جدت پسندی و قدامت پسندی دو
متضاد ترجیحات ہیں جن کے اپنے اپنے تقاضے اور اپنا اپنا دائرہ اثر ہے جدت
پسندی ہو یا قدامت پسندی دونوں کی اپنی اپنی جگہ خاص اہمیت اور مقام ہے
سوچنے کی بات یہ ہے کہ قدامت اور جدت کیونکر ایک دوسرے سے متضاد ہیں کیا
جدید دور میں قدامت پسندی کی کوئی گنجائش ہے یا نہیں اور یہ کہ جدت میں
قدامت کی کوئی اہمیت و حیثیت ہے یا نہیں، جدت و قدامت میں سے کونسی ترجیح
بہتر ہے کون سی کم تر ہے یا یہ کہ جدت و قدامت میں سے کونسی صورت انسان کے
مفاد میں ہے اور کونسی نقصان میں ان سوالوں پر روشنی ڈالنے سے بیشتر یہ
سمجھنا ضروری ہے کہ یہ جدت و قدامت کیا ہے
قدامت و جدت کے لفظی معنی سے یوں تو نئے اور پرانے کا تصور آتا ہے پرانا یا
کہنہ وہ جو گزر چکا ہے اور نیا یا جدید جو جاری ہے موجود ہے جو آج نیا ہے
وہ کل پرانا ہو جاتا ہے جسے انسان آج نیا یا جدید یا اچھوتا انداز سمجھ لیں
یا خیال کہہ لیں اپنا کر یا اختیار کر کے جدت پسندوں کی فہرست میں شامل ہو
جاتے یہ ضروری نہیں کہ ہر نئی چیز ہی قابل ستائش ہوتی ہے لہٰذا اسے اختیار
کر لینا چاہئیے یا یہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ پرانی چیز اپنی قدر و افادیت
کھو بیٹھتی ہے تو اسے رتک کر دینا چاہئیے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کچھ پرانی
یا کہنہ روایات بھی اس قابل ہوتی ہیں کہ جن کی ضرورت و اہمیت دور جدید میں
بھی اسی قدر رہتی ہے جس قدر کے اپنے دور یا دور قدیم میں ہوا کرتی تھی اسی
اعتبار سے بیشتر افراد روایات کہنہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے آج بھی ان پر
قائم ہیں اور چاہتے ہیں کہ جدید دور میں بھی ان روایات پر جدت پسند بھی
قدامت پسندی پر قائم رہیں کہ بعض کہنہ روایات اس قابل ہوتی ہیں کہ جن کے
بارے میں ‘اولڈ از گولڈ‘ والی مثال صادق آتی ہے
یہ درست ہے کہ قدیم روایات سے جڑا انسان بھی زندگی کے جدید تقاضوں سے کسی
نہ کسی حد تک ضرور متاثر ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی چاہتا ہے کہ
جدت پسندی سے متاثر افراد کہیں جدت پسندی کی رو میں بہہ کر قدیم روایات کو
بالکل ہی ترک نہ کر دیں خاص طور پر زندگی بسر کرنے کے وہ قدیم اصول جو کسی
فرد کی معاشرتی و مذہبی زندگی میں خاص اہمیت رکھتی ہیں جنہیں اپنا کر کوئی
بھی فرد مذہبی و معاشرتی زندگی بہتر طور پر بسر کرنے کے قابل بنتا ہے اور
ایسی کہنہ روایات جو کسی قوم کا فخر بھی ہیں اور پہچان بھی ہے اور جنہیں
قائم رکھنا معاشرہ اور افراد معاشرہ دونوں کے حق میں ہمیشہ سود مند رہتا ہے
ان پر قائم رہنا قدامت پسندی نہیں بلکہ دانش مندی ہے
جدت پسندی بھی اچھی چیز ہے اگر واقعتاً اچھی ہے وہ اس طرح کے جدید دور میں
ہماری قدیم روایات میں جدید دور کے نئے نئے تقاضوں اور رجحانات کے ساتھ بہت
سی تبدیلیاں آرہی ہیں جن میں سے کچھ تو ہماری قدیم روایات کے مطابق ہیں اور
بعض قدیم روایات سے متصادم چونکہ ہم مسلمان اسلامی معاشرے سے وابستہ ہیں تو
ہمارے لئے یہ دیکھنا ضروری ہے دیکھنا یہ ہے کہ آیا جدید روایات ہماری
اسلامی روایات کے مطابق ہیں یا نہیں اگر ہماری اسلامی روایات کے مطابق ہیں
تو انہیں اپنانے یا اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہاں اگر یہ جدید روایات
اسلامی تعلیمات یا اسلامی روایات سے متصادم ہیں تو پھر انہیں اپنانا یا ان
کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا درست نہیں
جدید دور کی بعض روایات ایسی ہیں جن میں چند لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انسان کے
لئے فائدہ ہے اور وہ چند لمحوں کی مصنوعی اور عارضی خوشی کو انسان کے لئے
فائدہ گردانتے ہوئے ان کے فروغ کے لئے کوشاں ہو جاتے ہیں بعض اوقات محض
ایسے ذاتی فائدے کی خاطر جس کے باعث معاشرے کے زیادہ افراد کا نقصان ہوتا
ہے چند عناصر خود سے ہی دلائل گھڑ کر اشتہار بازی کے ذریعے جدت پسندی کا
نام دے کر غلط قسم کی روایت کو پروان چڑھاتے ہیں جن اسلامی معاشرے میں کوئی
کام نہیں بلکہ خسارہ ہے نقصان ہے اور گناہ ہے
یہ مان بھی لیا جائے کے بعض دیدی روایات کو اپنانا یا جدید تقاضوں کو قبول
کرنے میں انسانوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں لیکن اگر نقصان کا تناسب فائدے
سے زیادہ ہے تو پھر اس روش کو ترک کرنے میں ہی عافیت ہے کہ اللہ کے پاک
کلام قرآن مجید میں شراب نوشی کے ضمن میں ابتدائی احکامات میں یہ ارشاد ہوا
ہے کہ اگرچہ اس میں انسانوں کے لئے کچھ فائدہ ہے لیکن نقصان زیادہ ہے لہٰذا
ایسے کام کی اسلام میں ممانعت کی گئی ہے جس میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ
ہے اور یہ حکم صرف شراب نوشی کے لئے ہی نہیں بلکہ ہر اس چیز بات یا روایت
کے زمرے میں آتا ہے جس میں انسانوں کے لئے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے
یہ درست ہے کہ انسان کو بدلتے وقت کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ اپنے آپ میں جدید
دور کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیوں کو قبول کرنا چاہئیے لیکن یہ نہیں کہ بغیر
سوچے سمجھے ہر جدید روایت کو سود و زیاں کا تخمینہ اور مثبت و منفی اثرات
کا اندازہ کئے بغیر اپنا لینا درست نہیں اور نہ ہی اعلٰی قدیم روایات سے
جڑے رہنے والے افراد کی تعلیمات کو قدامت پسندی جہالت یا تنگ نظری کہہ کر
رد کردینا اور جدید دور کی ان روایات کو پروان چڑھانا جن کا اسلام میں کوئی
حکم و اہمیت ہے اور نہ ہی گنجائش اور وہ لوگ جو ان بیہودہ غیر اسلامی جدید
روایات مثلاً ‘پتنگ بازی‘ ، ‘آتش بازی‘، ‘ویلنٹائن ڈے‘ اور اسی قسم کے دیگر
تہوار یا رسم و رواج کی تردید کرنے والوں کو قدامت پسندی و تنگ نظری کا
طعنہ دیتے ہوئے خود کو روشن خیال ظاہر کرنا درست نہیں بلکہ جو لوگ ایسی
جدید روایات کی تردید کرتے ہیں وہ تو ایسا نہ کریں کہ یہ اسلامی روایات سے
متصادم ہیں اور ان کی ترویج و اشاعت ایک اسلامی معاشرے میں مناسب نہیں جی
ہاں درست سمجھا آپ نے کہ بسنت اور ویلنٹائن جیسی خود ساختہ روایات اور
تہواروں کو منانا کسی اسلامی معاشرے کو زیب نہیں دیتا اور جو لوگ ان روایت
کی تردید کرتے ہیں کہ وہ تو ‘امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘ پر عمل کرتے
ہوئے معاشرے سے غیر اسلامی رویات کا انخلاء چاہتے ہوئے اپنی قوت کے مطابق
جہاد کرتے ہیں لیکن انہیں قدامت پسند کہہ کر ان کے بیانات کی تردید کرتے
رہنا اور مسلسل ایسے تہواروں کو ڈھٹائی کے ساتھ جوش و خروش سے منانا بلکہ
ہفتہ وہلنٹائن ڈے منانا ، اپنی زندگی میں خوشیوں کی محرومی کا گلہ کرتے
ہوئے بسنت جیسے تہوار کو منانے کی تائید و حمایت کرنا اور اسے بھرپور طریقے
سے منانے کے لئے چند لوگوں کی رائےجو حقائق سے زیادہ اپنی تفریح کو عزیز
