عبداﷲ بن عمروؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا:
’’رب کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے اور رب کی ناراضی والد کی ناراضگی
میں ہے۔‘‘ الترمذی، البروالصلۃ، :۱۸۹۹، وصحیح ابن حبان: ۴۳۰، حسن
میں نے اک باپ کا خادم دیکھا
خلیفہ مامون کا بیان ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا
ایک ایسا واقعہ دیکھا ہے جس کی دوسری مثال میں نہیں جانتا۔ والدین کے ساتھ
حسن سلوک کے حوالے سے یہ واقعہ یقینا مثالی ہے۔ اسے پڑھ کر قارئین کو
والدین کے ساتھ اپنے سلوک کا تقابل ضروری کرنا چاہیے۔
یہ واقعہ فضل بن یحییٰ کا ہے۔ فضل بن یحییٰ نے اپنے والد کے ساتھ جس حسن
سلوک کا مظاہرہ کیا تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ صرف تاریخ اسلامی
ہی کی خصوصیت ہے کہ ہمارے اسلاف نے والدین کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
واقعے کی تفصیل یہ ہے کہ فضل بن یحییٰ کے والد، یحییٰ سردی کے دنوں میں
ہمیشہ گرم پانی ہی سے وضو کر کے نماز پڑھا کرتے تھے ۔ اس لیے سردی کے دنوں
میں ان کے لیے ہر وقت گرم پانی کا خاص انتظام کیا جاتا تھا۔
ایک دفعہ کسی وجہ سے فضل بن یحییٰ کے والد کو جیل جانا پڑا۔ فضل بن یحییٰ
بھی باپ کے ساتھ گرفتار ہو گئے ۔ باپ بیٹا دونوں جیل کی ہوا کھا رہے تھے یہ
سردی کا موسم تھا۔ قید خانے میں قیدیوں کے لیے گرم پانی کا کوئی انتظام
نہیں تھا۔ جبکہ فضل بن یحییٰ کے والد کی عادت گرم پانی سے وضو کرنے کی تھی۔
فضل بن یحییٰ نے جیلر سے مطالبہ کیا کہ میرے والد کے لیے گرم پانی کا
بندوبست کرایا جائے۔ جیلر نے جواب دیا کہ جیل کے اندر کسی قیدی کے لیے گرم
پانی کا انتظام نہیں ہو سکتا۔ فضل بن یحییٰ نے جیلر سے کہا کہ پھر باہر سے
لکڑی منگوا دو، ہم اس کی قیمت ادا کر دیں گے۔
جیلر نے کہا : جیل کے اندر قیدیوں کے لیے لکڑی جلانے کی اجازت نہیں ہے۔
فضل بن یحییٰ نے جیلر کی بہت منت سماجت کی کہ کسی طرح گرم پانی کا بندوبست
ہوجائے تاکہ صبح والد کو گرم پانی سے وضو کرا سکیں۔ جب ان کی تمام تدبیریں
ناکام ثابت ہوئیں اورجیلر نے ان کی بات ماننے سے بالکل انکار کر دیا تو
انھوں نے پانی کا برتن چراغ کے قریب کر دیا اور طلوع فجر تک برتن کو چراغ
کے قریب کر کے کھڑے رہے۔ جب ان کے والد فجر کے وقت بیدار ہوئے تو انھوں نے
اپنے والد کو گرم پانی سے وضو کرایا۔
فضل بن یحییٰ نے رات بھر جاگ کر اور چراغ کے پاس کھڑے ہو کر پانی گرم کیا
تو یہ واقعہ جیلر کو بھی معلوم ہو گیا۔ جب دوسرے دن کا سورج غروب ہوا تو
فضل بن یحییٰ کے والد سو گئے۔ وہ گزشتہ شب کی طرح پانی گرم کرنے کے لیے
