7 مئی 2014 کی صبح کیسی غمگین
تھی ،موسم ہرطرف اُداسی بکھیررہاتھا،فضائیں بھی کچھ عجیب سی کیفیات میں
اُلجھی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں ۔عجیب ساموسم اورمایوس فضاﺅں میں
چرندوںاورپرندوں کی چہچہاہٹ بھی عجیب تھی ۔چرندپرند،موسم ،آب وہوااپنی زبان
میں کچھ کہہ رہے تھے مگراس دن انسانوں کوکیاخبرتھی اللہ تعالیٰ فضاﺅں سے ،ہواﺅں
سے ،چرندوپرندکی عجیب سی کیفیات اوربولیوں سے کیاکہلوا(بلوا)رہاتھا۔یہ کوئی
نہیں سمجھ پایاکہ کوئی انہونی ہونے والی ہے ،کوئی انرتھ ہونے والاہے ،کوئی
اپنوں سے بچھڑنے والاہے مگراللہ تعالیٰ ہی دونوں جہانوں کامالک ہے اوروہی
حاکم ہے اُس عظیم وبابرکت ذات کاجومنصوبہ ہوتاہے وہی آخرانجام پاتاہے ۔ 7
مئی کاہی دِن تھاجب ہارون رشیداپنے والدین اوردیگرپیاروں کوچھوڑکردُنیائے
فانی سے رخصت ہوگیا۔سچائی،ایثار،محبت وہمدردی ،شرافت ،سادگی واخلاص کی دولت
سے مالامال یہ نوجوان جس محفل میں جاتاتووہاں اپنے اخلاص
کااثربکھیردیتاتھا۔اس کی صورت مسکراتے پھول کی سی تھی ۔رشیدچودھری صاحب کا
آنگن ہارون رشیدکی وجہ سے خوشیوں کاگہوارہ تھااوردِل کوموہ لینے والی
خوشبوسے معطرتھامگراس چمن کی دِلوں کوموہ لینے والی اورفضاءکومعطرکردینے
والی خوشبو چندروزہ ہی تھی ،ہارون رشیدکی زندگی کے دِن تھوڑے تھے ۔کہتے ہیں
اللہ تعالیٰ انسان کی زندگی کے ایام پیدائش سے پہلے ہی مقررکرلیتاہے ۔اورہارون
کی زندگی بھی اللہ تعالیٰ نے مختصرہی لکھ رکھی تھی،اللہ تعالیٰ کی
منشااورمنصوبوں کوبھلاکون ٹال سکتاہے۔وہ کائنات کامالک ہے وہ جسے چاہتاہے
اپنے پاس بلالیتاہے ۔اللہ تبارک وتعالیٰ دُنیاکے آنگن سے کس خوب رُوپھول
کوجنت کی کیاری میں سجانے کےلئے منتخب کرلے وہ کسی انسان کومعلوم نہیں ہوتا۔
موت کا کوئی موسم نہیں ،موت برحق ہے۔موت سے کوئی بھاگ نہیں سکتا۔موت ہر بشر
کو اس کی آخری آرام گاہ تک لے جاتی ہے۔موت نہ پیارے کو چھوڑتی ہے۔موت کو جس
وقت آنا ہوتا ہے وہ دبے پاوں چلی آتی ہے اور چپکے سے بہت پیاروں کو چھین کر
بہت دورلے جاتی ہے۔بقول شاعر
یہ نہیں آتی ہے بلانے سے
موت آتی ہے بہانے سے
موت ہمہ وقت اپنے شکار کے تعاقب میں رہتی ہے۔موت کو کسی پر رحم نہیں آتا۔جس
کا وقت آجاتا ہے موت کا فرشتہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسکی روح قبض کرلیتا
ہے۔بے شک ہم سب کو دیر سویر اسی رب کی طرف لوٹنا ہے۔ موت سے بڑی سچائی کوئی
نہیں ۔ ہمیشہ قائم رہنے والی ذات صرف اللہ تبارک وتعالی کی ہے۔اللہ تعالیٰ
مرحوم ہارون رشیدکی مغفرت فرمائے۔7 مئی 2014 کوکتناخوبصورت اورپھول جیسی
صورت والانوجوان ہارون رشیدپلوں میں اپنوں سے جُداہوگیا۔ہارون رشید ایک
