اسلام نے کبھی بھی کسی چیز پر
جبر نہیں کیا لیکن دینِ فطرت ہونے کی بدولت یہ معاشرے میں اخلاقی توازن
قائم کرنے میں بھر پور کردار ادا کرتا ہے۔ حجاب پاکیزگی، حیاء اور اخلاقیات
کی علامت ہے اور اس کی مثال دوسرے مذاہب مثلاً عیسائیت میں بھی ملتی ہے۔
امریکہ میں ہزاروں کلیسا ایسے ہیں جن کی نندز سر کو ڈھانپ کر رکھتی ہیں
وہاں تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا۔ بنیادی طور پر حجاب اسلامی طرزِ
زندگی کا حصہ اور مسلمان عورت کی شناخت ہے اور مغرب اس شناخت کو ختم کرنا
چاہتا ہے۔
اسلام فرانس کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔ فرانس کی پارلیمنٹ عنقریب ایک ایسا بل
منظور کرنے پر غور کررہی ہے جس کی رو سے فرانس میں مسلمان عورتوں کے برقع
پہننے پر پابندی متوقع ہے۔ اس بل کی رو سے اگر کوئی مسلمان عورت اس قانون
کی خلاف ورزی کرتی پائی گئی تو اس پر 700 یورو (تقریباً 85 ہزار روپے)
جرمانہ عائد کیا جائے گا اور اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ یہ برقع اپنے شوہر
کے دباؤ کے تحت پہن رہی ہے تو اس کے شوہر پر دگنا جرمانہ یعنی 1400 یورو
عائد کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ برقع پہننے والی خاتون کے اہل خانہ حکومتی
ویلفیئر فنڈز کے بھی حقدار نہیں ہوں گے۔ اگر فرانس میں یہ پابندی عائد کردی
جاتی ہے تو فرانس یورپ کا وہ واحد ملک ہوگا جو وہاں رہنے والے مسلمانوں کے
خلاف اس طرح کی قانون سازی کرے گا۔ واضح ہو کہ اس سے قبل ایسی مثال دنیا کے
کسی اور ملک میں نہیں ملتی۔ فرانس اس سے پہلے مسلمان لڑکیوں کے اسکارف
پہننے پر پابندی عائد کرچکا ہے۔ اپنے آپ کو تہذیب یافتہ اور انسانی حقوق کے
علمبردار کہلوانے والے یہ ممالک انسانی تذلیل پر مبنی قانون بنارہے ہیں۔ اس
سے قبل یورپ کے ایک اور ملک سوئٹزرلینڈ جو اپنے آپ کو جمہوریت پسند اور
ماڈریٹ کہلواتا ہے نے مساجد کے میناروں کی تعمیر پر پابندی عائد کردی ہے
جبکہ امریکہ میں بھی باڈی اسکریننگ کے نام پر مسلمانوں کی تذلیل کی جارہی
ہے۔
اگر فرانس اس طرح کی قانون سازی کرتا ہے تو یہ قانون فرانس تک محدود نہیں
رہے گا بلکہ اس طرح کا خدشہ ہے کہ یورپ کے دوسرے ممالک بھی فرانس کی تقلید
کریں گے۔ دراصل دنیا میں اس وقت صیہونی طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف
زور و شور سے برسر پیکار ہیں۔ فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے گزشتہ برس
پارلیمنٹ سے اپنے خطاب کے دوران ملک میں برقعے پر پابندی کے لئے قانون سازی
کی درخواست کی تھی۔ جس کے بعد فرانس سمیت دنیا بھر میں یہ معاملہ موضوع بحث
بن گیا۔ فرانسیسی حکومت نے اس سلسلے میں ایک خصوصی پارلیمانی کمیشن مقرر
کیا جس میں 32 قانون ساز شامل تھے۔ اس کمیشن نے چھ ماہ تک اس معاملے کے
مختلف پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعداپنی رپورٹ پیش کردی ہے۔ اس رپورٹ
میں اسکولوں، ہسپتالوں، حکومتی دفاتر اور پبلک ٹرانسپورٹ وغیرہ میں چہرے پر
نقاب لگانے پر پابندی کی سفارش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پورے
چہرے پر نقاب لگانا ہماری جمہوریہ کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے اور