چراغ کے پاس جانے لگے تو انھیں یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ چراغ اپنی جگہ
پر موجود نہیں ہے بلکہ اسے ایسے مقام پر رکھ دیا گیا ہے جہاں تک ان کاہاتھ
نہیں پہنچ سکتا۔ چنانچہ فضل بن یحییٰ کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ اب والد
کے لیے پانی گرم کرنے کی کون سی تدبیر اختیار کی جائے ۔ وہ اسی سوچ میں تھے
کہ ان کے ذہن میں ایک تدبیر آئی ۔ انھوں نے ٹھنڈے پانی کے برتن کو اپنے پیٹ
پر رکھ لیا تاکہ پیٹ کی حرارت سے پانی گرم ہوجائے ۔ ان کی یہ تدبیر کامیاب
ثابت ہوئی صبح تک پانی گرم تو نہ ہو سکا تاہم وہ ٹھنڈا بھی نہ تھا۔ نماز
فجر کے وقت جب ان کے والد بیدار ہوئے تو انھوں نے اپنے والد کو اس پانی سے
وضو کرایا۔
فضل کی وفات رقہ کے قید خانے ہی میں ۱۹۳ھ میں ہوئی ۔ ابن اثیرa ان کے بارے
میں لکھتے ہیں:
’’فضل بن یحییٰ دنیا کے بہت سے محاسن کا مجموعہ تھے ان کا ثانی دنیا میں
پھر نہیں دیکھا گیا۔‘‘
[انٹر نیٹ سے مطالعہ کے لیے(htt://muntada.islamtoday.net)]
والدین کو برا بھلا مت کہو
اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’اور تمہارے رب نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور
ماں باپ کیساتھ بھلائی کرتے رہو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو
پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ اُنہیں جھڑکنا، اور ان سے بات
ادب سے کرنا ۔ اور عجز و نیاز سے اُن کے آگے جھکے رہو اور اُن کے حق میں
دعا کروکہ اے اﷲ! جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت سے )پرورش کیا ہے تو
بھی اُن ( کے حال )پر رحمت فرما ۔‘‘ (الاسراء: ۲۳،۲۴)
والدین کو گالی دینا
عبداﷲ بن عمرو بن العاص ؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲ ؐ نے فرمایا:
’’کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے والدین کوگالی دے صحابہ
نے عرض کیا یارسول اﷲ ؐ ! کیا آدمی اپنے ماں باپ کو بھی گالی دیتاہے
․․․؟آپؐ نے فرمایا: ’’ ہاں ایک شخص کسی کے باپ کو گالی دیتاہے ؟ وہ پلٹ اس
کے باپ کو گالی دیتاہے اسی طرح وہ اس کی ماں کو گالی دیتاہے اور وہ جواب
میں اس کی ماں کوگالی دیتاہے (یوں گویاوہ اپنے والدین کی گالی کا سبب
بنا)‘‘
صحیح بخاری،الادب، اجابۃدعاء من برو الد یۃ( ۵۹۷۳)ومسلم (۹۰)
بیٹے کی دعا باپ کے لیے
بیٹا جب ماں باپ کے لیے دعا کرتا ہے تو اﷲ قبول کرتا ہے:
سیدناابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲ ؐ نے فرمایا:
انسان فوت ہوجاتاہے تو تین اعمال کے سوااس کے تمام اعمال منقطع ہوجاتے ہیں
۱ ۔ صدقہ جاریہ
۲۔ ایساعلم جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہوں
۳ ۔ نیک وصالح اولاد جو اس کے لیے دعاکرتی ہو ۔
