میرے آنگن کے سرخ اینٹوں پر ناتی
بارش کی جھنکارنے جب علی الصبح بیدار کیا تو کمرے کی کھڑکی سے قطار در قطار
اترتی بوندوں دیکھ کر میں سوچنے لگی کے گھٹن اور حبس کے اس پژمردہ ماحول
میں یہ پھدکتی بوندیں میرےروح کے الاؤ کو سرد کرنے آٰٰی ھیں یا گزشتہ دنوں
کی بربادیوں پر ماتم کناں ھیں۔۔اگر یہ واقعی ابررحمت ھے تو یہ بےکلی اور
سفاکی اس پانی میں بہہ کیوں نہں جاتی؟اس برستتی بارش کے ھر قطرے میں مجھے
انسانیت کا مکروھ عکس کیوں نظر آرہا ہے؟گزشتہ دنوں کی سفاکیت کا دہشت ناک
منظر دماغ کے پردے پر جو داستان دکھا رہا تھا اسے دیکھتے ھوے مجھے قدیم
رومی گلیڈی یٹرز یاد آنے لگے جنکی روحیں اب جدید دور کے مہذب سفاک جسمون
میں منتقل ھو گی ھیں جو سالوں سے سلگتی آگ میں مزید ایندھن پھینکتے ہوے وطن
عزیز کا سینہ چاک کرنے کا عہد لے کر آے ہیں۔ کراچی بلوچستان اور پشاور تو
ازل تا ابد جذباتیت کے نام پر چھلنی ھوتے رھیں گے لیکن لاھور اور اسلام
آباد جیسے زندہ اور جدت پسند شہروں میں گلو بٹ، رمشا مسیح اور ان جیسی بے
شمار روحیں کہاں سے آگئیں؟
سورھ البقرھ میں ارشاد ربانی کا مفہوم کچھ یوں ہے کے الله تعالی نے انسان
کو پیدا کرنے کا فیصلہ کیا تو فرشتوں کو بھی خبردار کر دیا۔ اس وقت زیادہ
تر فرشتوں کے مطابق انسان فقط فساد ہی پھیلا سکتا تھا لیکن خالق برحق کا ھر
کام حکمت بھرا ھوتا ھے سو دنیا انسانوں کے ھی دم سے چلنے لگی لیکن آج کل کے
کچھ انسان وھی فسادی ھیں جنکے متعلق فرشتں نے عندیہ دے رکھا تھا میں جب
ایسے انسان دیکھتی ھوں تو سوچنے لگتی ھوں کے کیا انہں واقعی الله کا خلیفہ
کہنا جائز ہے یا صرف مٹی کی مورتیاں ھی ھیں؟
مٹی کی مورتوں کا ھے میلہ لگا ھوا آنکھیں تلاش کرتی ھیں انساں کبھی کبھی
حالات کی اس گتھی کو سلجھانے میں میری عقل اپنی حدیں چھو کر پلٹ آتی ہے اور
جواب نھیں مل پاتا کہ ھماری روحیں آخر کو کس ناکردھ جرم ک پاداش میں جلتی
جا رہی ہیں کونسا ایسا پانی ھوگا جو ٰٰیہ الاؤ بجھا سکے گا؟ معاشرے میں
پھنکارتی درندگی کو دیکھ کر مجھے وہ حدیث یاد آتی ھے کہ جیسی رعایا ھو اس
پر ویسا ھی امیر مقرر ھوتا ھے تو کیا ھم سب وحشی درندے ھیں کے ھم پر مسلط
کردہ حکمران درندگی کی آخری حدوں سے بھی گزر گئے؟کیا ھم انہی پیشواؤں کے
مستحق ہیں؟
یہ تار تار اجالا یہ شب گزیدہ سحر۔۔تلاش تھی ہمیں جسکی یہ وہ سحر تو
نہیں۔۔یہ وہ سحر تو نہیں جسکی آرزو لے کر چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں
نہ کہیں۔۔لیکن میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں،میرے شہر جل رہے
