کسی مسلمان کے پاس اللہ کی کوئی
نعمت دیکھ کر یہ تمنا کرنا کہ نعمت اس سے چھن کر مجھے مل جائے، حسد کہلاتا
ہے۔ اور آج کے دور میں یہ بہت سے لوگ نا چاہتے ہوئے بھی اس میں مبتلا ہو
چکے ہیں۔ اور بہت سے افراد اپنی اس عادت سے بھی بے خبر ہوتے ہیں قاوقتیکہ
ان کو اس بارے میں آگاہ نہ کیا جائے۔
آپ میں سے اکثر لوگوں کے لئے یہ شاید ایک نئی بات ہو کہ روئے زمین پر سب سے
پہلا ظاہری گناہ یعنی قتل، اسی حسد کی وجہ سے ہوا تھا۔ جب قابیل نے اپنے
اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر ڈالا تھا۔ یہ پورا واقعہ قرآن کی سورہ مائدہ
میں تفصل کے ساتھ موجود ہے۔
ایک احادیت مبارکہ ہے کہ
“ کسی سے حسد نہ کرو اور نہ ہی کسی سے بعض و کینہ رکھو۔ اے اللہ کے بندو!
بھائوں کی طرح بن جاؤ“
جب کہ قرآن میں سورہ نسا میں بھی اس حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ
“اور اس کی آرزو نہ کرو، جس کے سبب اللہ نے تم میں سے ایک دوسرے پر بڑائی
دی“
حسد انسان کے ساتھ ہی پیدا نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ مختلف قسم کے حالات و
واقعات کے انسانی زندگی پر اثرات کے ردعمل کے طور پر انسانی شخصیت کا حصہ
بن جاتا ہے۔ اور جب تک ہم حسد پیدا ہونے کے اسباب ختم نہیں کرتے اس وقت تک
اس سے نجات حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔
حسد میں مبتلا ہونے کی بڑی وجہ دین سے دوری ہے۔ ہم لوگ زیادہ سے زیادہ مادی
فوائد کے حصول میں لگے ہوئے ہیں اور دین پر وقت یا اس پر عمل کرنے کے لئے
تیار نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم بہت سے روحانی اور اخلاقی بیماریوں میں
مبتلا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ ہمیں اسلام پر عمل کرنے اور اس کی تعلیمات
کو سمجھنے کی توفیق دے(آمین) |