رکھتے ہیں کیا خود کو مسلمان کہنے والوں کے لئے مناسب ہے
اس ضمن میں بعض پاکستانی ٹی وی چینلز سے اختلاف بھی ہے اور شکایت بھی کہ وہ
چند لوگوں سے کچھ روپوں کے عوض ‘اون ائیر‘ چہروں پر مظلوم تاثر دے کر بسنت
اور اس سے مشابہ دیگر غیر اسلامی روایات کو منانے کی دلیل دیتے ہوئے بڑی
مظلومیت سے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ تو پہلے ہی دہشت گردی
اور دیگر آفات و مصائب سے پریشان ہیں ان پریشانیوں کو بھلانے کے لئے چند
لمحوں کی خوشی بھی نہ منائیں کچھ شوقین مزاجوں نے بسند پر پابندی پر بہت
واویلا کیا ہے اور اس کی تردید کی ہے بلکہ بسنت منانا بذات خود قابل مذمت
فعل ہے اس میں نقصان ہی نقصان ہے وقت، پیسوں اور جانوں کا
کیا ان لوگوں کو یہ دکھائی نہیں دیتا یا بے حس ہو چکے ہیں خود غرض ہو چکے
ہیں صرف ہماری تفریح ہوتی رہے باقی جن کی جانیں ضائع جاتی ہیں وہ انسان
نہیں کے آپ کی ایک دن کی خوشی سے کے عوض کتنے گھروں کے چراغ ہمیشہ کے لئے
گل ہو جاتے ہیں
جہاں تک سچی اور مسقل خوشی کا تعلق ہے تو اگر آپ اپنے نبی کی سنت پر عمل کر
کے ہی حاصل کر سکتے ہیں یوں تو ہر ایک شخص نبی کریم سیدنا محمد مصطفٰے صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقیدت و محبت کا زبانی کلامی اظہار کرتا دکھائی
دیتا ہے تو کیا اس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ ہم اسلامی معاشرے میں ایسی رسموں
کو فروغ دیں جن میں ہمارے مسلمان بھائیوں کا آپ کا اپنا بلکہ اجتماعی سطح
پر ہمارے ملک و قوم کا نقصان ہے
اس قسم کے غیر اسلامی تہواروں یا روایات کو اشتہار بازی کے ذریعے فروغ دینے
والے ٹی وی چینلز یا افراد ایسے غیر اسلامی عناصر کے ‘ایجنٹ‘ معلوم ہوتے
ہیں جو مسلمانوں کو اپنی ثقافت میں ضم کر کے مسلمانوں کی پہچان ختم کر دینے
کے مذموم عزائم رکھتے ہیں
لیکن وہ کبھی اس سازش میں کامیاب نہیں ہوں گے کہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ
اسلام ہی سچا دین ہے جو ہمیشہ غالب رہے گا کوئی کتنی ہی کوشش کر لے اسلام
یا مسلمانوں پر غلبہ پانے کی کبھی کامیاب نہ ہو سکے گا
تاریخ شاہد ہے کہ قوت ایمانی کی بدولت مسلمانوں نے تعداد میں قلیل ہونے کے
باوجود کثیر افواج پر غلبہ پایا ہے یاد رکھیں کہ اسلام فوج تلوار یا جبر کے
زور پر نہیں بلکہ مسلمانوں کے حسن اخلاق کی بدولت پہلے بھی دنیا کے گوشے
گوشے تک پھیلا ہے اولیاء کرام اور مبلغین اسلام کی ذاتی و صفاتی خوبیوں اور
حسن اخلاق سے بیشتر بت پرست اور غیر مذاہب کے لوگ جووق در جوق حلقہ اسلام
میں داخل ہوتے رہے ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے آج بھی عالم دین
اپنے حسن اخلاق سے اور اپنی عملی تعلیمات سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں
شمولیت کی سعادت سے مستفیض ہو رہے ہیں
جدید دور کے مبلغین اسلام میں ایک نام ‘محترم جناب ذاکر نائیک صاحب‘ کا نام
قابل ذکر اور معروف ہے جدت و قدامت میں اعتدال رکھنا قدیم روایات کو جدید
دور کے تقاضوں کے مطابق فرغ دینا جدیدت کے ساتھ ساتھ اپنی مستحکم روایات کو
خود بھی اپنائے رکھنا اور دوسروں کو بھی ان سے مسرفید رہنے کی راہ دکھانا
اللہ تعالیٰ ہمیں اعتدال و میانہ روی کی توفیق عنایت فرمائے ہمیں قدیم و
جدید روایت میں سے ان پر قائم رہنے کی توفیق و صلاحیت عطا فرمائے جو عین
اسلام کے مطابق ہیں تاکہ ہم شیطان کے شر سے محفوظ رہیں (آمین) |