پھول ہی تھاجوپوری طرح کھلنے سے پہلے ہی مرجھاگیا۔والدین کادُلارا،اپنوں
کاپیارا،یاروںدوستوں کابہترین دوست یوں چلاجائے گااس بات کاکوئی تصورذہن
میں لاہی نہ سکتاتھا۔۔۔۔۔مگرموت کافرشتہ مقررہ وقت پرآن پہنچا اوربلامذہب
وملت،ذات ،اونچ نیچ ،چھوٹے بڑے کی تمیزکیے بغیراللہ تعالیٰ کے حکم
کونبھاگیا۔رجسٹرار باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی رشیدچودھری کے 21سا لہ
جواں سال فرزندارجمندہارون رشیدکے دریابردہونے کی منحوس خبرسن کر ہرکسی
کاکلیجہ مُنہ کوآگیاتھا۔والدین ،بھائی بہنوں اوردیگراحباب پرکیاگذری اس
کوضبط تحریرمیں لاناممکن ہی نہیں ۔اُس تصورکوذہن میں لاکرہی دِل تڑپ
اُٹھتاہے۔ ہارون رشیدبی ٹیک کے آخری سمسٹرکاطالب علم تھااور7 مئی
2014بروزبدھ باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی میں امتحان دینے کے
بعدسیروتفریح کےلئے وہ اپنے چنددوستوں کے ہمراہ جموں ۔پونچھ شاہراہ کے ایک
طرف بہنے والے دریاراجوری میںاندرولہ کے مقام پر نہانے کی کےلئے پانی میں
اُترا۔اصل میںہارون پانی میں اُترانہیں،سیروتفریح کےلئے آیانہیں بلکہ اُسے
فرشتہ موت دریاپہ کھینچ لایا تھا ۔دوستوں کے ساتھ وہ بھی دریا میں
نہارہاتھامگرباقی دوست جب پانی سے باہرآئے توانہیں اپنے دوست کوباہرآتے نہ
دیکھ کرحیرت ہوئی،اورانہیں اپنے ساتھی ہارون کاہاتھ ہلتاہوانظرآیا۔ہارون
رشیددیکھتے ہی دیکھتے دریابردہوگیا،اس کے بعددوستوں نے سکتے میں آکرہارون
کے دریابردہونے کی دِل دہلادینے والی منحوس خبراُس کے ایک قریبی شخص کودی
۔آناًفاناً اس حادثے کی خبرراجوری بھرمیں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی
اورہرکوئی جائے حادثہ کی طرف دوڑا۔افراتفری کاعالم پیداہوگیا،ہرکوئی کفِ
افسوس مل رہاتھا۔پولیس وسول انتظامیہ ،سول انتظامیہ کے آفیسران، باباغلام
شاہ بادشاہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ارشادحمال صاحب،عملہ اورہارون
کاوالدرشیدچودھری اندرولہ کے مقام پرپہنچے۔پولیس وسول انتظامیہ کے آفیسرا ن
نے پانی سے ہارون کی نعش کوبرآمدکرنے کےلئے مقامی تیراکوں کے علاوہ فوج کے
غوطہ خوروں اوردیگرسول غوطہ خوروں کی مددلی ۔اورپھر5 چھ گھنٹے کی طویل مشقت
اورکڑی محنت کے نتیجے میں ہارون کی لاش برآمدہوئی۔ضلع انتظامیہ راجوری سول
وپولیس بالخصوص اُس وقت کے ایس ایس پی مبصرلطیفی صاحب نے کافی تگ ودوکی
اورفوج کاتعاون حاصل کرکے نعش کوبرآمدکیاجس کی وجہ سے ہارون کی نعش گلنے
سڑنے سے بچ گئی۔گذشتہ دِنوں مورخہ 19 مارچ 2015 کوروزنامہ اُڑان میں محترم