ہمیں اس کی مذمت کرنی چاہیے۔ کمیشن نے پارلیمنٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ اس
حوالے سے اسمبلی میں باقاعدہ ایک تحریک منظور کی جائے کہ چہرے کا نقاب
جمہوری اقدار کے منافی ہے اور پورا فرانس اس کی مخالفت کرتا ہے۔ فرانسیسی
صدر نکولا سارکوزی جو چہرے پر نقاب لگانے کو خواتین کی محکومی سے تعبیر
کرتے ہیں اس معاملے پر ایسے ہی جذبات کا اظہار کرچکے ہیں، "فرانس ایک ایسا
ملک ہے جس میں خواتین آزاد ہیں، جہاں ہر فرد کے مذہب اور عقیدے کا احترام
کیا جاتا ہے۔ لیکن فرانس میں برقعے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہاں کسی بھی وجہ
اور حالات میں محکومی کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔"
برقعے پر پابندی کی صورت میں فرانس میں دو ہزار کے قریب خواتین متاثر ہونگی،
انہی میں سے ایک کنزا بھی ہیں جو چار بچوں کی ماں ہیں اور گزشتہ 10 برس سے
نقاب استعمال کررہی ہیں اور اس کا استعمال ترک کرنا نہیں چاہتیں، " خواہ اس
کے خلاف قانون بنے یا نہ بنے، اگر نقاب پر پابندی لگا بھی دی گئی تو میں
پھر بھی نقاب کا استعمال کروں گی۔ اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے یہ میرا
حق ہے۔"اسی طرح 36سالہ کرسٹل کھیتودرش حجاب پہنتی ہے اس کے پانچ بچے ہیں ۔
کرسٹل کھیتودرش کا کہنا ہے کہ وہ ہر صورت حجاب پہنے گی کیونکہ وہ نہیں
چاہتی کہ اس کا چہرہ اس کے شوہر کے علاوہ کوئی اور دیکھے۔
فرانس کی وازارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ حجاب پہننے والی خواتین کی تعداد
انیس سو ہے۔ کیا یہ انیس سو خواتین فرانس کی ثقافت ،اقدار اور شناخت کو ختم
کر دیں گیں؟
مغرب نے مادی ترقی کی معراج کو پالیا ہے مگر یہ ترقی اسے مذہب، انسانیت اور
تہذیب سے دور لے گئی ہے اور یورپی ثقافت اخلاقی پستی کی طرف گامزن ہے۔
دوسروں کے مذاہب کو برا کہنا اور ان کے پیغمبروں کا مذاق اڑانا مغربی ممالک
کا وطیرہ بن چکا ہے۔ مذہب سے دوری مغرب کو بے راہ روی کی طرف لے گئی ہے۔
یورپ کے کچھ ساحلوں پر کپڑے پہن کر جانے کی اجازت نہیں، ان ساحلوں پر صرف
برہنہ لوگ ہی جاسکتے ہیں، اس قانون سازی کے بعد یہ بڑی مضحکہ خیز بات ہوگی
کہ جسم ڈھانپنے کا عمل قانون شکنی کے زمرے میں آتا ہے مگر جسم کو برہنہ
کرنے کے فعل پر کوئی پابندی عائد نہیں۔ انسانی حقوق کے لحاظ سے کوئی بھی
بندہ کوئی بھی لباس پہن سکتا ہے اس لیے اس پر کوئی بھی اعتراض نہیں ہونا
چاہیے۔ اگر فرانس اس پر پابندی لگاتا ہے تو وہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف
ورزی کا مرتکب ہوگا۔
مغرب اپنی تمام تر توانائیوں، قوتوں اور سرمایہ سے اپنی فری سیکس سوسائٹی
میں مسلمان خواتین کو بے راہ روی کا شکار تو نہ کر سکا اور یہی پریشانی اس
کو ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کر رہی ہے جس کی اجازت کسی بھی مذہب میں نہیں۔
حجاب پر پابندی اور عریانیت کا مغرب کا یک نکاتی ایجنڈا بن چکا ہے۔ فرانس
میں جاری حالیہ اس بحث کے بعد اب تو یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ غیر
مسلم قوتیں کسی بھی صورت میں اسلامی تشخص کو برداشت نہیں کرنا چاہتیں اور
اسی اسلامی تشخص کے خاتمے کے لیے وہ حجاب پر پابندی جیسے حربے استعمال کر
رہیں ہیں۔ |