آگہی
(Haider Majeed, Sheikhupura)
سعد نے ایک رسالہ میں ایک واقعہ
پڑھا۔ جس میں ایک ضعیف عورت صبح نماز کے بعد کوڑے میں سے اخبار کے ٹکڑے
اکٹھے کرتی ہے،جب کسی پوچھنے والے نے پوچھا تو عورت نے جواب دیا کہ میں
اخبار کے وہ ٹکڑے اکٹھے کر رہی ہوں جن پر اللہ اور اس کے رسولﷺ کا نام لکھا
ہوں اور تو کچھ کر نہیں سکتی لیکن یہ کام توکر سکتی ہوں کیا پتا اللہ ا س
سے خوش ہو کر میری بخشیش کر دے ۔
سعد اس واقعہ کو پڑھ کر بہت متاثر ہوا اور وہ بھی اس عورت کی طرح اخبار کے
ٹکڑے اکٹھا کرنا چاہ رہا تھا جن پر اللہ اور اس کے رسولﷺ کا نام مبارک ہو۔
سعد اپنی سستی کی وجہ سے یہ کام نہ کر سکا ۔ آہستہ آہستہ وہ اس واقعہ کو
بھولتا گیا ۔جیسے ہی میٹرک کے امتحانات سے فارغ ہوا تو اس کے پاس کافی وقت
تھا ۔اس کے ابو نے سعد سے کہا کے آپ نے کالج میں داخل ہونا ہے آپ کے پاس
وقت بھی ہے تو آپ ابھی سے کوچنگ کلاسز لینے لگ جائے اس سے آپ کو کورس
سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ سعد اپنے ابو کی بات سے متفق ہو گیا اور شہر کے
ایک اچھے کوچنگ سنٹر میں داخلہ لے لیا۔کوچنگ کلاسز صبح اور شام ہوتی تھیں
سعد نے اپنے لیے صبح کے وقت کا انتخاب کیا۔
سعد صبح کی نماز اور قرآن کی تلاوت کر کے کوچنگ سنٹر جانا شروع ہوگیا۔وہ
اکثر ایک آدمی کو دیکھتا جو کوڑے کے ڈھیر سے کاغذ چن رہا ہوتا۔سعدکو لگتا
کہ وہ اس آدمی کو پہلے مل چکا ہے پر کدھر یاد نہیں ۔ اچانک اسے یاد آیا کہ
یہ آدمی تو شہر کی مشہور ڈرائی کلینز کی دوکان پر کام کرتا ہے۔سعد اور اس
کا آمنا سامنا روزانہ ہی ہوتا۔
ایک دن جب سعد اس آدمی کی دوکان پر گیا اور اس سے پوچھ ہی لیا کہ انکل آپ
کو میں روز دیکھتا ہوں آپ کا غذ کے ٹکڑے کیوں اکٹھے کرتے ہیں؟
تو انکل نے جواب دیا دیکھو بیٹا میں اخبار کے ان ٹکڑوں کو اکٹھا کرتا ہوں
جن پر اللہ اور اس کے رسولﷺ کا نام لکھا ہو۔ایسا لگتا ہے جیسے لوگ اخبار تو
لیتے ہیں پر پڑھتے نہیں۔
پریس کے بعد اخبارات فت پاتھوں پر رکھ کر تہہ کیے جاتے ہیں۔دوکانوں،گھروں
کے شیشے صاف کیے جاتے ہیں۔الماریوں کے خانوں میں بچھائے جاتے ہیں اور آخری
خانوں میں جوتیاں رکھی جاتی ہیں۔ ریڑھیوں،دوکانوں اور فروٹ کے ڈبوں میں
ملتے ہیں اور آخری انجام ان اخبارات کا کوڑے کا ڈھیر ہوتا ہے۔
دیکھو کیسی بات ہے دنیا کے کسی ملک میں جب کوئی توہین رسالت یا توہین قرآن
کا واقعہ ہوتا ہے تو سارا ملک سراپا احتجاج ہو جاتا ہے اور ہمارا مطالبہ
ہوتا ہے کہ توہین کرنے والوں کو پھانسی دی جائے۔
دیکھوں بیٹا ان اخبارات میں قرآن کا ترجمہ اور احادیث مبارکہ لکھی ہوتی ہیں
اور اخبارات بیچنے والے لاکھوں گھروں میں اخبار پھینکتے ہیں۔اخبار پھینکنے
والے اور جن کے گھروں میں اخبار پھینکا جاتا ہے یہ سب مسلمان ہی ہیں۔ہم خود
تو توہین رسالت اور توہین قرآن کر رہے ہیں اور ہمیں پتا بھی نہیں۔
بیٹا میں تو بس اتنا ہی کر سکتا ہوں جتنی میری ہمت ہے اور دعا کرتا ہوں کہ
اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔
واپسی پر سعد کو عورت والا واقعہ بھی یاد آگیا اور ابھی کل ہی تو اس نے فیس
بک پر ایک ملعون پر لعنت بھیج کر پوسٹ شیئر کی تھی جس کو لاکھوں لوگوں نے
شیئر کیا ہوا تھا۔کیا ہم لوگ فیس بک پر ہی لعنت بھیج کر سمجھتے ہیں کہ ہم
نے اپنا فرض ادا کر دیاہے ہم خود جو کام کر رہے ہیں اس کی کوئی خبر ہی
نہیں۔
اسلام علیکم ! انکل
وعلیکم اسلام ! ارے بیٹا آج آپ ادھر ؟؟
جی انکل آج سے میں بھی آپ کے ساتھ مل کر اخبار جمع کروں گا اور اپنے دوستوں
میں اور جاننے والوں میں آگہی پیدا کروں گا کہ ہم کیا کر رہے ہیں میں خود
بھی اور دوسروں کو بھی اس کام سے روکو گا۔
انشاء اللہ اللہ تمہیں کامیا ب کرے آمین |
|