بیٹی ، ایک نہایت معصوم ، قابل ِ
محبت ، قابل ِ احترام رشتہ ہے ۔ ایک ایسا رشتہ جو مرتے دم تک ماں باپ کا
خیال رکھتی ہے، شادی سے پہلے اور شادی کے بعد بھی بیٹیاں حتی ٰ المکان اپنے
ماں باپ کو راضی رکھنے کی کوشش کرتی ہے ۔زندگی کے آغاز سے لے کر انجام تک
یہ ننھی پریاں ماں باپ ، بہن ، بھائیوں کا خیال رکھتی ہے ۔
ہمارے معاشرے کا ایک عجیب المیہ ہے کہ بیٹی کی پیدائش نہ تو کسی کے لیے
خوشی کا سبب بنتی ہے اورنہ ہی اس کو خوش بختی کا باعث سمجھا جاتا ہے ۔ یہاں
تک دیکھا گیا ہے کہ جنب بیٹا پیدا ہو تا ہے تو ماں باپ خوشیاں مناتے ہیں ،
ان کی پیدائش پر میٹھایاں بانٹی جاتی ہیں لیکن جب بیٹی پیدا ہوتی ہے
تولوگوں کے چہرے اداس ہو جاتے ہیں ۔ خوشی منانا تو درکنار اکثر و بیشتر لوگ
بیٹی کی پیدائش پر ایک دوسرے سے افسوس کا اظہار کرتے ہیں ۔بیٹی پیدا ہونے
کی ذمہ داری ماں پر ڈالی جاتی ہے اور ایسی عورتوں کو منحوس خیال کیا جاتا
ہے جن کے ہاں بیٹی پیدا ہو۔عورتوں کو بیٹی کی پیدائش پر لعن طعن کا شکار
ہونا پڑھتا ہے ۔بات یہاں تک محدود نہیں بعض جگہ تو عورتوں کو دھمکیاں دی
جاتی ہیں کہ بیٹی پیدا ہو ئی تو اس صورت میں یا تو ان کا شوہر دوسری شادی
کر لے گا یا پھر انھیں طلاق دے دی جائے گی ۔ایسے موقعوں پر سسرال والے عورت
کا ساتھ دینے کی بجائے اس پر عرصہ حیات تنگ کر دیتے ہیں ۔
معاشرے میں ایک عام خیال یہ ہے کہ بیٹیاں صرف اور صرف ذمہ داری ہیں ۔ جنھیں
پال پوس کے جوان کریں اور پھر ان کی شادیوں کا خرچ اٹھانا پڑتا ہے ، وہ ماں
باپ کا سہارا نہیں بن سکتی ۔ہمارے ملک میں بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں
بیٹیوں کو ان کے شرعی حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے ۔ یہ کہہ کر کہ ان کی
شادی کا خرچ ان کی موروثی جائیداد کے حصہ کے برابر ہے ۔ان کا شرعی حصہ بھی
ضبط کر لیا جاتا ہے ۔ ہمارے معاشرے کے مرد تو مرد عورتیں خود بھی نہیں
چاہتی کہ بیٹی کی ماں بنیں ۔اس کا بنیادی سبب معاشرے میں عورتوں کے ساتھ
ہونے والی نا انصافیاں اور بیٹیوں کی بنیادی حقوق سے محرومیہے ۔قرونِ اولی
ٰ میں بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ۔ زندہ دفن تو آج
بھی کیا جاتا ہے صرف انداز مختلف ہے ۔ پہلے زمین میں دفنایا جاتا تھا اب
رسم و رواج کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے ۔آج بھی ہمارے ملک میں ستی ، ونی
اورقرآن سے شادی جیسی قبیح رسومات رائج ہیں ۔ معصوم بچیوں کو مظالم کا
نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اکثر و بیشتر میڈیا میں ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں
جو روح کو دہلا دینے والی ہوتی ہیں ۔ عالمی حقوق کی تنظیمیں ہوں یا ادارے
ایسی رپورٹس آئے دن پیش کرتے رہتے ہیں جو کہ انتہائی شرمناک ہیں ۔ اسلام نے
بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے ، ان کے ساتھ برا سلوک کرنے سے روکا ۔اسلام نے کسی
بھی عالمی حقوق کی تنظیم سے بڑھ کر عورتوں کے حقوق وضع کیے ہیں ۔ اس کی
مثال حدیث کی کتابوں میں کچھ یوں بیان کی گئی جس کا مفہوم ہے
نبی پاک ﷺ کے ایک صحابی نبی پاک ﷺ کے پاس تشریف لائے اور بتایا کہ جب وہ
اپنی بیٹی کو دفن کر رہے تھے تو ان کی بیٹی ان کی داڑھی سے کھیلتی جاتی تھی
۔جس پر نبی پاک ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تمھیں اس بچی پر پیار یا رحم نہیں آیا
؟ انھوں نے کہا کہ بھوک کے ڈر سے اسے دفن کر دیا ۔نبی پاک ﷺ نے یہ سنا تو
آب دیدہ ہو گئے اور ان سے منہ پھیر لیا -
آج کادور تبدیل ہو چکا ہے ۔ اب بیٹیاں بھی ماں باپ کا اتنا ہی سہارا بن