صحیح مسلم ،الوصیۃ ،باب مایلحق الانسان من الثواب بعد المیت(۳۱۱۶)
ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’جو اپنے باپ سے اس کی قبر میں صلہ رحمی(نیکی) کرنا پسند کرتا ہے وہ والد
کی وفات کے بعد اس کے بھائیوں سے صلہ رحمی کیا کرے۔‘‘
صحیح ابن حبان، ۴۳۳، وصحیح الترغیب والترہیب: ۲۵۰۶۔
عبداﷲ بن دینار سیدنا عبداﷲ بن عمر ؓسے روایت کرتے ہیں کہ:
’’ایک دیہاتی آدمی انہیں ایک راستے میں ملا ، عبداﷲ بن عمر ؓنے اسے سلام
کیا اور اسے گدھے پر سوار کرلیا ، جس پر وہ خود سوار تھے اور اسے وہ عمامہ
بھی دے دیا جو ان کے سر پر تھا (حدیث کے راوی ابن دینار کہتے ہیں )کہ ہم نے
ابن عمرؓ سے کہا اﷲ آپ کا بھلاکرے یہ تو دیہاتی لوگ ہیں ،تھوڑی سی چیز پر
راضی ہوجاتے ہیں ،(ان کے ساتھ اتنا کچھ کرنے کی کیا ضرورت تھی ) سیدناعبداﷲ
بن عمر ؓ نے فرمایا:
’’(بات یہ ہے )اس شخص کاباپ(میرے باپ)عمربن خطابؓ کادوست تھا، اور میں نے
رسول اﷲ ؐ کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے بڑی نیکی آدمی کااپنے باپ کے دوستوں
سے نیکی کرناہے ‘‘
ایک اور روایت میں ہے جو ابن دینار ہی ابن عمر ؓسے روایت کرتے ہیں کہ ابن
عمرؓ جب مکہ جاتے تو ان کے پاس ایک گدھاہوتا جب وہ اونٹ کی سواری سے
اکتاجاتے تو اس پرسوار ہوجاتے اور ایک عمامہ ہوتا جسے وہ سر پر باندھ لیتے
، اس دوران کہ ایک دن وہ اس گدھے پر سوار تھے ، آپ کے پاس سے ایک دیہاتی
گزرا آپ نے اس سے پوچھا کیاتو فلاں بن فلاں کابیٹانہیں ہے ؟اس نے جواب دیا
ہاں کیوں نہیں ، آپ نے اسے وہ گدھادے دیااور فرمایا: اس پر سوار ہوجا اور
اسے عمامہ بھی عنائیت فرمادیا اور کہا اس کے ساتھ اپنے سرکوباندھ لے پس ابن
عمر کے بعض ساتھیوں نے ان سے کہا اﷲ تعالٰی آپ کو معاف فرمائے آپ نے اس
دیہاتی کو وہ گدھابھی دے دیا جس پر آپ دوران سفر آرام کرتے تھے ، وہ عمامہ
بھی دے دیاجس کے ساتھ آپ اپنے سر کو باندھتے تھے ۔ آپ نے فرمایا میں نے
رسول اﷲؐ کو فرماتے ہوئے سنا :
’’کہ سب سے بڑی نیکی یہ ہے ، کہ آدمی اپنے باپ کے (مرنے کے بعد) اس کے
دوستوں سے تعلق برقرار رکھے اور ان سے حسن سلوک کرے‘‘
(اور تمہیں معلوم ہوناچاہیے ) کہ اس کاباپ حضرت عمربن خطابؓ کادوست تھا۔
صحیح مسلم ، البروالصلاۃ ، باب صلۃ اصدقاء الا ب والاونحوھما(۲۵۵۲)
سیدناابو اسید مالک بن ربیعہ ؓسے روایت ہے کہ:
ایک وقت ہم رسول اﷲ ؐ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، کہ بنی سلمہ قبیلے کا ایک
آدمی آپ کی خدمت میں حاضرہوا اور آکر اس نے عرض کیا یارسول اﷲؐ کوئی ایسی
نیکی بھی باقی ہے جو والدین کی وفات کے بعد میں ان کے ساتھ کروں ؟ آپ ؐ نے
فرمایا:
