یوں تو دنیا میں کوئی نہ کوئی
کسی حصہ میں اچھے کام کررہا ہے۔ہماری قوم میں بھی کئی لوگ ایسے ہیں جو اچھے
کاموں کا ترجیح دے رہے ہیں،ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اچھے کاموں کے معنی
مسجدوں و مدرسوں کی تعمیر سے جوڑتا ہے اور مدرسوں میں زیر تعلیم طلباء
کیلئے اپنا مالی تعاون پیش کرنا ہی اچھا کام سمجھتے ہیں۔درحقیقت دنیامیں
ایسے متعدد کام ہیں جو اچھے کام ہیں لیکن ہماری توجہ اس پر نہیں ہے۔اسلام
میں زکوٰۃ،خیرات ،چندہ اور صدقات کی بڑی اہمیت ہے اور ان مقاصد کے تحت
نکالے جانے والی رقومات کا حصہ مسجدوں ومدرسوں کے نظر ہوتا ہے۔جہاں تک
ہماری سوچ ہے آج مسجدوں و مدرسوں کی تعداد بے تحاشہ بڑھ رہی ہے لیکن مسجدوں
میں نمازیوں کی کمی اور مدرسوں میں طلباء کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔پھر
بھی عالیشان مسجدوں کی تعمیر کیلئے ہمارا بہت بڑا پیسہ خرچ ہورہا ہے اور
کئی ایک ایسے مدرسے ہیں جہاں کھاتے پیتے گھرانوں کے بچے زیرتعلیم ہیں اور
اُن پر بھی ہمارے صدقہ و زکوٰۃ کے پیسے خرچ کئے جارہے ہیں۔ماضی کا جائزہ
لیا جائے تو شاید ہی کوئی ایسا مدرسہ ہوگا جو زکوٰۃ اور فطرے کے پیسوں سے
چلایا گیا ہو۔ماضی میں ہزاروں علماء نے جن مدرسوں میں تعلیم حاصل کی تھی وہ
کسی کے زکوٰۃ و صدقوں سے قائم نہیں کئے گئے تھے۔جن ماں باپ کو آخرت کی فکر
تھی انہوں نے اپنے ذاتی اخراجات کے ذریعے سے انہیں تعلیم دلوائی تھی۔اور
کچھ مثالیں ایسی بھی ہیں کہ علماء نے اپنے شاگردوں کو مفت تعلیم دی تھی کئی
کئی دنوں تک فاقوں کادور رہاکرتا تھا لیکن انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں
تھی۔آج کل ہر مدرسہ کو اسپانسرشپ کی ضرورت ہے بھلے اس میں مالدار بچے بھی
ہوں۔یتیم و مسکین کے نام پر چند ایک طلباء کا داخلہ ہوتا ہے اور ان یتیم
ومسکینوں کے درمیان مالداروں کی تعلیم بھی ہورہی ہے۔ایسا تمام مدارس میں
نہیں ہے لیکن بیشتر مدارس انہیں بنیادوں پر چل رہے ہیں۔اچھے کاموں کیلئے
تعاون کرنے کا مطلب صرف مسجدوں و مدرسوں کو چندے دینا نہیں ہے بلکہ اور بھی
کئی کام ہیں۔عصری تعلیم حاصل کررہے طلباء کی مدد کرنا بھی اچھا کام ہیں ،بیماروں
کے علاج کیلئے کام کرنا بھی اچھا کام ہے،غریب و بے سہارا بے گھروں کیلئے
مدد کرنا بھی اچھا کام ہے۔ہمارے درمیان ایسے کئی معاملات پیش آتے ہیں جس
میں کئی لوگ مالی اسطاعت نہ ہونے کی وجہ سے مختلف بیماریوں کی وجہ سے دم
توڑ دیتے ہیں،اگرایسے لوگوں کے علاج کیلئے مالی تعاون دینے کو اچھا کام
سمجھیں تو کئی لوگ بے موت نہیں مار جائینگے۔امراض قلب کا علاج یوں تو
سرکاری سطح پر مفت کیا جاتا ہے لیکن یہ صرف علاج تک محدود ہے ،ادویات و
دیگر اشیاء کیلئے مریضوں کو پانی کی طرح پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔گردوں کی
شکایت کا شکار لوگ اپنے علاج کیلئے پیسہ خرچ نہیں کرسکتے اور یہ لوگ بھی
کسی کی مدد کے طلبگار ہیں۔ ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسے اچھے کاموں کی
جانب توجہ دیں اور خدا کی رضامندی کیلئے کام کریں۔ |