کوئی جماعت اور کوئی فرقہ
ہو جب تک اس کے افراد کسی نہ کسی نظریہ اور اصول پر یقین نہ رکھتے ہوں اس
وقت تک نہ ان کی صفوں میں اتحاد قائم ہو سکتا ہے اور نہ ان کے عمل میں
ولولہ آسکتا ہے اور نہ منز ل انکے قدم چوم سکتی ہے ۔وہ نظریہ عقلی وجدانی
یا روحانی ہو سکتا ہے اور جب وہ نظریہ اعتقاد بن کر قلب و نظر میں سما جائے
تو انسان ناممکن کو ممکن بنا سکتااور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بھی
مسکراتاہے اور یقین کی یہ دولت جتنی پختہ ہوتی جائے گی وہ قوم اور وہ جماعت
اتنی ہی سر بلند ہوتی چلی جائے گی ۔ہم مسلمان ہیں اور ہمارا بنیادی عقیدہ
یہ ہے کہ عبادت اور سروری کے لائق صرف اﷲ کی ذات ہے اور محمد صلی اﷲ علیہ
وسلم کو بھیجا اور قرآن پاک کی صورت میں ہدایت و بصیرت کا ایک نسخہ بھی عطا
فرمایا ۔گویا دین اسلام کی اساس اور بنیاد اﷲ تعالیٰ کی وہ بلند و برتر ذات
ہے جو حضوراور قرآن کو ا تارنے والی ہے اسی ذات واحد پر اعتقاد کی عمارت جب
لڑ کھڑاتی ہے تو اﷲ کی ہدایت آتی ہے چنانچہ ہر نبی نے سب سے پہلے توحید ہی
کی ڈگمگاتی عمارت کو سہارا دینے کی کوشش کی۔
توحید کا یہی وہ نظریہ ہے جس سے یقین ،اعتقاد کے سانچے میں ڈھل کر ایمان ہو
جاتاہے ۔ہماری توحید رسالت کے تصور ے مربوط ہے ۔وہ قومیں جو مسلمان نہیں
مگر ایک خدا پر یقین رکھتی تھیں وہ تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ اتحاد و
ارتقاء کی علامت بن کر ابھریں گویا یہ عقیدہ اپنے اندر ایک ایسی تاثیر
رکھتاہے جو عمل کی اولین بنیاد ہے ایسی بنیاد پر فکر ونظر ،علم و اخلاق اور
تہذیب و تمدن کی عمارتیں استور ہوتی ہیں۔
مومن کا یقین اس لیئے فولادی ہوتاہے کہ وہ خدا کو مانتاہے وہ خداُسے نظر
نہیں آتا جو شے نظر نہ آئے غائب ہو ،اس کے خوف ،اس کی محبت ،اس کی عظمت اور
اس کی حیثیت میں کمی بھی نہیں آیا کرتی بلکہ جوں جوں تلاش صادق ہوتی چلی
جاتی ہے منزل کی کشش میں اُسی قدر اضافہ ہوتا چلا جاتاہے اسی لیئے فرمان
اقدس ہے کہ ایمان خوف اور اُمید کے درمیان قائم رہتاہے گویا ہم بن دیکھے اﷲ
تعالیٰ سے ڈرتے بھی رہیں اور اس کی رحمت طلب بھی کرتے رہیں بے سہار ا ور
گمراہ بھی نہ ہوں اور زندگی کے کسی لمحے نااُمید بھی نہ ہوں اور یہ بھی ایک
حقیقت ہے کہ جو ہستی ہر وقت نظر کے سامنے ہووہ سو یریابدیر اپنی حیثیت کھو
دیا کرتی ہے یہ غیب پر ایمان کا کرشمہ ہے کہ مومن کبھی مایوس اور نا امید
نہیں ہوتا ۔اسی یقین محکم کا نتیجہ ہے کہ مسلمان اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی سے
خوف نہیں کھاتا وہ کسی اور دروازے پر نہیں جھکتااس کا ہاتھ کسی اور کے آگے
