ایک زمانہ تھا جب نوجوان لڑکے
لڑکیاں ڈاکٹر انجینئر بننے کی خواہش رکھتے تھے پھر بزنس ایجوکیشن نے ایسی
جگہ بنائی کہ ایم بی اے، سی اے،اے سی ایم اےکی جانب رواں دواں ہونے
لگے۔سابق جنرل و صدر پاکستان پرویز مشرف نے محسوس کیا کہ پاکستان کی ترقی
اور احتسابی عمل کیلئے میڈہا کے رول کو اجاگر کرنا ضروری ہے، اسی سوچ کے
بعدع مشاورت کیساتھ ایک ایسا ادارہ وجود میں لایا گیاجو میڈیا کو اخلاقیات
اور پاکستانی آئین و تحفظ پر قائم رکھ سکے ، اس ادارے کو تمام تر حقوق
دیئے گئے کہ وہ کسی بھی میڈیا کے ادارے جس میں ٹیلیویژن،ریڈیو،ویب سائڈز،
اخبارات، رسالے وجرائد اور دیگر اشاعتی اداروں کو شامل کیا گیا کہ ان میں
اسی کوئی حرکات و شبہات نہ پائی جائیں جو وطن عزیز کی سلامتی و بدنامی کا
باعث بن سکیں، اس ادارے کو با اختیار بنایا گیا تھا پاکستان بھر میں اسے
پیمرا کہتے ہیں یعنی پاکستان الیکٹرونگ میڈیا ریگولیشن اتھارٹی۔اس سے
قبلاخبارات یعنی پرنٹ میڈیا کو ابلاغ عامہ کہتے تھے لیکن ٹیلیویژن ،ریڈیو
اور انٹرنیٹ کی ویب سائڈ کو اشاعتی اداروں کیساتھ یکجا کرکے میڈیا کا نام
سے روشناس کرایاگیا۔۔ آج پاکستان بھر کی سرکاری و نجی یونیورسٹیاں ماس
کمیونیکیشن کے موضوع پر ان اداروں کی تعلیم دیتی ہے جس سے حصول تعلیم کے
فراغت کے بعد طالبعلم میڈیا میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں۔ ۔۔ بہت
کم وقت میں بہت تیزی کیساتھ پاکستان میں میڈیا کے شعبے میں نہ صرف ترقی
ہوئی بلکہ روزگار کے مواقع بھی بڑھے۔۔محدود سطح پر سرکاری ٹیلیویژن کے بعد
نجی چینلز میں این ٹی ایم نے اپنے نشریات کا آغاز سن انیس سو نوے مین کیا
لیکن کچھ ٹیکنیکل کمزوریوں کے باعث بد حالی کا شکار ہوگئی اور آخر کار اس
کی نشریات کو بند کرنا پڑا۔۔ سن انیس سو نوے کے بعد سابق جنرل و صدر پرویز
مشرف نے اپنے دور اقتدار میں دوہزار کے عشرے میں جہاں دیگر شعبوں کی بہتری
کیلئے نئے اداروں کا آغاز کیا گیا وہیں پیمرا کا وجود بھی آیا۔پرویز مشرف
کے اقتدار کے بعد جمہوری حکومتوں نے اُن محتسب شدہ اداروں کو تباہ و برباد
کرکے رکھ دیا جس میں نیب اور محتسب اعلیٰ کا ادارہ بھی شامل ہے۔۔۔۔ہونا تو
یہی چاہیئے تھا کہ اچھے کام کو جاری و ساری رکھا جائے اور وطن عزیز کی ترقی
و سلامتی کو مضبوط بنانے کیلئے ان اداروںح کو مزید بہتر اور با اختیار
آزاد رکھا جاتا لیکن افسوس صد افسوس ایسا نہیں ہوا۔ مخالفت برائے مخالفت،
نفرت برائے نفرت، عداوت برائے عداوت، کینہ برائے کینہ، بغض برائے بغض کے
عمل کو نہ صرف جاری رکھاگیا بلکہ اِس میں اس قدر اندھے ہوگئے کہ اپنی عوام
اور ملک کی کسی طور پرواہ نہیں کی گئی۔۔یوں تو ہر سیاستدان، بیوروکریٹس،
صنعتکار، مفکر و دانشور بڑے فخر سے کہتا ہے کہ پاکستان دو قومی نظریئے اور
لاکھوں جانوں کی قربانی سے معروض وجود میں آیا ہے لیکن کیا یہی اس پاکستان
کی قربانیوں کے حساب سے اپنا پانا کردار ادا کررہے ہیں، ذرا سوچئے۔۔!!یہاں
میرا موضوع تحریر میڈیا کے مالزمین کے مستقبل کے بارے میں ہے !! یاد رکھنے
کی بات ہے کہ سابق جنرل و صدر پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں جن اداروں
کو لائسنس کا اجرا کیا تھا ان ہی چینلز نے پرویز مشرف پر نہ صرف شدید تنقید
کی بلکہ مخالفت میں اس قدر چلے گئے کہ جھوٹ کو سچ کی جگہ باندھنے کی نا کام
کوششیں کیں۔کیا ان چینلز نے کبھی کرپٹ سیاستدانوں کا ایسا احتساب کیا جس کا
