چہ خپل کور نہ پیژنی ھغہ تا سہ وائی؟

جو اپنے ہی گھر کی پہچان نہیں کر سکتے۔اُس انسان کو اپنے ارد گرد کے معاشرے میں مختلف نام دئیے جاتے ہیں ۔کوئی لوفر کی تشبیہہ دیتے ہیں۔ کوئی ابنارمل ، پاگل یا پھر پشتو زبان میں لیونی کے نام سے بُلایا جاتا ہے۔لیکن دورِ جدید میں اپنے موجودہ حالات پر نظر رکھتے ہوئے اس پشتو جملے کی تشریح کو وُسعت دیتے ہیں ۔ تین عوامل ایسے ہیں ۔ جن کو گھر سے زیادہ اپنے جان کے آئینے میں دیکھ کر سوالات کیے جاتے ہیں ۔ کہ جو اِن کی پہچان نہیں کرتے۔ ان کو ہم کیا کہیں گے۔ کیا ہم اُن کو پاگل کہیں گے؟کیا ہم اُن کو غدار کہیں گے؟ کیا اُن کو منکر کا نام دے؟یا پھراِن سب کو بحیثیت مجموعی اُمّت ِ محمدی ؐ کے آخری لوگ کہیں گے؟

وہ قومیں جو اپنی ثقافت بھول جاتی ہے۔ وہ اپنی قومیت ہی کھو بیٹھتی ہے۔ اپنی ثقافت پر کاربند رہنا چھوڑ دیا۔اپنی ثقافت کی ترویج کرنا اور اس پر فخر کرنا چھوڑ دیا۔ غیروں کے گھروں میں اُنہی کے رنگ بھرکربسیرے ڈال دئیے۔ غیروں کی ثقافت کو اپنے گھروں اور حُجروں میں گُھسنے دیا ۔اب اپنی ثقافت پر ہنسی کرتے ہیں۔اور وہ اقدار جس کی نہ آباء و اجداد اجازت دیتے تھے۔ جس کو دینِ اسلام نے بھی ہمارے لیے مانع قرار دئیے ہیں۔اُن پر آج خود بھی فخر کرتے ہیں۔اور اپنے آئندہ نسلوں کو اپنانے کی ہدایت کرتے ہیں۔چونکہ جن کو نوبل ایوارڈز ملتے ہیں۔وہی معاشرے کیلئے رول ماڈل کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔اس غرض سے ہم نے اپنے عزیز بہنوں اور بیٹیوں کی قربانیاں دیں۔ اُن کو غیروں کی ثقافت کا محافظ بنا دیا۔جو ہماری ثقافت کے قاتل ہیں۔اُن کے دَر بان بنا دئیے۔

جو قومیں ہماری زبانوں کے عظیم شُعَراء ،ناول نگاروں اور ڈرامہ نگاروں کی تخلیق کے ترجمے انگریزی اور کئی دوسرے زبانوں میں کرتے تھے۔ اُن کو سمجھ کر دوسری قومیں ہمارے لوگوں کو داد دیتے تھے۔لیکن آج ہم اپنے تعلیمی اِداروں میں غیروں کی زبان سیکھ کر، غیروں کی شکل بنا کر شاباش دیتے ہیں۔خوشحال خان خٹک اور شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کے منطقی اشعارو نظموں کو چھوڑ کراپنے تعلیمی اِداروں میں شیکسپئیر اور شیلے کے بے سُر، بے مقصد اور تصوراتی نظمیں رٹا کراتے ہیں ۔ حُقّہ اور پگڑی ہمارے حُجروں اور ثقافت کی پہچان ہوا کرتی تھی۔اب بے اتفاقیوں اور انا پرستی نے حُجروں کو کچھ منچلے نوجوانوں تک محدود کر دیا۔ جو ایک کمرے میں جمع ہو کر بالی ووڈ کی نئی فلم کو دیکھنے کیلئے کُہن دراز ہوتے ہیں ۔یا کرکٹ میچ کے دوران چھکوں اور چوکوں کے ساتھ شور کرتے ہیں۔ ہمارے خواتین شَٹل بُرقعہ میں خود کو محفوظ سمجھتے تھے۔ اب ایک لڑکی باریک چادر کندھوں پر رکھ کر بازاروں اور تفریح گاہوں میں اونچے ایڑیوں کے سینڈل پاؤں میں زیب تن کیے ہوئے بوائے فرینڈ کے ساتھ چائے پی رہی ہوگی۔ہمارے بزرگوں کے ہاتھوں میں تسبیح کے دانوں پر اﷲ اﷲ کی بجائے موبا ئل فون پر ہلو ہلو کا ذکر ہو رہا ہوتا ہے۔ ہم نے بحیثیت ِ قوم اپنی ثقافت کی پہچان کھو دی ہے۔اورجو اپنی ثقافت کی پہچان کھو بیٹھے۔گویا وہ اپنے گھر کی شناخت کھو بیٹھے ۔اب اگر ایک انفرادی شخص کو گھر کی پہچان نہ کرنے پر پاگل کا نام دیتے ہیں ۔تو وہ قوم جو اپنی ثقافت بھول گئے۔اُن کو کیا نام دے؟

