دنیا کے نقشہ پر جب ہم
دیکھتے ہیں تو ہمیں وہی اقوام جو کہ آج کے زمانہ کی کامیاب اقوام ہیں اور
جو اقوام تاریخ میں کامیاب رہی ہیں ان دونوں میں کامیابی اور عروج کی ایک
وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے اپنے اندر نا اتفاقی کو داخل نہیں ہونے دیاْ
اگر کسی قوم کے اندر علماء اور دانشور بھی ہوں اس کے پاس طاقتور فوج بھی ہو
اور اس کے پاس بہادر جرنیل بھی ہوں غرض ہر ایک بہترین چیز ان کے پاس ہو اور
ان کے پاس اتفاق نا ہو تو وہ قوم دنیا میں کامیابی نہیں حاصل کرسکتی مگر
ایک قوم جس کے پاس توکچھ نہ ہو مگر اس کے پاس اتفاق کی طاقت ہو تو وہ قوم
ترقی کی منازل طے کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے ۔
پاکستان کو بنے ہوئے تو 70 سال ہوچکے ہیں مگر آج بھی ہم ایک ملک میں رہنے
کے باوجود ایک قوم کی صورت میں سامنے نہیں آسکے ہیں۔ اور ہم آپس کے
اختلافات اور تعصبات اور مذہب پرستی اور قومیت کے جال میں اس طرح پھنس چکے
ہیں کے ہم میں سے حب الوطنی ، انسانیت، اخلاقی اقدار کا خاتمہ ہو چکا ہے
ہماری سوچیں محض علاقائی،مذہبی یا نسلی بن کر رہ گئی ہیں ہر طرف نا اتفاقی
کا دور دورہ ہے کہتے ہیں کہ ایک کسان نے مرتے وقت اپنے تمام بچوں کو بلایا
اور کچھ لکڑیوں کا ایک گٹھہ دیا تا کہ وہ باری باری اس کو توڑیں سب نے باری
باری بھرپور زور لگایا مگر ان جوانوں میں سے ایک سے بھی وہ لکڑیوں کا گٹھہ
نہیں ٹوٹا تو اس نے اس گٹھے کو کھولا اور اپنے بچوں کو کہا کہ اب ایک ایک
لکڑی کو پکڑو اور اسے توڑو تمام کے تمام نے اپنے اپنے ہاتھ میں موجود لکڑی
کو آسانی سے توڑ دیا ۔
کسان نے اپنے بچوں کوکہا کہ اگر تو اس لکڑی کے گٹھے کی طرح مل کر رہوں گے
تو تمارا کوئی بھی کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا ایک ایک ایک لکڑی کی طرح
انتشار کا شکار رہوں گے تو ہر کائی تمہیں توڑ دے گا ۔
اگر ہم پاکستانیوں نے بھی اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناکر ایک ایک لکڑی
کی طرح زندگی گزارنے کا سوچا تو آسانی سے ہم ٹوٹ سکتے ہیں لیکن اگر ہم لوگ
ایک جتھا بن کر رہے تو جو بھی اس جتھے کوتوڑنے کی کوشش کرے گا وہ اس جتھا
کو کچھ نہیں کر سکے گا ہاں جتھا توڑتے ہوئے اپنا گھٹنہ ضرور توڑوالے گا ۔
سچ ہے کہ اتفاق میں بہت طاقت ہے اور انتشار انسان کی کمزروی بن جاتا ہے
۔ہمارا پاکستانی معاشرہ آجکل مختلف قسم کے انتشار کا شکار ہے کبھی ہم کو
جاگ پنجابی جاگ کبھی سندھو دیس کبھی پختونستان کبھی عظیم بلوچستان کبھی
