بسم اﷲ الرحمن الرحیم
پاگل .....یہ لفظ سنتے ہی عجیب قسم کی تصوراتی صورت انسان کے ذہن میں ابھر
کرآجاتی ہے ۔پراگندہ بال،خاک آلود چہرہ،پھٹے پرانے کپڑے،دنیا سے الگ
تھلگ،اپنی مستی میں مست،جدھرمنہ ہوا ،ادھر چل دیا۔جسے نہ اپنی پرواہ،نہ
دنیاکی فکر،نہ بناؤ سنگھارکی چاہت،نہ فیشن میں دلچسپی،غرض کہ اس کی اپنی
الگ دنیا ہی بسی ہوئی ہے۔معاشرے میں جب کسی کو پاگل کہا جائے تویہی چہرہ
ابھر کر سامنے آتا ہے۔مگر جب اس شخص پر نظر پڑتی ہے جس پر یہ جملہ کسا گیا
ہوتا ہے۔ تو نظر آتا ہے کہ وہ تو صحیح سلامت شخص ہے۔ جو اسی معاشرے کا حصہ
ہے۔جو اپنی الگ تھلگ دنیا نہیں بلکہ اسی معاشر ے کا ایک فرد ہے۔ا س کی
چاہتیں بھی باقی لوگوں کی مانند ہیں۔وہ بھی دنیاوی لذتوں سے مستفید ہونے کا
چاہت مند ہے۔مگر وہ کون سی خصلت ہے جس نے اس شخص پر یہ جملہ کسنے پر مخاطب
کو مجبور کیا،ویسے تو کئی صفات ہیں،جو ایک شخص کو دوسروں کی نظر میں
’’پاگل‘‘ بنا دیتی ہیں۔مگر زبان کا بے دریغ ،بے محل ،بے مقصداور غلط
استعمال کرنا جیسی صفات کسی بھی شخص کی شخصیت کو داغدار کر دیتی
ہیں۔’’خاموشی حکمت ودانائی ہے۔(ترمذی :2503)‘‘جو شخص فضول اور بے موقع کلام
سے اپنے آپ کو بچا لیتا ہے،وہ کامیابی کی منزل کو چھولیتا ہے۔
انسان کی زندگی میں کئی ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ دوران مجلس اس کی ظاہری
شخصیت سے اہل مجلس بہت متاثر ہوتے ہیں،ان کے دلوں میں اس کی ہیبت بیٹھ جاتی
ہے مگر جیسے ہی وہ اپنی زبان کو حرکت دیتا ہے اہل مجلس کے دلوں سے اس کا وہ
رعب و دبدبہ فورا ہی کا فور ہوجاتا ہے۔انسان کی بنی بنائی عزت خاک میں مل
جاتی ہے۔چند لمحوں پہلے جو اس کی عزت لوگوں کے دلوں میں تھی،اس کی قدرفورا
ہی جاتی رہتی ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بعض اوقات عمدہ گفتگو اور بر
محل کلام انسان کی عزت کو چار چاند لگا دیتا ہے۔مگر ایسے مواقع کم ہی ہوتے
ہیں۔بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ کثرت کلام سے دوسروں میں اس کی بلے بلے ہوجائے
گی،مگر درحقیقت وہ اپنی رہی سہی عزت کا خود ہی جنازہ نکال رہا ہوتا ہے۔حدیث
مبارکہ میں آتا ہے کہ:’’ بندہ بعض اوقات اپنی زبان سے اﷲ کی رضا کا ایسا
کلمہ نکالتا ہے کہ جس کی وہ کوئی پرواہ نہیں کرتا مگر اﷲ تعالیٰ اس کے
درجات کو بلند کر دیتا ہے،اسی طرح بعض اوقات بندہ اپنی زبان سے بے خبری میں
کوئی کلمہ نکالتا ہے جس کی وہ کوئی پرواہ نہیں کرتا مگر اس کی وجہ سے جہنم
میں جا گرتا ہے۔‘‘(صحیح البخاری: 6478)اس حدیث مبارکہ سے ذمہ دارانہ اور
غیر ذمہ دارانہ گفتگو کرنے والا مراد ہے۔ انسان جب ہر وقت بولتا ہی رہتا
ہے،تو اس کا یہ کثرت کلام اس کے لیے خسارے کا سبب بن جاتا ہے۔انسان کی
زندگی میں کئی ایسے مواقع آتے ہیں کہ انسان کی زبان سے نکلنے والا ایک جملہ
کئی برسوں کی ناراضگی کو امن و آشتی میں بدل دیتا ہے۔بعینہ اس طرح کئی
