برمی مسلمانوں کا سہارا بنئے!

عبدالوارث ساجد
عجب دلخراش منظر تھا۔ آنکھیں نم کر دینے والا ، روح فرساں اور دلخراش۔ کشتی بچوں بوڑھوں اور عورتوں سے بھری پڑی تھی۔ سب کے ہاتھ بلند تھے اور وہ مدد کیلئے پکار رہے تھے۔ ان کے سوکھے جسم تپتی دھوپ میں جھلس گئے تھے۔ تن پر کپڑے نہ تھے اور پیٹ میں کھانا نہ تھا۔ بچے بھوک سے بلک رہے تھے اور عورتیں اپنے جگر گوشوں کو ٹرپتے دیکھ کر آنسو بہا رہی تھیں۔ یہ سب روہنگیا مسلمان تھے۔ وہ جان بچانے کی خاطر کشتی میں لٹے پٹے سوار تو ہو گئے تھے مگر اب ان کی کشتی سمندر کی بے رحم موجوں کے سوا کوئی قبول نہیں کر رہا تھا۔ دنیا بھر کے ساٹھ سے زیادہ مسلمان ملکوں میں سے کوئی بھی ان کو اپنے طرف آنے نہیں دے رہا تھا۔ اگر وہ کسی سرحد کے پاس پہنچتے ہیں تو ان کو کشتیوں سے اترنے نہیں دیا جاتا ہے۔

اگر ان کی کشتیاں بنگلہ دیش کی طرف گئیں تو وہاں کی حکومت نے انہیں اپنی سرزمین پر اترنے سے منع کر دیا یوں ان پر زمین وسیع ہونے کے باوجود تنگ کر دی گئی وہ بے آسرا، بے سہارا، دھوپ تپش اور حبس میں کھلے آسمان تلے سمندر کی لہروں پر رحم تلک نگاہوں سے مسلم بھائیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ اگر ہمارا جرم مسلمان ہونا ہے تو پھر مسلمان ہماری مدد کیوں نہیں کرتے؟

موت کے منہ میں پھنسے یہ روہنگیا مسلمان اگر بدھ مت ہوتے تو یقینا یہ وقت نہ آتا۔ نہ کوئی ان کے گھر جلا کر قبضہ کرتا اورنہ ہی ان کو مارنے کے خوف سے بھگا کر دوکان ہتھیا لیتا۔ اگر وہ کسی بت کے سامنے ہاتھ جوڑ کر عبادت کرنے والے ہوتے تو ان کی عورتوں کی عزت بھی کوئی نہ لوٹتا۔ ان کے بچے مسلم نہ کہلاتے تو آج دودھ کے ایک فیڈر کیلئے بلک نہ رہے ہوتے۔ انہیں اجتماعی طور پر زندہ بھی نہ جلایا جاتا۔ ان کی جائیدادیں ضبط نہ ہوتیں اور وہ جان بچانے کے خوف سے گھر بار قربان کر کے کھلے آسمان تلے مدد کو نہ پکار رہے ہوتے۔

آج ان پر یہ وقت ہے تو ان کا ایک ہی جرم ہے اور وہ ہے مسلمان ہونا۔ وہ اسلام کا دم بھرتے ہیں لہذا بدھ مت ان کو مارتے ہیں۔ زندہ جلاتے ہیں اور اس قدر اندوہناک مظالم کا شکار بناتے ہیں کہ وہ سمندر میں کودنے کو مجبور ہو جاتے ہیں۔

اور اب سے نہیں یہ زمین ان پر نصف صدی سے تنگ کر دی گئی ہے ان پر ظلم کرنے کیلئے تو بہانہ بھی تلاش نہیں کیا جاتا۔ بدھ مت کے پیروکار جب جی میں آتا ہے قتل وغارت پر اتر آتے ہیں۔

افسوس کی بات ہے کہ اس قتل وغارت پر سب مسلم ممالک خاموش ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار چپ ہیں۔ اوآئی سی، اقوام متحدہ، یونیسیف ، ہلال احمر، کوئی بھی تو نہیں کہتا کہ یہ مسلمان تو ہیں مگر انسان بھی ہیں لہذا ان کو زندہ آگ میں نہ جھونکو۔ جانور ذبح کرنے والے آلوؤں سے ان کے گلے نہ کاٹو۔ اتنا ظلم نہ کرو کہ وہ جان بچانے کیلئے در بدر ہو جائیں۔

تین عشروں سے ان پر وقفوں سے یہ ظلم جاری ہے مگر ان کے حقوق کیلئے کوئی ادارہ آواز اٹھانے کو تیار نہیں۔ نہ کسی چوک میں سول سوسائٹی موم بتیاں جلاتی ہے اور نہ کوئی احتجاج کرتا نظر آتا ہے کہ آخر اس قدر ظلم انسانوں پر کیوں؟