’’ہاں ، ان کے حق میں دعائے خیر کر نا اور انکے لیے مغفرت مانگنا ان کے بعد
کے (کئے گئے )عہد پورا کرنا اور ان کے رشتوں کوجوڑنا جو انہی کی وجہ سے
جوڑے جاتے ہیں اور ان کے دوستوں کی عزت کرنا ۔‘‘
سنن ابی داود،الادب،باب فی برالولدین( ۵۱۴۲) ‘ سنن ابن ماجہ :۳۶۶۴ ، وسندہ
حسن
والدین کی نافرمانی کبیرہ گناہ
والدین کا نافرمان جنت سے محروم کر دیاجائے گا ۔حضرت عبد اﷲ بن عمرؓ سے
مروی ہے کہ رسول اﷲؐ نے فرمایا: تین آدمی جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔
والدین کا نافرمان
ہمیشہ شراب نوشی کرنے والا
اور کچھ دے کر احسان جتلانے والا
نسائی، الزکاۃ، باب المنان بما اعطٰی (۲۵۶۲) صحیح الترغیب (۲۰۷۰)
بلکہ ایسا انسان اﷲ کے ہاں معلون ہے۔
حضرت علیؓ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲؐنے فرمایا:
’’اﷲ نے اس پر لعنت کی ہے جس نے اپنے والدین پر لعنت کی۔‘‘
مسلم، الأضاحی، باب تحریم الذبح لغیر اﷲ ولعن فاعلہ (۱۹۷۸)
والد کی اطاعت اﷲ کی اطاعت
حضرت ابوہریرہؓسے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲؐنے فرمایا:
’’اﷲ کی اطاعت والد کی اطاعت میں ہے اور اﷲ کی نافرمانی والد کی نافرمانی
میں ہے۔‘‘
صحیح الترغیب (۲۵۰۲)
بوڑھا ہو گیا ہوں میں تھوڑا وقت دے دیا کر
بیٹھ کر دو چار ہی سہی پر مجھ سے باتیں کیا کر
توہی میری لاٹھی ہے تو ہی میری ہے روشنی
کچھ پل کے لیے ساتھ میرے راستہ طے کیا کر
مرجاؤں گا ایک دن چلا جاؤں گا چھوڑ کر تجھے
جو بچی ہے زندگی صاحب مجھے کچھ میرے لیے بھی رکھا کر
باپ کی تابعداری بیٹی کے بھاگ کھل گئے
باپ کی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔ وہ انتہائی پریشان ہے۔ اس کے خیالات پراگندہ
ہیں۔ وہ مایوسی کے عالم میں اپنی مجلس میں بیٹھا ہے اس کی سمجھ میں نہیں آ
رہا کہ وہ قرض کی ادائیگی کیسے کرے گا۔ قرض بھی کوئی معمولی نہیں۔ قرض خواہ
نے اسے وارننگ دے دی تھی کہ اگر فلاں دن تک تم نے میرا قرض ادا نہیں کیا تو
تمھیں جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔ فی الواقع عدالت نے بھی اسے انتباہ کیا کہ
اگر فلاں تاریخ تک قرضدار نے قرض خواہ کے واجبات کی ادائیگی نہیں کی تو اسے
گرفتار کر لیاجائے گا۔
باپ کے سامنے ادائے قرض کا کوئی حل موجود نہیں۔ دوسرا سیمہ ہے۔ اچانک ایک
حل سمجھ میں آتا ہے ۔ وہ اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے۔ اس کے چہرے پر افسردگی
کے آثار نمایاں ہیں۔ وہ شاید بات کرنے میں کچھ تذبذب محسوس کررہا ہے ۔ مگر
اس کی آنکھوں کے سامنے جیل کی سلاخیں بھی ہیں ، اس لیے اسے زبان کھولے بغیر
کوئی چارہ بھی نہیں۔ وہ سامنے بیٹھی ہوئی اپنی اٹھارہ سالہ بیٹی سے مخاطب
ہے:
