یہ بات نہایت ہی قابل افسوس ہے
کہ ہم نظریاتی طور پر اور خاص کر تہذیب و ثقافت اور ہمہ جہت اسلامی تشخص کے
حامل ہونے کے باوجود غیر اسلامی ایمان کش روایتوں سے متاثر ہوتے ہوئے نظر
آرہے ہیں۔
کہیں ہم مغرب کے طاغوتی سازشوں کا شکار نظر آتے ہیں تو کہیں پڑوسی ملک کے
فلمی رنگینیوں کے گہرے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انڈین فلمی گانے ہمارے
روزمرّہ زندگی کا حصّہ بن چکا ہے ان فحش اور ایمان کش گانوں کے مطالب اور
مفاہیم کو سمجھے بغیر انہی گانوں کا ورد کیے جارہے ہیں۔ ان گانوں میں بہت
سے ایسے ہمارے دل و دماغ میں رچ بس گئے ہیں اور ہمارے گھروں دکانوں، گاڑیوں
اور مارکیٹوں میں گھن گھرج کے ساتھ ہنگامہ برپا کیا ہوا ہے۔
کچھ گانوں کے بول ہمارے ایمان اور بنیادی عقائد کے بالکل منافی ہیں، مثلاً
ایک گانا جس کے بول کچھ یوں ہے۔ میں رب سے چھین لوں گا۔ تجھے اپنا بناؤں گا۔
اگر اس پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ کیا کوئی طاقت ایسی ہے جو رب سے کچھ
چھین سکے؟ ہم مسلمان ہیں اور ہم سب لوگ مزے سے یہ گانے سن رہے ہوتے ہیں۔
کیا اس سے ہمارے ایمان میں فرق نہیں پڑے گا۔ ایک اور گانا کچھ یوں ہے۔ رنگ
تیرا دیکھ کے روپ تیرا دیکھ کے قدرت بھی حیران ہے۔ نعوذبااللہ من ذالک۔ اب
سوچئے کہ ہمیں ان گانوں کا ورد کرتے ہوئے کبھی احساس یہ ہوتا ہے کہ بحیشیت
مسلمان ہماری زبان کس چیز کا ورد کررہی ہے۔
ہمارے نوجوان نسل جن کی زبانوں پر آجکل کچھ اسطرح کے کلمات ہیں اور بڑے موج
مستی کے ساتھ اپنے آپ میں فلمی ہیرو بنے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کلمات کچھ یوں
ہیں۔ تجھ میں رب دکھتا ہے یارا میں کیا کروں۔ یارا آپ نے کرنا کیا ہے جو
کرنا تھا وہ تو کرچکے اب توفیق ہوا تو جلدی سے توبہ کرلیں ورنہ گئے کام سے۔۔
ایک اور گانا ہے جس کے آخر میں سبحان اللہ کی گردان ہے۔۔اسی طرح ایک اور
بھارتی شرانگیزی ہے جو ہماری نئی نسل کی زبان زد عام ہے۔ جس کے آخر میں یا
علی مدد والی جیسے موسیقی کے بول ہیں۔ ایسی مثالیں بہت ہیں ان کے لکھنے کا
مقصد صرف یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ ہمیں شرم و حیا آئے اور اپنے دین اور ایمان
کا سودا نہ کرے۔
اسلامی روح کو داغدار کرنا ان اسلام دشمنوں کا اصل مقصد ہے جسے فلمی اور
موسیقی کے سازو سوز میں ڈھال کر کچھ اسطرح خوبصورت اور مسحور کن بنا کر پیش
کرتے ہیں کہ ان بے ہودہ اور شرکیہ کلمات پر ہمارا انگ انگ ناچ رہا ہوتا ہے۔
چاہیئے تو یہ تھا کہ ان فلموں اور گانوں پر پابندی لگاتے اور سرکاری سطح پر
احتجاج کرتے مگر ایسا درکنار ہم تو ان کے ساتھ اسی فحش اور بے ہودہ فلموں
کے زریعے امن کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ہمیں یہ معلوم نہیں ہورہا
کہ یہ ہمارے ایمانی روح اور ضمیر کو زنگ آلود کر کے جذبہ ایمانی کو چیلنج
کر رہے ہیں۔
نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ان فحش فلموں اور گانوں سے ہمارے گھریلو خواتین
اور بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو کیا سبق دینا چاہتے ہیں؟ یہی
کہ ہمارا کلچر یہ ہے یہی کہ ہمارے بچے انڈین تہذیب اور ثقافت کو اپنائے۔
ہمیں ہوش کا ناخن لینا ہوگا۔ میں نے بہت سے ایسے بچے دیکھے ہیں جنہیں
اسلامک کلچر اور ٹریڈیشن کا کوئی پتا نہیں ہے یہ کلمہ اور بنیادی عقائد سے
نابلد ہیں لیکن بدھ ازم کے مذہبی ترانے اور شادی بیاہ کے گیت زبان زد عام
ہے
ہمیں سوچنا ہوگا کہ جس نظریاتی اساس کو لے کر ہم نے الگ وطن کا مطالبہ کیا
تھا اور بالآخر ہم برصغیر کے مسلم رہنماؤں کے انتھک محنت کے بعد الگ وطن
حاصل کر پائے تھے ۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ہم صرف ایک زمین کے ٹکڑے کے
لئے پاکستان کا مطالبہ نہیں کررہے ہیں بلکہ ہمیں ایک ایسا الگ وطن چاہیے
جہاں ہم آزادانہ طور پر اپنی تہذیب و تمدن کے ساتھ اپنے دین پر عمل پیرا رہ
سکیں۔ کیا ہم نے وہ مقصد حاصل کرلیا؟۔ اگر ہاں تو پھر ہمیں اپنے بچوں کو
اپنی تہذیب و ثقافت سے روشناس کرانا ہوگا۔ ہماری تہذیب دنیا کی سب سے اعلیٰ
اور ارفع تہذیب ہے یہ خدا کی دین ہے اور ہمیں اسی پر فخر ہونا چاہیے۔ ہمیں
جاگنا ہوگا اس سے پہلے کہ دشمن کا تلوار ہمارے روح میں پیوست ہوجائے۔۔۔ |