شادی
(کنورؔدانیال معین, karachi)
آج میں نے محسوس کیا کہ کس طرح
ہم مزہ لے رہے تھے دوسرے کا مزاق اُڑا رہے تھے،اس کی غریبی کا اس کے مہمان
نوازی کا، اس کی رنگت کا، اس کے سلیقے کا، اس کی سادگی کا ، اس کی پردگی
کا۔ارے حضور! یہ جودین ہے وہ اللہ کی ہی دی ہو ئی ہے۔ اللہ ہی ہے جس نے رزق
بھی عطا کیا اور سانولی رنگت میں بھی کشش دی۔کس طر ح آ ج ہم گورے رنگت
رکھنے والے لڑکے اور لڑکی،جن کے پاس پیسے بھی ہو ، عیش و عشرت کی ساری
چیزیں ہوں، بھلے وہ حلال کھائے رہے ہو ں گھر میں یا نہیں ، وہ اخلاق کے
اچھے ہیں یا نہیں، وہ اللہ کے بتا ئے ہو راستے پہ چلتے ہیں یا نہیں۔ہم صرف
ایسے ہی خاندان میں رشتہ کرنا چاہتے ہیں،کوئی نہیں چاہتا کہ وہ کبھی کسی
غریب لڑکی کو بھی رخصت کرکے اپنے گھر لائے۔ اوررشتہ کرتے ہوئے یہ ہم کبھی
نہیں دیکھتے ہیں۔ دونوں کو حسن دیکھ کر ہی محفل میں پسند کر لیتے ہیں لیکن
اگر یہی کسی ایسے گھر میں جائیں جہاں عیش و عشر ت کی چیزیں تو نہیں مگر آپ
کو دینے کے لئے عزت ہو،وہاں حلال چیزیں کھانے کے لئے موجود ہوں جسے وہ آپ
کے سامنے ،اپنے گھر میں مہمان نوازی کے طور پہ آپ کو پیش کر سکیں وہاں
ہمارا جواب اکثر انکار ہوتا ہے۔لیکن ہمیں تو ان باتوں کی ضرورت ہی نہیں نا،
ہم تو یہ چاہتے ہی نہیں۔ایک گوری لڑکی کے ناز اٹھانے کی وجہ سے آج ایک
سانولی لڑکی گھر میں بیٹھی رہ جاتی ، جس سے کوئی بھی رشتہ کرنے لئے تیار
نہیں ہوتا ہے۔ اور ان کے والدین کی راتوں کی نیندیں حرا م ہو جاتی ہیں۔نہ
ان کے پاس اپنی بیٹی کو دینے کے لئے جہیز ہو تا ہے ناامیر وں کی بیٹیوں کی
طر ح رُخست کرنے کی حیثیت ہوتی ہے۔اور ہم اُس لڑکی کی رنگت کو لے کر اُس کا
مزاق اڑا تے ہیں، عجیب و غریب نا موں سے پکارتے ہیں۔اور اس قدر بُرا بھلا
کہتے ہیں کہ وہ احساس کمتری کا شکا ر ہو جاتی ہے۔ پھر بل آخر اُس کے پاس اس
دنیا کو چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچھتا اور وہ خود کشی کر بیٹھتی
ہے۔اور اُس کے ماں باپ صرف اپنی غریبی کی وجہ سے صدمے سے دو چار رہتے
ہیں۔کیا ایک سادہ سی لڑکی سادے سے کپڑے میں کسی کے گھر رخست نہیں ہوسکتی
؟کیا وہ آپ کے گھر کی زینت نہیں بن سکتی ؟کیا وہ آپ کے خاند ان کو عزت نہیں
دے سکتی؟بڑی ہی عجیب بات ہے، جن چیزوں سے بچنے کا حکم اللہ نے دیا آج وہ ہی
کام ہم کرتے ہیں، کبھی نا تو خود ان چیزوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں نا
کبھی ان عمل کو ہونے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔جہیز ایک لعنت ہے یہ ہم
جانتے بھی ہیں لیکن ہم مسلمان ہو کر بھی اس کو اس طرح سے اپنے معاشرے کا
حصّہ بنا لیا ہے کہ اگر ایک باپ اپنی بیٹی کو جہیز نہ دے تو اس کی شادی نہ
ہو، اور اگر جہیز نہ لیں تو رشتے داروں میں جو ہماری ناک کٹ جائے۔لوگوں کو
کیا جواب دینگے کہ بہو کے گھر سے ہمیں کیا ملاہمیں۔لیکن ہم یہ نہیں جانتے
کہ ہم اس سے رشتے داروں ،معاشرے کے لوگوں کے سامنے تو اپنا نام کر لینگے
لیکن روزِ قیامت ہم اپنے خدا کو کیامنہ دیکھائینگے۔اس بارے میں ہم کبھی بھی
نہیں سوچتے ہیں۔مزاق اڑانا چھوڑیں اور رشتہ کرتے ہوئے یہ نہ دیکھیں کہ کتنے
پیسے ہیں ،بنگلہ ہے یا گاڑی،رنگ گورا ہے یا کالا۔بلکہ یہ دیکھیں کے اخلاق
کیسا ہے،وہ سلیقے دار ہے یا نہیں۔لوگ ہر چیز دیکھ لیتے ہیں لیکن اخلاق
وسلیقے کو کوئی نہیں دیکھتا اور سب اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔بس ہمیں ان
ہی سب چیزوں کوختم کرنا ہے، اور اسلام نے جو طریقہ بتایا ہے شادی کا اس پہ
عمل کرنا ہے۔امید ہے کہ اس آرٹیکل سے تھوڑی تبدیلی ہم اپنے اندر لا سکتے
ہیں،اور دوسروں کوبھی سمجھا سکتے ہیں۔ شکریہ |
|