بلاورستان زندہ باد کے نعرے لگا کر صوبائیت کی صورت میں تقسیم کردیا جاتا
ہے اورکبھی مہاجر ،پختون،بلوچ ، وغیرہ کا نام لے کر تقسیم کردیا جاتا ہے ۔
کبھی ہمیں مذہب کے ٹھیکے داروں کی طرف سے، مسلمان، ہندو ،عیسائی ،سکھ کہ کر
تقسیم کردیا جاتا ہے اور یہ تقسیم مذہب کی حد تک نہیں ہوتی ہے بلکہ مسالک
کی بنیاد پر بھی ہوتی ہے سنی،شیعہ سے بھی یہ تقسیم چھوٹے چھوٹے مکتبہ فکر
تک جا پہنچتی ہے اور صرف یہ تقسیم زبانی نہیں ہوتی ہے بلکہ عملی بھی ہوتی
ہے اور بعض اوقات خونی بھی بن جاتی ہے ۔
اگر ہم غور کریں تو ہمارے گھر میں پیدا ہونے والا ایک ایک بچہ جس کو تو اس
بات کا بھی علم نہیں ہوتا ہے کہ اپنی صفائی کس طرح کرنی ہے وہ دنیا میں آتے
ہی۔ ہاں خاندان،قوم،صوبہ،مذہب، مسلک، مکتبہ فکر میں م ضرور منقسم ہوتا ہے
اور یہی تقسیم کا زہر اس کے جسم اس کے دماغ میں علماء کی تقاریروں اور قوم
پرستوں کے خطابات کی صورت میں اس زہر کوجسم میں لگاتار داخل کیا جاتا ہے جس
کی وجہ سے وہ اسی زہر میں ساری زندگی گزار دیتا ہے ۔ جب ہمارا معاشرہ ایسے
ہی انتشار کا شکار ہوگا تو کوئی بھی خوارج کا گروہ خواہ طالبان ہوں یا
داعش،خواہ کوئی ملک، روس، امریکہ یابھارت کوئی ایجنسی موساد ہو یا ’’ را‘‘
وہ ہمیں آسانی سے توڑ سکتی ہے ۔ اگر ہم اپنی تاریخ پر غور کریں تو یہ حقیقت
ہمارے سامنے آئے گی کہ جب انگریز نے برصغیر پر حکومت کی تو انگریزوں کی
تعداد کروڑوں میں نہیں تھی انہوں نے حکومت کسی طرح کی ان کا اصول تھاivide
and Rule D یعنی ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘
اگر آج ہم پاکستان کی طرف دیکھیں تو یہ افسوس ناک صورتحال ہمارے سامنے آئے
گی کہ ہم میں تقسیم تو خوب ہو چکی ہے اور اسی تقسیم کی وجہ سے ہم آج بھی
غلاموں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جب تک ہم اپنے اندر سے تقسیم کو
ختم نہیں کریں گے ہمارے حالات ایسے ہی رہیں گے ۔
کیا کبھی یہ ممکن ہے کہ ہماری سوچیں ملکی ہو سکیں ہم ایک ہی محلہ میں مختلف
قوموں کے مسالک کے مذاہب کے لوگ محبت و پیار کے ساتھ رہ سکتے ہیں؟ اگر ہم
نے اپنے اس انتشار کے ماحول کو نہ بدلا تو ہم ایسے ہی ۔ کئی ملالہ یوسف
زئی، کئی ڈاکٹر عبد السلام کئی صبین محمود ،کئی ڈاکٹر شکیل اوج ہمارے لگائی
ہوئی انتشار کی آگ کے نظر ہوتے رہیں گے۔
اگر ہم لوگ اکھٹے ہو کر اپنے اندر سے قوم ۔ مذہب ، مسلک، کی تقسیم کو بھلا
کر پاکستان بنا سکتے ہیں تو ہم سب اکٹھے ہو کر پاکستان بچا بھی سکتے ہیں۔
متحد ہو تو بدل ڈالو نظامِ گلشن
منتشر ہو تو مرو چلاتے کیوں ہو ۔ |