مواقع ایسے بھی آتے ہیں کہ انسان کی زبان سے نکلنے والے ایک جملے کی وجہ سے
خاندانوں کے خاندان اجڑ جاتے ہیں ،آپس میں نفرتیں پھیل جاتی ہیں۔ اِس سے
ایک کلمہ ،بول اور لفظ کی اہمیت سمجھ آتی ہے۔بعض اوقات انسان سامنے والے کو
مات دینے کے لیے الفاظ کی بھر مار کردیتا ہے، مگر یہی اس کی ہلاکت کا سبب
بنتا ہے۔جیسا کہ علم حاصل کرنا بہت ہی فضلیت والا عمل ہے۔ مگر یہی علم جب
کوئی اس نیت سے کثرت سے سیکھے کہ وہ اس کے ذریعے علماء سے بحث مباحثہ کرے
،بے وقوفوں کو مات دینا مقصود ہو، تاکہ لوگوں کے چہروں کا رخ اس کی جانب مڑ
جائے تو اﷲ تعالیٰ اس شخص کو اس کی اس نیت کی خرابی کی وجہ سے جہنم داخل
کرے گا۔(ترمذی:2655)اسی طرح کوئی کثرت کلام اس وجہ سے کرتا ہے کہ سامنے
والے کو مات دے دے اور لوگوں میں اس کی بلے بلے ہو تو پھرا س کو اپنے انجام
پر خود ہی غور کرنا چاہیے۔کیونکہ اگر وہ اپنی چرب زبانی کی وجہ سے کسی پر
غالب آبھی جائے مگر حقیقت کبھی چھپائے نہیں چھپتی۔سچ کو جھوٹ بول کر جتنا
مرضی چھپایا جائے وہ ایک نہ ایک دن ظاہر ہو ہی جاتا ہے۔کیونکہ جیت ہمیشہ سچ
کی ہوتی ہے۔جھوٹا شخص اپنے اس جھوٹ کے ساتھ ذلیل ہوجاتا ہے۔اس لیے زبان سے
کوئی بھی کلمہ نکالنے سے پہلے غوروفکر کرلیا جائے کہ کہیں اس میں جھوٹ کی
ملاوٹ تو نہیں ۔جو انسان بات ،بات پر جھوٹ بولتا رہتا ہے دوسروں کے دلوں سے
اس کا وقار جاتا رہتا ہے۔وہ لاکھ کسی کو مطمئن کرنا چاہے مگر اس کے کثرت
جھوٹ کی وجہ لوگ اس کی کسی بات کو اہمیت دینا تو درکنار سننا تک گوارا نہیں
کرتے اور وہ انسان سب میں حقیروذلیل ہوجاتاہے۔اس لیے زبان سے کوئی بھی کلمہ
نکالتے وقت پہلے ہزاربار سوچنا چاہیے کیونکہ جب تک کوئی بات آپ کے حلق سے
نیچے رہتی ہے ،وہ آپ کی ہے مگر جب وہ حلق کی حدیں پار کرکے زبان سے کلمات
کی صورت میں نکل جاتی ہے۔ تو اس پر انسان کا اختیار ختم ہوجاتا ہے ۔اس لیے
بعد میں ہزار دفعہ شرمندگی سے بہتر ہے کے انسان زبان سے کوئی کلمہ نکالنے
سے پہلے ہی ہزار بار سوچ لے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا ۔حدیث مبارکہ میں
بغیر دلیل کے کسی بات کو کھنگالنے اور اس پر طرح ،طرح کی کلیات و جزئیات
قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے۔معاشرے میں اکثر کی یہ عادت بن چکی ہے کہ بس
کوئی بات ان کے ہاتھ میں آجائے تو وہ اس کی جب تک بال کی کھال نہ اتار لیں
ان کو چین اور سکون نہیں آتا،گویا کہ ان کے پیٹ میں گڑ بڑ شروع ہوجاتی
ہے۔سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ:’’ کوئی ایسا عمل بتلا ئیں جس
کے ذریعے جنت کا حصول ممکن ہو تو فرمایا کہ ہمیشہ خاموش رہو۔ کہنے والے نے
کہا کہ ایسا تو ممکن نہیں کہ ہمیشہ خاموش رہا جائے ۔فرمایا:تو بھلی بات کے
علاوہ کوئی بھی بات زبان سے نہ نکالنا۔‘‘(احیاء علوم الدین
للغزالی:120/3)انسان بلند مرتبہ گفتار سے نہیں بلکہ کردار سے حاصل کرتا
ہے۔اس لیے خاموشی رہنا فضول گوئی سے ہزار درجے بہتر ہے۔ |