آمد رمضان المبارک اور پاکستان کے تجار
(Prof Akbar Hashmi, Rawalpindi)
ہر کسی کو رمضان المبارک کی آمد
کی خوشی ہوتی ہے مثلا اہل ایمان کہ انہیں اپنے رب کے قرب کا، نعمتوں کے
غنائم کا مہینہ بہت ہی مرغوب ہے۔ کیونکہ وہ تو ہمیشہ اﷲ اور رسول ﷺ کی رضا
کی جستجو میں لگے رہتے ہیں اور اپنے دامن کو معصیت سے بچاتے رہتے ہیں۔سو یہ
ماہ مبارک انکے لیئے تو شروع سے ہی نوازشات ہی نوازشات ہیں۔ دوسرے وہ جو
گنہگار ہیں اور اپنے گناہوں کے بار گراں سے رستگاری کے لیئے اس ماہ مبارک
کی شدت سے انتظار کرتے ہیں کہ اسکے روزے رکھ کر اور راتوں کو عبادت کرکے،
اپنے رب کے حضور آہ و زاری کرکے اس کا قرب حاصل کریں۔ غریب منتظر ہیں کہ
انہیں اﷲ تعالیٰ اس مبارک ماہ میں وہ نعمتیں عطا فرماتا جو انہیں عام دنوں
میں میسر نہ ہیں۔ رب کے دینے کا کوئی مخصوص راستہ نہیں وہ وہاں سے دیتا ہے
جہاں سے انسان کے وہم و گماں میں بھی نہیں ہوتا۔ امیر بھی منتظر ہے کہ ویسے
بھی اﷲ کی راہ میں خرچ کرتا ہے مگر اس ماہ مبارک میں خرچ کرنے کا لطف ہی
اور ہے، ننگوں کو کپڑے پہناتا ہے، غریبوں میں اشیاء خوردنی اور کپڑے، پیسے
تقسیم کرکے سات سو گنا تک اضافہ کا ثواب لیتا ہے۔ اور دنوں میں اتنا صلہ
نہیں ملتا جتنا اس مبارک میں ملتا ہے۔ اور دنوں میں دل میں تنگی بھی آسکتی
ہے مگر اس مبارک ماہ میں تو شکر کرتا ہے کہ کسی ضرورتمند کو راہ خدا میں
دیا۔ بچے خوش ہیں کہ سحری اور افطاری میں بڑوں کے ساتھ طرح کے کھانوں میں
شریک ہوتے ہیں اور روزے رکھنے کی سعادت پر اتنے خوش ہیں کہ پھولے نہیں
سماتے۔ پھر ماں باپ انہیں ہار ڈالتے ہیں کہ ہمارے بچے نے رب کی رضا کے لیئے
اپنے آپ کو صفات رب سے مزین کرنے کی ابتداء کرلی۔ کیاخوب روشن مہینہ ہے۔
ائمہ مساجد خوش ہیں کہ مسجدین نمازیوں سے بھر گئیں، رونقیں کئی گنا بڑھ
گئیں، اہل ثروت مساجد کی ضروریات اور تزئین و آرائش پر دل کھول کر خرچ کر
رہے ہیں،مساجد میں افطاری کا سماں بھی ایمان کو مزید جلابخش رہاہے، آئمہ
اور حفاظ کی مالی خدمت ہورہی ہے، نئے لباس اور تحفے انہیں دیئے جارہے ہیں
تاکہ انکے اہل وعیال بھی دبنگ طریقہ سے عید کی تیاریاں کریں۔حفاظ کرام
رمضان المبارک کی انتظار بڑی شدت سے کرتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے سینے میں
محفوظ کلام الٰہی کے اظہار کا موقع ملتا ہے ۔ ہاں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں
نے اﷲ کا کلام محض پیسوں کے حصول کے لیئے حفظ کیا مگروہ ثواب اخروی سے