دنیا بھر میں بسنے والے انسانوں میں اس قدر مظلوم انسان اس دھرتی پر کہیں نہیں ہیں۔ یہ اپنے گھروں میں نہیں رہ سکتے۔ اگر وہاں رہیں تو آزادی سے جی نہیں سکتے۔ نہ مساجد میں اذان کی اجازت نہ باجماعت نماز کی۔ یہ بھوک سے مر جائیں تو ٹھیک مگر روزہ رکھ کر بھوکے نہیں رہ سکتے۔ان پر پابندی ہے کہ یہ دو سے زائد بچے پیدا نہیں کر سکتے۔ یہ اس قدر مظلوم لوگ کہ نہ مرضی سے جی سکتے ہیں اور نہ مر سکتے ہیں۔ ان کی زندگی بھی بدھشوں کے ہاتھ میں ہے اور موت بھی وہ جب چاہتے ہیں ان پر مسلط کر دیتے ہیں۔
اب ایک بار پھر ان پر موت مسلط کر دی گئی ہے۔ بدھشوں کے ظلموں سے بھاگ کر ہزاروں مسلمان سمندر میں مدد کو پکار رہے ہیں۔ ان کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھیں اپنے رب سے شکوہ کناں ہیں کہ پروردگار آج اگر ہماری یہ حالت اس لئے کہ ہم مسلمان ہیں تو پھر ہمارے مسلمان بھائی کیوں ہماری مدد نہیں کرتے۔ ہمارے بچے دودھ کیلئے بلک رہے ہیں تو وہ اپنے بچوں کو ملک پیک پلاتے کیوں نہیں سوچتے؟ آخر کیوں ان کو ہماری حالت پر ترس نہیں آتا کہ ہمارے گھر جلا دیئے گئے۔ ہمارے باپوں کو کلہاڑیوں سے کاٹ دیا گیا ہے۔ زندہ جلتی آگ میں پھینک دیا گیا۔

پروردگار! ڈنر، لنچ میں ہزاروں کا کھانا ایک فرد کھا رہا ہے پھر وہ ہمیں کیوں چند لقمے نہیں دے سکتا۔ میرے مالک ہزاروں ایکڑ زمین رکھنے والے ہمیں کیوں رب کی زمین پر پاؤں رکھنے نہیں دیتے۔ مالک ہم کب تک موت سے لڑتے رہیں گے کب تک۔ الہٰی اگر ہم مسلمان ہونے کی وجہ سے یہ سب سہہ رہے ہیں تو پھر مسلمان ہی ہماری بے بسی کا تماشا کیوں دیکھ رہے ہیں؟

یہ آہیں التجائیں ہر اس لب پر ہیں جو کشتی پر سوار ہو کر مدد مدد پکار رہی ہیں جن کی نگاہیں صرف اور صرف مسلمان بھائیوں کو تک رہیں ہیں کہ آخر کب تک ان کو ہماری حالت پر ترس آئے گا اور وہ ہماری مدد کو پہنچیں گے۔

آئیے دیر نہ کریں میں اور آپ ان کی مدد کریں۔ صرف ایک وقت کا کھانا دے کر۔ دودھ کا ایک ڈبہ وقف کر کے، پہننے کو ایک سوٹ دے کر، پینے کو پانی کی ایک بوتل دے کر صرف چند روپے سے ان مظلوموں کے دکھ کا مداوا ہو سکتا ہے بڑی سے بڑی مسافت پانچ انچ کے پاؤں سے طے ہوتی ہے آئیے ہم سب یہ قدم اٹھا دیں جماعۃ الدعوۃ پاکستان فلاح انسانیت فاؤنڈیشن ان مظلوم مسلمانوں کی مدد کیلئے پہنچ رہی ہے۔ آئیے ہم بھی ان کے شانہ بشانہ شامل ہو جائیں اپنے مال سے، اپنی زکوٰۃ سے، اپنے صدقے سے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بدھشوں سے جان بچا کر بھاگنے والا مسلمان بھائی ہماری کوتاہی کے ہاتھوں جان دے بیٹھیں وہ ہماری مدد کے انتظار میں بھوک سے مر جائے۔ بچے دودھ کیلئے روتے روتے ماں کی گود میں نہ سو جائیں اور بوڑھے آنسو بہاتے آنکھیں بند نہ کر دیں۔ اس سے پہلے یہ وقت آئے ،آئیے ان کی کشتی کا سہارا بنیں۔
Munzir Habib
About the Author: Munzir Habib Read More Articles by Munzir Habib: 193 Articles with 134535 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.