پاگل یا پھر۔۔۔

ثقافت تو ہم سے مختلف وجوہات کی بنا پر بیگانہ ہو گیا۔لیکن ایک دوسری چیز کہ ہم اپنے مادرِ وطن کے خلاف کیوں ہو گئے؟ ہم نے تو وطن کی مٹی سے ایک وعدہ کیا تھا۔اس ارضِ پاک کو آنسو اور خون کا وعدہ دیا تھا۔کہ ہمارے اجسام زخموں سے چھلنی چھلنی کر دئیے جائیں گے۔ہماری جسدِ خاکی لوتھڑوں میں تبدیل ہو جائے گی۔ہم نے تو وطن کی سلامتی کی قسمیں کھائی تھی۔کہ ہم ہر قسم کی قربانی دیں گے۔لیکن کبھی آپ کے وجود پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔باطل کی غلط نظریں اور غلط قدم آپ پر ٹِکنے نہیں دیں گے۔اس ملک کے باسی غیر ممالک سے واپسی پرسر زمینِ پاک پر قدم رکھنے سے پہلے اس پر سجدہ ریز ہوتے اورمابعد بوسہ لیتے۔ٹھنڈی آہ بھرتے ۔ اورملک کی دائمی بقا کیلئے دعاگو ہوتے۔دیس کے دُشمنوں کے خلاف اندرونِ ملک اور سرحدوں پر لڑتے۔لیکن افسوس کہ آج غیر اور لاغیر سب دیارِ غیر میں بیٹھ کروطنِ پاک کے خلاف کرایے کے لوگ بھرتی کرا رہے ہیں ۔کراچی شہرِ رعنائیوں سے شہرِ کارزاراور شہرِ فساد اپنے ہی ہم وطنوں کی دستِ غیر میں بھیک جانے سے بنا۔قبائلی علاقہ جات سرسبز وادیوں سے بستیِ ویران میں منتقل ہو گئے۔کسی نے لیڈر،کسی نے کرکٹراور کسی نے ایکٹر کے نام سے وطن کا نام داغدار کردیا۔کسی نے کلام اور کتاب بیچ کراِن کو غیروں کے نام کر دئیے۔کسی نے ڈالروں پر سودا کرکے کھیل کے میدان میں اپنے ملک کا نام رُسواکردیا ۔اب سوال یہ ہے۔ کہ جو لوگ اپنی ہی سرزمین کے خلاف اسلحہ اُٹھاتے ہیں۔جو اپنی ہی سرزمین سے عہدِ وفا کی بجائے ڈالر اور پاؤنڈ پر بھیک جاتے ہیں۔ اُن کو کیا نام دیں؟پاگل یاپھر ۔۔۔

مسلمان ہوتے ہوئے ساٹھ، ستّرسال کی زندگی اس دوڑ دھوپ میں گُزر جاتی ہے۔کہ میں نے یہ منصوبہ بنا لیا ہے۔ فلاں اور فلاں معرکے سَر کرنے ہیں۔سالہا سالوں کیلئے نقشے تیار کرتے ہیں ۔ ہمارے راستوں میں کوئی رکاوٹ آجائے۔توہم خونِ ناحق بہانے کیلئے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔مسلمان ، مسلمان کو مروانے پر راضی ہوتا ہے۔اِس دنیا میں حرام کی کمائی کرکے عارضی محلات بناتے ہیں۔دوسروں کے حقوق پر ڈاکے ڈال کر رنگ برنگی کاغذی دنیا بساتی ہے۔اور اس کے اوپرماشاء اﷲ کے الفاظ بھی کندہ کرتے ہیں۔انسان کا سفرِ وجود زمین کے نیچے کی جانب ہے ۔محلات زمین کے اوپر کی سطح پر بنا رہا ہے۔اس کا ایک مثال دیتاہوں۔یہ دنیا زمین کاایک ٹکڑا ہے۔انسان ایک معمار ہے۔ زمین کا مالک معمار سے کہتا ہے ۔کہ زمین کے ا س ٹکڑے پر مسجد بناؤ۔معمار اپنے مالک کے حکم کو پسِ پُشت ڈال کر اِس پر سنیماکی تعمیرکرتا ہے۔اب معمار کواُلٹا کام کر نے پر مالک کیا کہے گا؟ ہمارا تو عقیدہ ہے۔ کہ یہ دنیا فانی گھر ہے۔قبر ہماری منزل ہے۔ ہمارا اصل گھر و کل کائنات ڈھائی گز کی زمین ہے۔ہم یہاں ایک عارضی وقت کیلئے مہمان ہیں۔اسی عارضی گھر کی خاطر اپنا اصلی گھر بھول گئے۔اب اگر کوئی اپنی اصلی گھر کی پہچان نہ کر پائے۔ اُن کو کیا نام دے؟پاگل یاپھر۔۔۔
Hafiz Abdur Rahim
About the Author: Hafiz Abdur Rahim Read More Articles by Hafiz Abdur Rahim: 33 Articles with 23148 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.