محروم ہیں۔ اگر نیت میں ﷲیت اور خلوص رکھیں تو بھی اﷲ انکو دنیاوی مال سے
محروم نہیں رکھتا۔ کئی لوگ تو دعوتیں کرنے کے لیئے اسی ماہ مبارک کی انتظار
میں ہوتے ہیں کہ اپنے پیاروں، دوستوں اور احباب کو دعوت افطار پر بلائیں گے
اور آنکھیں ٹھنڈی کریں گے۔ کئی ایسے ہیں جو اس ماہ مبارک کی انتظار میں ہیں
کہ کلام اﷲ کی تلاوت کرکے اپنے مرحوم والدین اور دیگر اعزا و اقارب کو
ایصال ثواب کریں گے جو اس ماہ مبارک میں مرحومین کے زیادہ رحمت ثابت ہوتا
ہے۔ غرضیکہ اخروی بھلائی کے لیئے بھرپور جتن کیئے جاتے ہیں۔ میں یہاں ان
لوگوں کا ذکر بھی کروں گا کہ جو حرماں نصیب ہیں اور انہیں بڑی شدت سے اس
ماہ مبارک کا انتظار ہے اور اسکی آمد پر بڑے خوش ہیں لیکن آخرت کے لیئے
نہیں دنیا کے لیئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اﷲ تعالیٰ سے دنیا میں سب کچھ
مانگا اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ یہ وہ پاکستان کے تاجر ہیں کہ ان
میں سے اکثر کی ریش مبارک ہیں اور بعض کی تو خاصی طویل ہیں، پیٹ خاصے ابھرے
ہوئے، ماتھے پر آثار سجود خاصے نمایاں ، ٹخنوں پر گٹھیاں ہیں، پائنچے خاصے
اونچے ہیں، حاجی اور الحاج ہیں۔یہ لوگ رمضان المبارک سے چند ماہ قبل ذخیرہ
اندوزی کرتے ہیں، بڑی مارکیٹوں، منڈیوں پر انہیں کا کنٹرول ہے۔
رمضان المبارک کی آمد پر یہ پھولے نہیں سماتے اگرچہ کہ ویسے بھی جامے سے
خاصے باہر ہوتے ہیں۔ آئیں اب دیکھیں کہ شکلیں مومنوں والی اور کرتوت
یہودیوں والے، یہاں میں نے ہندؤوں کا نام نہیں لیا کیونکہ ان کی حکومت
مسلمانوں کو حج پر جانے کے اخراجات میں سبسیڈی دیتی ہے، رمضان المبارک میں
بھی انکا طرز تجارت ظالمانہ نہیں ہوتا۔صلیبیوں کا نام اس لیئے نہیں کہ وہ
بھی اس موقع پر مسلمانوں پر تنگی نہیں کرتے اور اپنی عیدوں پر تو ناقابل
یقین حد تک نفع کم کرتے ہیں تاکہ ہر کس ناکس خرید سکے۔ یہ الحاج برادری کیا
کرتی ہے؟ مسلمان کھجور سے روزہ افطاری کرتے ہیں تو الحاجوں نے کھجوراپنے
گوداموں میں ذخیرہ کررکھی ہے جو اس موقع پر کئی گنا مہنگی کرکے بیچتے ہیں۔
چونکہ فروٹ کی طلب بڑھ جاتی ہے تو وہ بھی کئی گنا مہنگا کردیتے ہیں۔اب ذرا
کپڑے مارکیٹ کا رخ کریں تو وہاں بھی نورانی چہرے والے حاجی صاحبان پاکستان
کے مسلمانوں کو عید پر نئے کپڑوں کی خریداری پر نہائت بے دردی سے ذبح کرتے
ہیں۔ رمضان المبارک میں یہ اتنی عبادت کرتے ہیں کہ بے خوف اور نڈر ہوکر
مسلمانوں سے ناجائز منافع حاصل کرتے ہیں اور خوف خدا تو دور دور تک نظر