ہیں میرے لوگ مررھے ہیں،ھم ھی قتل ھو رھے ھیں ھم ھی قتل کر رھے ھیں۔۔میری
ناقص عقل یہ سمجھنے سے قاصر ھے کے یہ کیسی جنگ ھے اور کن کے خلاف ھے؟ میں
اپنے شہریوں کے بہتے لہو کا خراج مانگوں تو کس سے مانگوں؟کون ھے جو شمالی
وزیرستان کے چہرے پر لکی کرب کے داستان پڑھ کر سنا سکے؟کوئ ہے جو ان معصوم
مھاجر بچوں کے نازک وجود میں پھیلتا ڈر اور سناٹا محسوس کر سکے؟کوئ ھے جو
کوھاٹ کی سڑکوں پر لٹے پڑے آئ ڈی پیز کو امداد کے نام پر مچھر مکھیوں کی
طرحذلیل ہونے سے بچا سکے؟میں یہ کیسے مان لوں کے کراچی لا ھور، پشاور،
اسلام آباد، کوئٹہ اور دیگر شہروں میں خون کی بازیاں کھیلنے والے ھمارے
قابل قدر رھنما اور خادم اعلی ھیں؟میں کیسے ھر شہر میں شتر بے مھار پھدکتی
فرعونیت کو اپنی کچلی ھوئ روحوں پر قلقاریاًں مارتے سنوں؟ھمنوا میں بھی کوئ
گل ھوں کے خاموش رھوں مگر کیوں تم دہائ دیتے نھیں مر گئے ھو کیا لوگو!ھو کس
طرح کی اذیت میں مبتلا لوگو۔۔۔؟
ھماری سب بڑی خامی ھماری حد درجہ معصومیت ھے۔ھم سٹاسٹھ سالوں سے یہ سمجھ
رھے ھیں کے ھمیں تباھی کے دھانے پر کھڑا کی ذمہ دار بیرونی قوتیں ھیں ھم
اپنی اندرونی خانہ جنگی اور ذھنی خلفشار کا ادراک کرنے کے بجائے اس زعم میں
مبتلا ھیں کہ بیرونی شکنجہ گر اٹھ جائے تو ھم مضبوط و مربوط ہیں۔ ھماری
سادگی ھمارا جرم ھے کوئ اور ھماری خطا نہیں۔ حالیہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق
پاکستان حب الوطنی کے حوالے سے سر فھرست ھے چائنہ دوسرے جبکے امریکا تیسرے
نمبر پر ھے۔ رپورٹ کے مطابق ٥٨ فیصد پاکستانی پاکستان کے نام پر قربان ھونے
کو ھمہ وقت تیار ھیں۔ یہ پڑھ کر مجھے واقعی لگا کے اب پاکستان کو قبرستان
بننے سے کوئ نھیں روک سکتا۔۔ھمارا المیہ یہ ھے کے ھم احساسات سے زیادھ کام
جذبات سے لیتے ھیں۔ ھم قدرت کے عطا کردھ حواس خمسہ سے کام لینے کے بجائے
جذبات کی رو میں بہنے کو ترجیح دیتے ھیں اور سمجھ ھی نھیں پاتے کے پاکستان
کو ھماری لاشوں سے زیادھ ضرورت ھماری زندگیوں کی ھے۔
الفاظ کی مزید طوالت وقت کا ضیاع ھے کیونکے ھم تو وہ ھیں جو شتر مرغ کی طرح
آنکھیں موندھے تماشہ دیکھنا اور تماشہ بننا پسند کرتے ہیں۔ انسانی تاریخ کا
سب سے پہلا قتل شیطان کے اکسانے پر ھابیل نےقابیل کا کیا تھا لیکن آج کل کے
حالات کے تناظر میں اب ہر شخص جانتا ہے کے اس بار جو ھابیل نے قابیل کو
مارا، اس بار کہیں بیچ میں شیطان نہیں تھا یعنی ھمارے اندر برائ کا سرطان
اس قدر پھیل چکا ھے کے اب کوئ شیطانی طاقت بھی ھم پر حملہ آور نہیں ہو
سکتی۔ خدارہ سوچئے اور خود احتسابی کیجیے شاید اس طرح یی ھماری پیاسی روحیں
سیراب ہو سکیں۔ |