جس معاشرے میں دلیل ختم ہو جاے،
حقائق مرجھا جائیں اور تحقیق دم توڑ دے وہاں گالی جنم لے لیتی ہے اور جس
قوم کا مزاج گالی بن جاے وہاں حقائق مزید دھندلا جاتے ہیں، جہالت گونجنے
لگتی ھے اور پھر اس معاشرے کا ارتقای سفر صدیوں تک کےلیے رک جاتا یے۔ اسکی
تقدیر کا حسین رخ گالیوں کی نجاست سے اٹ جاتا ہے جسے غسل دینے میں زمانے
بیت جاتے ہیں اور نجاست ختم نہیں ہوتی۔
زبان قدرت کی تمام نعمتوں میں قابل قدر اسلیے ہے کہ یہ انسان اور جانور میں
میں بنیادی فرق پیدا کرتی ہے۔ ہماری آواز، لہجہ اور ادائیگی ہی ہماری اصل
پہچان بنتی ہے۔ ہم فطری طور پر آواز اور لہجے سے مانوس، مرعوب اور محظوظ
ہوتے ہیں۔ ہماری خوشبختی یہ ہے کہ ہم گفتگو، راے دہی اور بحث کر سکتے ہیں۔
اپنا مقصد اور مطلب سمجھانے کے لیے تقریری اور تحریری حربے آزما سکتے ہیں۔
سچ پوچھیے تو کائنات کے تمام رنگ اور زندگی کی ابھرتی قلقاریاں آواز اور
انداز ہی کی مرہون منت ہیں۔ کیتے ہیں زبان ایک سستا اور باصلاحیت ہتھیار
ہےلیکن اسکا لگایا زخم تلوار سے بھی زیادہ تیز ہوتا ہے۔ برائ بھی تب تک
برائ نہیں کہلاتی جب تک زبان سے ادا نہیں ہو جاتی۔ حدیث نبوی ہے کہ “ تم
مجھے اپنی زبان اور شرمگاہوں کی حفاظت کی ضمانت دو، میں تمہیں جنت کی ضمانت
دیتا ہوں“، یعنی دلوں کے معاملے حق تعالی کے سپرد ہیں لیکن زبان کا استعمال
انسان کی اپنی دسترس میں ہے۔
زبان کی اس درجہ اہمیت کو ذہن میں لاتے ہوے مجھے معاشرتی دلدل سے نکلتی ہوئ
فحش، بے ہنگم اور تند و تیز آوازیں اپنی سماعت سے ٹکراتی محسوس ہوئیں تو
لگا جیسے لہجوں کی تیز دھوپ سے کوئلہ ہوتی زہر خند زبانیں اپنے معاشرتی
وقار اور آبرو ریزی کی بقا کے لیے زنجیر عدل کچھ اسطرح ہلا رہی ہیں کہ
دربار جہانگیری کی اینٹ اینٹ لرز رہی ہے اور لگتا ایسا ہے کہ ابھی کے ابھی
دربار عدل اپنے غیظ و غضب سے پھٹ جائیگا پھر جملوں کے تیر، زبان کے زخم اور
گالیوں کی تھاپ کبھی سنائ نہیں دے گی، لیکن ہمیشہ کیطرح ایسا ہوا۔۔۔ہاں یہ
ضرور ہو کہ فضاے شہر مزید آلودہ ہو گئ اور زخم ناسور بن گئے۔
معلوم نہیں ہمارے تعلیمی اداروں میں کونسا ایسا نقص ہے کہ معاشرے میں فہم و
فراست پھیلنے کے بجائے
لغو جملے اور نازیبا الفاظ بڑھتے جا رہے ہیں۔ ملک میں بے شمار تعلیمی ادارے
ہونے کے باوجود جہالت وبا کیطرح پھیل رہی ہے۔ میرے لیڈر اپنی تقریروں میں،
میرے مؤدب اپنی تصنیفوں میں، میرے شا عر اپنے مصروں میں، میرے مفکر اپنی
فکروں میں میرے معلم اپنے علم میں، میرا میڈیا اپنی تشہیروں میں غرض ہر
طبقے کا بندہ اپنے کام میں تلخیاں چاٹتے چاٹتے زہر بن چکا ہے۔ دکھ اس بات
کا نہیں کے شائستگی اور لطافت نہ رہی، ملال تو یہ کہ احساس جیسی انمول چیز
بےمول بک گئ۔ ہمیں ادراک نہیں لیکن نازیبا جملے اور ترش لہجے معاشرے میں
احساس کی بیخ کنی کر گئے ہیں اور ہمیں محسوس نہیں ہوتا کہ ہماری شناخت
ہماری زبان کے مؤثر استعمال پر منحصر ہے۔
میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھا شجرہ نصب،
بات کرنے سے قبیلے کا پتہ چلتا ہے!!
ان پڑھ گالی دے تو جاہل کہہ لیں مگر اعلی ڈگری یافتہ نازیبا لفظوں کے جملے
بنانے میں ماہر ہو جائے تو کیا کہیں گے؟ عورت کی محبتوں میں پلے ناگ اسکے
وجود میں زہر گھول کے اسکے اعتماد کو گالی بنا دیں تو نالہ کون سنے گا؟
گلیوں میں کھیلتے معصوم بچوں کی زبان سے نکلنے والی ماں بہن کی گالیوں کا
الزام کس کے سر جائے جو لغو جملوں کے عوض اپنی معصومیت بیچ رہے ہیں؟
ہم سٹاسٹھ سالوں بعد بھی معاشی معاشرتی اور سماجی ترقی نہیں کر پائے جبکہ
ہمارے بعد کے آزاد ممالک سپر پاورز کہلاے جارہے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں
گالیوں کی پیداوار گندم کی پیداوار سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمارے گودام طنز،
طعنوں اور نازیبا جملوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ہماری سیاست شعور کی آواز سے
جاگتی نہیں بلکہ گالیوں کی تھاپ پر ناچتے ناچتے تھک ہار کے نیم مدہوش
بڑبڑاتے ہوئے سو جاتی ہے۔حتی کہ ھمار ے ہاں بدزبانی کو جرآت اور شائستہ
گفتار کو ناقص العقل سمجھا جاتآ ہے۔ الغرض ہم مذہبی، اخلاقی، سماجی،
معاشرتی، معاشی، تعلیمی اور تعمیری میدانوں میں بری طرح پسپا ہو کر اوندھے
منہ پڑے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی سلگتی زندگیوں کو لہجوں کی تیز دھوپ سے
بچائے رکھیں ورنہ گونج دار آوازوں کی تیز آندھی نفرت کے انگاروں کو مزید
بھڑکا دیں گی اور معاشرتی ڈھانچہ جل کر راکھ ہو جائےگا۔ مشکلوں میں
گھبرانا، مدہوشی میں بڑبڑانا اور خوف سے کانپنا فطری اعمال ہیں لیکن
مصیبتوں پر صبر، حواس پر قابو اور ڈر کا مقابلہ کرنے سے حقیقی خوشی بھی
ملتی ہے اور ضمیر کی خلش سے نجات بھی۔ خدارہ برداشت کی چھاؤں میں کچھ دیر
سستانے پر آمادہ ہو جائیں اور اپنے قولوعمل میں اعتدال لے آئیں اسطرح شاید
ہم اپنی سلگتی روحوں سے نکلتی چیخوں پر کان بند کرنے کے بجائے شعور کی
کھڑکی سے انرر آتی سرد ہواؤوں سے نفرتوں کی آگ بجھا سکیں۔ |