کرنا ان کے فرائض میں شامل ہے ، ممکن ہے نہیں میں جواب ملے گا۔۔پچھلے پانچ
سال اور موجودہ ڈھائی سال جمہوریت کے گزرے ہیں اور عوام کے درمیان جب بیٹھا
جاتا ہے تو ہو ان جمہور کو ناپسند کرتے ہوئے کوستے نظر آتے ہیں ، عوام کا
کہنا ہے کہ ہمارے ملک مین اگر میڈیا، پولیس اور عدالت کے نظام کو شفاف
بنادیا جائے تو حقیقتاً ،یقیناًپاکستان کرپشن اور بدعنوانی جیسے ناسورمرض
سے آزاد ہوجائیگا۔۔۔ عوام کے ایک گروپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کیلئے سب
سے پہلے میڈیا کو شفافیت، حقائق اور ایمانداری کی راہ پر چلانا ہے کیونکہ
میڈیا کے اداروں کے مفادات حاصل کرنے کیلئے میڈیا حقائق پر پردہ ڈالتا ہے
اور بد عنوان ، کرپٹ لوگ احتسابی عمل سے آزاد ہوجاتے ہیں۔۔۔ نبی کریم ﷺ کا
فرمان عالی شان ہے کہ کوئی بھی بات اُس وقت تک آگے نہ پہچاؤ جب تک مکمل
تحقیق نہ کرلو اور بہتر ہے کہ عیب پر پردہ ڈال دو۔۔ گزشتہ سال سالوں سے
میڈیا ادارے خود ایک دوسرے سے دست گربیاں ہیں ،عارضی وقت کیلئے اپنے مفادات
کے حصول تک بظاہر ایک ہوجاتے ہیں اور پھر سوتن جیسا رویہ اختیار کرلیتے
ہیں، با شعور اور مفکر لوگوں کا کہنا ہے کہ جب نصیب رب العامین دیتا ہے تو
میڈیا کے ادارے حوس و حرص میں تمام راہیں کیوں پار لیتے ہیں، ویسے تو
اخلاقیات، انسانیت، ادب و تہذیب کا درس دینے والے میڈیا کے ادارے اپنے مالی
فوائد کیلئے تمام قوائد بھول جاتے ہیں اور جب مخالفت میں آتے ہیں تو اندھے
ہوجاتے ہیں، ان کے ان رویئے سے ملازمین براہ راست متاثر ہوتے ہیں کیونکہ
میڈیا کے مالکان کی جنگ میں صرف اور صرف ملازمین ہی مالی و ذہنی اذیت کا
شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ مالکان ادارے کے نقصان کو ظاہر کرکے کبھی تنخواہیں
تاخیر سے دیتے ہیں اور تو اور مراعات کا خاتمہ بھی کردیا جاتا ہے۔روشن
پاکستان کیلئے بھی لازم ملزوم ہے کہ میڈیا کے اداروں کو مثبت انداز میں
رہنا ہے جب تک میڈیا کے ادارے مثبت راہوں پر نہیں چلیں گے اور پیمرا کے
قوانین پر پابند نہ ہونگے تو کبھی بھی میڈیا انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے
ملازمین نہ مطمعین ہوسکیں گے اور نہ پرسکون ہوکر کام کرسکیں گے۔ سینئر
صحافی اور اینکرز پرسن کا موقف ہے کہ میڈیا کو کسی کا آلہ کار نہ بننا
چاہیئے بلکہ وہی حقیقت سامنے پیش کرنی چاہیئے جو حقائق پر مشتمل ہے جبکہ
میڈیا اداروں کے مالکان کوچھوٹے ملازمین کی تنخواہ کا طریقہ کار واضع کرتے
ہوئے اس ترتیب سے رکھنا چاہیئے کہ ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں زمین
آسمان کا فرق پیدا نہ ہوسکے کیونکہ اس فرق سے میڈیا کے مین پاور پر منفی
اثر ہورہا ہے ، کچھ نے بول کی تنخواہوں اور مراعات کا حوالہ بھی دیا کہ اگر
بول کے فارمولہ پر دیگر چینلز کام کریں تو یقیناً ان دیگر چینلز میں
ملازمین میں نہ صرف اعتماد پیدا ہوگا بلکہ ان کی صلاحیت میں کئی گنا اضافہ
بھی دیکھا جاسکے گا، کئی سینئرز نے اس بات پر اتفاق کیا کہ منتخب نمائندگان
کو اس سلسلے میں ایوان میں بل لانا چاہیئے کیونکہ میڈیا کے بہتر نظام سے
میڈیا ملازمین کا مستقبل روشن تابناک ہوسکتا ہے اور پاکستانی میڈیا نہ صرف
پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں امتیازی اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاسکے
گا۔اللہ پاکستان کو ہمیشہ بلند و بالا رکھے اور میڈیا انڈسٹری کے ملازمین
کے مستقبل کا روشن اور نایاب کردے آمین ثما آمین۔۔۔؍؍؍؍؍؍؍؍؍ |