نہیں آتا۔ شائد حضرت علامہ نے ان لوگو ں کو بھی اس مصرعے میں شامل کیا ہے
کہ ۔ یہ مسلماں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود، بے تحاشالوٹ مار ، آزادنہ اور
بلا خوف وخطر کئی گنا بڑھا کر دام وصول کرنا ان کا وطیرہ ہے۔ یہ اس لیئے
بھی دلیر ہیں کہ آج تک وطن عزیز میں کوئی ذمہ دار حکمران ہی نہیں آئے کہ وہ
انکا محاسبہ کرتے ۔ اب ذرا حکومت اور حکمرانوں کا بھی کچھ حال قلمبند
کریں۔حکمران طبقہ کے باغات ہیں جہاں سے پھل اور سبزیاں مہنگی فراہم کی جاتی
ہیں، چاول کی ملیں، چینی کی ملیں، آٹا کی ملیں، کپاس اور کپڑے کی ملیں یہ
سبھی کچھ حکمران اور دیگر سیاسیوں کے پاس ہیں (سیای دہشت گرد)۔ جن سے رمضان
المبارک میں عوام کو کئی گنا مہنگی اشیاء فراہم کی جاتی ہیں۔ اسکے بعد نمبر
آتا ہے مارکیٹ کمیٹیوں کا تو وہ سیاسی رشوت کی بنیاد پر قائم ہیں، کہا جاتا
ہے کہ یہ صارفین کے نمائندے ہیں حالانکہ یہ حکومت کے کارندے ہوتے ہیں، انکے
گھروں میں ہر چیز بلا معاوضہ پہنچ جاتی ہے۔ ۔ حکومت نے انسداد گرانفروشی کا
عملہ رکھا ہوا ہے ۔ جو ڈی سی کے ماتحت ہوتا ہے ۔ ایک میجٹریٹ بھی ہوتا
ہے۔وہ بھی اسی معاشرے کی پیداوار ہے اسی کی سرپرستی میں یہ مہنگائی کاسیلاب
، ذخیرہ اندوزی اور اشیاء کی مصنوعی قلت قائم و دائم ہے۔ قومی خزانے پر ایک
اور ڈاکہ عوام کی مددکے نام سے بھی ڈالاجاتا ہے کہ حکومت کی جانب سے سبسیڈی
دی جائے گی، رمضان بازار ہوگا، اتوار بازار ہوگا۔ شہروں کی مضافاتی آبادیوں
کا پھیلاؤ دور دور تک ہوتا ہے اور انہی آبادیوں کے مکین مہنگائی سے متائثر
ہوتے ہیں ۔غریب عوام ان بازار وں سے اگر سامان خریدیں تو گھر لانے کے لیئے
کرایہ اس قدر لگتا ہے کہ محلے کی دکان سے بھی مہنگا پڑتا ہے۔ حکمران دیدہ
دانستہ اپنوں کا پیٹ بھرنے کے لیئے ایسا کرتے ہیں۔ اگر ہماری حکومتیں خدا
ترسی سے کام کریں ، اپنی موت اور قبر کو یاد رکھیں، ہمارے تاجر اپنی نیتیں
درست کریں، ایمانداری سے اور آخرت کو بہتر بنانے کے لیئے تجارت کریں، ہمارے
میجسٹریٹ خوف خداکریں، ہمارے حکمران پورے ملک میں ناجائز منافع خوری کو
بندکریں۔آرمی کے جوانوں پر مشتمل چھاپہ مار دستے ذخیرہ اندوزوں کی گرفت کے
لیئے مقرر کیئے جائیں۔ رمضان المبارک کی ابتداء سے قبل ذخیرہ کیا گیا مال
بازاروں میں آجائے تو عوام خوشحال ہوجائیں گے۔ میں پھر کہوں گا کہ اﷲ کا
خوف کریں اس ماہ مبارک میں مسلمانوں کو نہ لوٹیں ورنہ اﷲ کے عذاب سے کوئی
نہیں بچا سکے گا۔ |
|