نہیں پھیلتا ۔وہ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ ہر قوت کو حقارت سے ٹھکرا دیتاہے ۔
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمران ہے اک وہی باقی بتانِ آزری
چونکہ مسلمان ایک اﷲ ہی کی سروری حاکمیت پر یقین رکھتاہے اس لیئے وہ کبھی
غلام نہیں ہوتا ۔اگر کوئی طاقت اسے غلام بنا بھی لے تو غلامی کے سائے زیادہ
دیر تک اس پر مسلط نہیں رہ سکتے ۔یہ یقین محکم اور ایمان صالح کا پہلا فیض
ہے جو مسلمان کو عطا ہوتاہے ۔اﷲ تعالیٰ پر قلبی یقین کا حاصل یہ بھی ہے کہ
مسلمان ہر وقت مصروف عمل رہتا ہے چونکہ وہ جانتاہے کہ وہ خود اپنے عمل کا
جواب دہ ہے اور نتیجہ اسی عمل پر مرتب ہو گا ۔اگر کوئی سچے ارادے کو دل میں
لے کرمحنت کرے گا تو اﷲ تعالیٰ کی رضا اس کی کوشش کے ساتھ شامل ہو گی اورہر
مقبول انسانی کوشش ،تقدیر بنتی چلی جائے گی اسی کو کہتے ہیں کہ انسان اپنی
تقدیر خود بناتاہے اور اسی کی رضا مشیت الہی کے سانچے میں ڈھل کر مقدر بن
جاتی ہے ۔
ایمان و یقین کا تعلق قلب و روح سے ہے دل میں جب ایمان کی حرارت ہو تو
انسان ہر مخالف قوت سے مردانہ وار ٹکراتاہے وہ شہادت کی دعا کرتا ہے اور
شہادت کی نعمت نہ پانے پر افسوس کرتاہے ۔وہ ایک بلند مقصد کے لیئے تن من
اور دھن کو ایک ادنیٰ نذرانے کے طور پر پیش کرتا ہے ۔
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت تک مسلمان کا ایمان
مکمل نہیں ہوتا جب تک حضور کی ذات اسے جان و مال اور اولاد سے زیادہ عزیز
نہیں ہو جاتی اور پھر محبوب حقیقی کو پانے کے لیئے کسی دینوی متاع کو عزیز
رکھا جا سکتاہے ۔مقصد جتنا بلند ہوتا ہے اس کے لیئے قربانیاں بھی گرانقدر
دی جاتی ہیں قربانی اور ایثار کے لیئے قلبی آمادگی کی ضرورت ہے اور یقین
محکم سے دل حرارت اور تپش لیتے ہیں اور قربانیوں کے لیئے ہر لحظہ آمادہ بھی
رہتے ہیں ۔
اسی ایمان کامل اور یقین محکم کا کرشمہ تھا کہ مسلمان جب عرب کے صحرا سے
اُٹھے تو گو ان کا دامن مادی وسائل سے بالکل خالی تھا مگر تاریخ نے دیکھا
کہ وقت کی بڑی بڑی سلطنتیں ان کے قدموں میں جھک گئیں وہ جدھر جاتے تھے انکے
لیئے وقت رک جاتا تھا ۔درندے ان کا نام سن کر جنگلوں کو خالی کر دیتے تھے
۔سمندر ان کو راستہ دے دیتے تھے ۔پہاڑوں ان کے قدموں تلے کنکر محسوس ہوتے
تھے ۔طوفان ان سے پناہ مانگتے تھے اور آندھیاں ان سے کترا کر نکل جاتی
تھیں۔اسکی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کا اپنے اﷲ کے ساتھ جو تعلق تھا وہ شیشے سے
زیادہ شفاف اور فولاد سے زیادہ مضبوط تھا ۔نتیجہ یہ تھا کہ اﷲ تعالی کے فضل
و کرم سے ان کے راستے کے کانٹے خود بخود صاف ہو جایا کرتے تھے۔
|