لوگ کہتے ہیں ساتھ رہنے کیلیٰے
ذہنی ہم آہنگی بہت ضروری ہے لیکن میں سمجھتی ہوں جب دو ایک جیسے ہی دماغوں
اور عادات کے لوگ آپس میں ملتے ہیں تو ان میں ٹکراوؤ ضرور ہوتا ہے، انکے
لیے ایک دوسرے کو سمجھانا انتہائ مشکل ہوتا ہے اسلیے تو ارسطو اور افلاطون
ایک دوسرے کا بے انتہا احترام اور پیار کرنے کہ باوجود ایک دوسرے سے ہمیشہ
لڑتے رہتے تھے۔ سانحہ ڈسکہ پہ بہت کچھ کہا اور سنا گیا, یہ تو سب ہی جانتے
ہیں کہ پولیس قانون کا تحفظ اور عدلیہ قانون کی بحالی کرتی ہے۔ دونوں شعبوں
کا اصل مقصد قانون کی بالا دستی ہے اور دونوں ہی اپنے کام اور اختیارات میں
خود مختار ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک ہی ہدف پہ نظر رکنے والے
شاہینوں کو اہک دوسرے کی عزت اور مرتبے کا زیادہ خیال ہوتا لیکن حقیقت
آنکھوں دیکھی تھی اسلیے شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کرنا بھی حماقت ہے۔ بات
پھر وہیں آ کہ رک جاتی ہے کہ تغیرات و تضادات زندگی کا حصہ بھی ہیں اور حسن
بھی۔ اگر کل کے سانحہ ڈسکہ میں لپکتے شاہینوں کی نظر بصیرت میں سفاکی کی
جگہ بے باکی اور احترام ہوتا کو کبھی پرواز میں کوتاہی نہ آتی، اگر وہ لہو
گرم کرنے کیلیے صاحب لولاک بن جاتے اور مل کر قانون بچاتے تو صحیح معنوں
میں قوم کے محسن اور اقبال کے شاہین ہوتے, لیکن ایک ہی غلطی کو گردن کا طوق
بنانے سے مزید گھٹن بڑھتی ہے اسلیے دونوں محکموں کو ارسطو اور افلاطون بننے
سے زیادہ عام انسان کی نظر سے اپنے درمیان کے تضادات کو سمجھنا اور حل کرنا
ہے۔ رشتوں کا حسن انکے بیچ کے تضادات ہیں، اگر ہم اپنے درمیان کے تضادات کا
احترام کریں تو رشتوں کا مان اور خوبصورتی بڑھ سکتی ہے۔ ہماری ڈی این اے سے
لے کر آنکھوں کے رنگ تک سب کچھ مختلف ہے، اور یہی ہماری پہچان اور حسن ہے۔
اسلیے بجائے اسکے کہ ہم پرانی غفلتوں کا رونا روؤٰیں، اپنی مستقبل کی فکر
میں اپنی شخصیت بدلیں، ایک دوسرے کے تضادات کو سمجھیں اور انکا احترام کریں
ناکہ معجزوں کی آس میں ہم آہنگی کے سرابوں میں بھٹکتے رہیں۔ |