جناب لیاقت نیئرکالکھاہواکالم بعنوان”ہارون رشید۔چندیادیں،چند باتیں“ رات
کے ڈیڑھ بجے پڑھ کرغم کی عجیب سی کیفیت طاری ہوئی، اپنے دوست ہارون کی
یادمیں کھوگیا،اوراللہ تعالیٰ سے ہارون کی خطاﺅں کی تلافی کی دُعائیں نکلیں
۔جس دِن ہارون رشیدسے متعلق کالم لیاقت نیئرصاحب کاشائع ہوااتفاق سے راقم
کاکالم بھی نیئرصاحب کے کالم کے ساتھ شائع ہوا،بہت سے لوگوں کویہ معلوم
تھاکہ میراتعلق اُڑان سے ہے اس لیے انہوں نے پوچھاکہ لیاقت صاحب کے کالم کی
اگلی قسط کب شائع ہوگی جس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔البتہ انہیں یہ
بتایاکہ اگرمجھ سے لیاقت صاحب کارابطہ ہواتوان سے ضرور کہوں گاکہ وہ کالم
کی اگلی قسط بھی بھیج کرشائع کروائیں۔ہارون کی یادیں اورباتیں پڑھتے ہوئے
بات بات پرروناآیا،بارباریہ سوچاکہ لواحقین نے کس طرح صبرکیاہوگا؟،پھرخیال
آیا،کہ بلاشبہ ہارون کی حادثاتی موت ہوئی جس پروالدین کےلئے صبرکرپانابہت
مشکل ترین مرحلہ تھا۔یقینااللہ تعالیٰ نے ہی رشیدصاحب ودیگرلواحقین کویہ
صدمہ برداشت کرنے کی ہمت دی ہوگی مگرمجھے یہ بھی یقین ہے کہ جب بھی ہارون
کی یادانہیںستاتی ہوگی تووہ ضروربلک بلک کردیواروں کے پردے میں آنسوﺅں
بہاتے ہوں گے۔وادی کشمیرمیں کتنے والدین ایسے ہیں جنھوں نے اپنے لخت جگروں
کوکھویاہے،کتنی بیوائیں ہیں جنھوں نے اپنی مانگ کاسندورکھویاہے ،کتنے ہی
بزرگ ایسے ہیں جن کی اکلوتی اولادان کوداغ مفارقت دے کرابدی نیندسوگئی۔کتنی
بہنوں ،بیٹیوں،بہوﺅں کی عصمت لُٹنے سے وہ نیم مردہ ہوگئیں۔کتنے بھائی ایسے
ہیں جنھوں نے اپنی بہنوں کوبیوہ ہوتے دیکھاہوگا۔سب کواللہ تعالیٰ ہی
صبردینے والاہے۔دُنیامیں بہت سے لوگ پریشان حال ہیں،ہسپتالوں میں
جاکردیکھوتومعلوم ہوگاکہ اس دُنیامیں اتنے دُکھی لوگ بھی ہیں ۔
اپنے لخت جگرنورِنظرکی جدائی کاغم سہنااورصبرکرنانہایت ہی مشکل کام ہے لیکن
ہارون کے والدین کے پاس بھی دیگرمغموم والدین کی طرح صبرکے بغیرکوئی چارہ
نہیں۔ وہ اپنے اس غم میں خودکوتنہامحسوس نہ کریں بلکہ یہ سمجھ لیں ،ہزاروں
والدین اپنی اولادکے بچھڑجانے سے مغموم ہیں ۔رشیدصاحب اس دُکھ کی گھڑی میں
راقم بھی برابرشریک ہے۔اگرہم ایک دوسرے کے دُکھ دردکواپناسمجھ لیں ،ایک
دُوسرے کے دُکھ دردمیں شریک ہوجائیں ،ایک دوسرے کاسہارہ بنیں توہمیں صبرملے
گا۔اللہ تعالیٰ مرحوم ہارون رشیدکوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے
اوروالدین والدین ودیگرعزیزواقارب کو صبر ِجمیل عطافرمائے ۔(آمین)۔آخرمیں
ایک شعرکے ساتھ رشیدچودھری صاحب کے دِل کی کیفیت کاغمازشعربصورت دُعاپیش
کررہاہوں۔
یوں نہ اُجڑے چمن بہاروں کا
تُوسہاراہے بے سہاروں کا) |