’’بیٹی تجھے معلوم ہے کہ مجھ پر ایک بھاری قرض ہے ۔میں فی الوقت ادائے قرض
کی طاقت نہیں رکھتا۔ قرض خواہ نے مجھ پر عدم ادائے قرض کا مقدمہ دائر کر
دیا ہے ۔ عدالت کی طرف سے ایک مقررہ وقت پر مجھے قرض چکانا ہے، ورنہ مجھے
جیل جانا پڑے گا۔ اب میرے پاس وقت بھی نہیں۔ تیرا کیا خیال ہے اگر میں تیری
شادی ایک ایسے آدمی سے کر دوں جو مالدار بھی ہے اور اعلیٰ اخلاق کا مالک
بھی لیکن وہ بڑی عمر کا ہے ۔ وہ تجھ سے شادی کے بعد میرا پور اقرض چکا دے
گا اور مجھے جیل کی ہوا نہیں کھانی پڑے گی۔ اتفاق سے اس شخص نے میرے پاس
تجھ سے شادی کا پیغام بھی دے رکھا ہے ۔ میں چاہوں گا کہ تو استخارہ کر اور
اس مالدار آدمی سے شادی کر لے تا کہ میرا مسئلہ حل ہو جائے۔ میں اس سلسلے
میں تیری رائے جاننا چاہتا ہوں۔‘‘
اٹھارہ سالہ لڑکی نے باپ کی باتیں سنیں تواس نے بوڑھے مالدار کے پیغام کو
ٹھکرا دیا اورکہنے لگی: ابوجان! میں یہ رشتہ قبول نہیں کر سکتی۔ میں بڑی
عمر کے آدمی سے ہر گز شادی نہیں کروں گے چاہے وہ کتنا ہی مالدار ہو۔ بھلا
میری سہیلیاں مجھے کیا کہیں گی؟
باپ نے بیٹی کا دو ٹوک فیصلہ سنا تو اس کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں کیونکہ اس
کے سامنے ادائے قرض کا یہی ایک راستہ تھا کہ وہ اپنی لڑکی کی شادی اس
مالدار سے کر دے اور وہ مالدار اس کا قرض ادا کر دے۔ لیکن اس کی امید پر
بھی پانی پھر گیا اور وہ پہلے سے کہیں زیادہ غمگین ہو گیا۔ وہ اپنے بستر پر
آکر لیٹ گیا اور جیل جانے کے بارے میں سوچنے لگا۔ اسے شرم محسوس ہو رہی تھی
کہ جب محلہ والے اوراس کے دوست احباب سنیں گے کہ قرض ادا نہ کرنے کی وجہ سے
اسے جیل میں ڈالا گیا ہے تو کیا کہیں گے۔ وہ اسی سوچ میں تھا۔ مارے غم کے
اس کا سینہ پھٹا جا رہا تھا کہ اچانک اس کے کمرے میں کسی کے داخل ہونے کی
آہٹ ہوئی لیکن وہ آنے والے کی طرف متوجہ نہیں تھا اچانک اس کے کانوں سے
بیٹی کی آواز ٹکرائی:
’’ابوجان ! میں شادی کرنے کے لیے تیار ہوں آپ کی پسند کا رشتہ بھی قبول
کرتی ہوں۔ آپ جب چاہیں اور جس سے چاہیں میری شادی کر دیں۔ میں آپ کی خوشی
کے لیے اپنی ساری خوشیاں قربان کر سکتی ہوں اس لیے میری گزارش ہے کہ آپ
غمزدہ نہ ہوں میں راضی ہوں۔‘‘
باپ نے یہ آواز سنی تو چونک پڑا۔ بیٹی کی طرف متوجہ ہوئے بغیر کہنے لگا:
’’چلو بیٹی! میں تو سمجھا تھا کہ تو راضی نہیں ہو گی لیکن اﷲ تیرا بھلا کرے
کہ تو نے میری لاج رکھ لی ۔ اﷲ تجھے اس کا بہترین بدلہ عنایت فرمائے۔‘‘
لیکن جب اس کی نگاہ اٹھی تو وہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سامنے اس کی اٹھارہ
سالہ بیٹی نہیں بلکہ اس کی دوسری بیٹی کھڑی تھی جس کی عمر پہلی بیٹی سے دو