سکتی ہیں جتنا کہ بیٹے ۔ بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہو کہ بعض معاملات میں
بیٹیاں ، بیٹوں کی نسبت ماں باپ کا زیادہ خیال رکھتی ہیں ۔آج کل تو بیٹیاں
ہر میدان میں بیٹوں سے آگے نظر آتی ہیں ۔ چاہے وہ سیاست ہو ، تعلیم ہو یا
کوئی بھی شعبہ بیٹیاں ، بیٹوں کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہیں ۔ تحریک
پاکستان کو ہی لیلیجئے جب قوم کی بیٹیوں نے مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا
۔تحریک پاکستان میں بیٹیوں کے کردار کے بغیر یہ تحریک کبھی بھی کامیاب نہیں
ہو سکتی تھی۔تحریک پا کستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والی خواتین میں
محترمہ فاطمہ جناح کا کردار قابل ِ ذکر ہے جنہوں نے قائد اعظم کے شانہ
بشانہ کام کیا اور اس تحریک کو کامیاببی سے ہمکنار کرنے میں قائداعظم کی
مدد کی ۔ آج بھی پاکستان کی بیٹیاں کسی سے کم نہیں ۔تعلیم کے میدان میں
ارفع کریم ، ملالہ یوسف زئی جیسی بیٹیوں نے ملک کا نام عالمی سطح پر روشن
کیا ہے جبکہ سیاست میں بھی محترمہ بینظیر بھٹو، نے عالمی سطح پر نام کمایا
۔ یہی نہیں بلکہ ہر شعبہ میں بیٹیاں کسی سے کم نہیں ، اور عالمی سطح پر ملک
کا نام روشن کر رہی ہیں ۔ ہر ایک شعبے میں بیٹیاں ، بیٹوں کے شانہ بشانہ
کام کر رہی ہیں ۔
اسلام میں بیٹیوں کو رحمت جبکہ بیٹوں کو نعمت قرار دیا گیا ہے ۔قرآن ِ پاک
میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
آسمان اور زمین کی بادشاہت اﷲہی کے لیے ہے ۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔
جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے یا جسے چاہتا ہے بیٹیاں اور
بیٹے ملے جلے ( عطا فرماتا ہے ) اور جسے چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے ۔یقینا
وہ چاننے والا ہے ، ہر چیزپر مکمل قدرت رکھنے والا ہے ( سورۃ شوری ٰ 42،
آیت 49-50 )۔الغرض بیٹی اور بیٹا دونوں ہی اﷲ کی دین ہیں اور دونوں ہی کے
حقوق ،ادا کرنا ماں باپ پر لازم ہے ۔
حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا جس شخص نے ان بیٹیوں کے
کسی معاملہ کی ذمہ داری لی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو یہ بیٹیاں اس
کے لیے یہ دوزخ کی آگ سے بچاؤ کا سامان بن جائیں گی ۔(بخاری)
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ نبی پاک ﷺؑ نے فرمایا ۔ جس کی تین بیٹیاں ہوں
وہ ان پر صبر کرے جو کچھ میسر ہو اس میں سے انھیں کھلائے ، پلائے اور
پہنائے قیامت کے دن وہ اس کے لیے جہنم سے رکاوٹ بن جائیں گی ۔ ( سنن ابن
ماجہ 3669 ابواب الادب )
بیٹیاں بلا شبہ اﷲ کی بیت بڑی رحمت ہیں اور جنت حاصل کرنے کا ایک بہترین
ذریعہ ہیں۔ نبی پاک ﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ جب بیٹا پیدا
ہوتا ہے تو وہ اپنے ساتھ ایک نور جبکہ بیٹی اپنے ساتھ دو نور لے کر پیدا
ہوتی ہے ۔جس نے اپنی بیٹیوں سے محبت کی ، انھیں پالنے اور ان کی شادیاں
کروانے میں مشکلات کا سامنا کیا اس نے خود پر جنت ہلال کر لی ۔
شکسپئر نے کہا تھا کہ بیٹیوں کا باپ ایک خاندان کا سربراہ ہوتا ہے جبکہ
بیٹوں کا باپ اپنے لیے غیروں کا ایک ہجوم اکٹھا کرتا ہے ۔
حاصل ِ کلام یہ ہے کہ بیٹیوں اور بیٹوں دونوں کو برابری کی سطح پر رکھا
جائے ۔ دونوں ہی کی تربیت میں خصوصی توجہ دی جائے بلکہ بیٹی کی تربیت میں
زیادہ احتیاط اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس نے اپنی اگلی نسل کو سنوارنا ہے
اور جو تربیت اس کی کی جائے گی اس نے ویسی ہی تربیت بچوں کی کرنی ہے ۔ |