سال کم یعنی سولہ سال کی تھی۔ اس نے اپنی بیٹی کو گلے سے لگا لیا اوراس کی
اس قربانی پر اسے ڈھیر ساری دعائیں دیں۔
اس کے بعد شادی کی کاروائیاں شروع ہو گئیں ۔ عقد نکاح لکھا گیا اور نکاح کے
حوالے سے جو کاغذات درکار تھے ، تیار کر دیے گئے نکاح کی کاروائی کے فوراً
بعد رخصتی نہیں ہو سکی۔ کیونکہ دولہا ایک بڑا تاجر تھا ۔ اسے کاروبار کے
سلسلے میں جرمنی جانا تھا ۔ اس نے لڑکی کے والد سے کہا کہ میں اپنے کاروبار
کے سلسلے میں دو ماہ کے لیے جرمنی جا رہا ہوں۔ وہاں مجھے ایک کانفرنس میں
شرکت بھی کرنی ہے جب میں واپس آؤں گا تو دھوم دھام سے رخصتی ہو گی۔ میرا
جرمنی جانا ازحد ضروری ہے۔
چنانچہ سولہ سالہ لڑکی کا عمر رسیدہ تاجر شوہر جرمنی کے سفر پر روانہ ہو
گیا۔ وہاں اس نے مختلف پروگراموں میں شرکت کی۔ وطن لوٹنے کا وقت قریب تھا۔
وہ وطن آنے کی تیاریا ں کر رہا تھا ۔ ایک روز ٹیکسی میں کہیں جارہا تھا کہ
اچانک اس کی ٹیکسی حادثے کا شکار ہو گئی اور وہ جائے واردات ہی پر دم توڑ
گیا۔ گھروالوں کے تقاضے کے مطابق اس کی لاش وطن پہنچائی گئی اور کفن دفن کا
اہتمام ہوا۔ کفن دفن کے بعد جب اس کی جائیداد ورثاء میں تقسیم ہوئی تو اس
سولہ سالہ دلہن کو دس ملین ریال ملے جو پاکستانی کرنسی میں تقریباً بائیس
کروڑ روپے بنتے ہیں۔
سوگ کی مدت مکمل کرنے کے بعد اس سولہ سالہ دوشیزہ کی شادی ایک نوجوان سے ہو
گئی۔ ادھر اس کے قرضدار باپ کا قرض بھی ادا ہو گیا اور وہ جیل جانے سے بھی
بچ گیا۔
قارئین کرام! دراصل اس دوشیزہ نے اپنے والد پر احسان کیا تو اﷲ تعالیٰ نے
بھی اس پر فضل وکرم فرمایا۔ ہر چند اس کی شادی ایسے عمر رسیدہ تاجر سے ہوئی
جو رخصتی سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو گیا مگر دلہن کو اس کے ورثے میں سے
اتنے بھاری رقم ملی جو اس کے خواب وخیال میں بھی نہیں تھی۔ اﷲ تعالیٰ نے
ایسے ہی موقعے کے لیے یہ آیت اتاری ہے:
’’اورجو شخص اﷲ سے ڈرتا ہے اﷲ اس کے لیے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے
اوراسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اﷲ
پر توکل کرے گا اﷲ اسے کافی ہوگا۔‘‘ (الطلاق: ۲۔۳)
(یہ واقعہ شیخ عصام العوید کی کیسٹ ’’الشمس والقمر‘‘سے موخوذ ہے نیز انٹر
نیٹ پر بھی پڑھا جا سکتا ہے
آخری نصیحت
میری انگلی پکڑ کے چلتے تھے ……اب مجھے راستہ دکھاتے ہیں
اب مجھے کس طرح سے جینا ہے…… میرے بچے مجھے سکھاتے ہیں
باپ ایک مقدس محافظ ہے جو ساری زندگی خون پسینے کی کمائی سے گھر چلاتا ہے
اور خاندان کی نگرانی کرتا ہے اس کے سامنے اونچا نہ بولو ورنہ اﷲ تمھیں
نیچا کر دے گا اور تمھاری کسی بات سے آنسو نہ گریں ورنہ اﷲ تمھیں لوگوں کی
نظروں میں اور جنت سے گرا دے گا۔ |
|