اشتہار بے مہار۔۔۔

کچھ چیزیں زندگی کی ضروریات میں سے ہیں اور بہت ساری چیزیں زندگی کی ضروریات بنادی گئی ہیں بلکہ مسلط کردی گئی ہیں۔گزرے وقت اچھے تھے جب ضروریات محدود تھیں اور باعث سکون بھی تھیں لیکن وقت بدلا اور جہاں سائینس اور ٹیکنالوجی میں اضافہ ہوتا گیا مارکیٹیں بڑھتی گئیں اور مارکیٹینگ کے طریقہ کار میں بھی نت نئے طریقے دریافت ہوئے مختلف کمپنیوں نے روزمرہ کی اشیاء میں اضافہ کیا لیکن وہ کسی کی ضرورت نہیں تھیں پھر اسے لوگوں کی ضرورت بنانے کے لئے طریقے ایجاد کئے بالآخر وہ مارکیٹنگ سٹریٹجی کامیاب ہوئی ایک سے بڑھ کر ایک کمپنی نے اپنی نئی پروڈکٹ نکالی پھر اس کے مقابلے کے لئے دوسری کمپنی کو ایک نئی پروڈکٹ اور نئے طریقے کے ساتھ میدان میں اترنا پڑا اور لوگوں کی جمع پونجی کو بہت ہی مختصر وقت میں حاصل کرلیا گیا۔

اس دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت وافادیت سے کسی کو انکار نہیں ہے اور نہ ہونا چاہیئے موبائل فون ،لیپ ٹاپ،اے سی ،گاڑی یہ تو صاحب حیثت لوگوں پر فرض کی طرح ہی ہوگئی ہے لیکن اس کے علاوہ ماارکیٹ میں سفید پوش یا مڈل کلاس طبقہ کے لئے ایسی مصنوعات لائی جاچکی ہیں جن کا بہت ہی کم فائدہ ہے اور مڈل کلاس طبقہ معاشی طور پر مستحکم نہیں ہوسکتا۔انسانی فطرت ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر بننے کی خواہش رکھتا ہے کردار کے علاوہ بھی انسان خود کو دوسرے کے مقابلے ظاہری طور پر شکل وصورت بھی بہتر اور جازب بنانے کا خواہاں ہیں چاہے مرد ہو یا عورت۔اب اس خوبصورتی عطا کرنے کے بہانے کمپنیوں نے دس سے زیادہ پروڈکٹ مارکیٹ میں بھجوا دیں ہیں ۔ان کی فروخت کے لئے ہمارے پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے متعارف کرایا جاتا ہے ۔صبح سویرے دفاتر یا اپنے کاروبار کے لئے جاتے ہوئے ہمیں شہر کے تمام چوک ان رنگ برنگے اشتہاروں سے مزین نظر آتے ہیں جو بے حیائی کا بہترین منظر پیش کررہے ہوتے ہیں اور ان سے کوئی عالم ِمولانا بھی نہیں بچ سکتا جو جتنا چاہے پرہیز کرتا ہو۔ایک مہذب انسان فیملی کے ساتھ ان اشتہارات کو دیکھتے ہوئے بھی شرم محسوس کرتا ہے۔ایک اسلامی ملک میں مسلمانوں کی بیٹیاں ان چوکوں کی زینت بنی ہوئی ہیں ان کا الزام نہ ہی مغرب پر لگایا جاسکتا ہے نہ ہی بھارت پر ۔

پاکستان قدرتی وسائل سے مالامال ہے اورپاکستان کی معیشت کا دارومدار زیادہ تر زراعت پر ہے ۔بہترین کپاس ہمارے ملک میں ہوتی ہے اور پاکستان میں ہی اعلیٰ سے اعلیٰ کوالٹی کا کپڑا تیار کیاجاتا ہے۔ہم بہترین کپڑے تیار کرواسکتے ہیں ۔جبکہ ہم بازار سے ہی ریڈی میڈ کپڑے خریدتے ہیں جو ہمیں کئی گنا مہنگے دئے جاتے ہیں مثال کے طور پر ایک شرٹ بازار سے خریدتے ہیں اگر وہ لوکل برانڈ کی ہے تو ایک ہزار روپے سے زیادہ کی ملتی ہے اور اگر اسپیشل قسم کا نام نہاد امپورٹڈ برانڈ خریدتے ہیں جو دوہزار روپے سے لے کر پانچ ہزار میں ملتی ہے اور اس امپورٹد برانڈ کے ایک سٹکر پر ہی اتنی رقم خرچ کرتے ہیں جبکہ اگر بازار سے بہترین کپڑا خریدا جائے اور اچھے ٹیلر سے اس کی سٹیچنگ کرائی جائے تو وہ شرٹ ہم ایک ہزارروپے سے پندرہ سوروپے میں بنوا سکتے ہیں لیکن ایسا کرنا ہمیں کچھ دشوار لگتا ہے اور یہ سارا پیسہ ان اشتہارات کی بدولت ان نام نہاد امپورٹڈ قسم کی کمپنیوں کو ادا کرتے رہتے ہیں۔

حکومت کا ان پر چپ سادھے رہنا تو الگ بات ہے افسوس کی بات یہ ہے کہ اس غریب قوم کا پیسہ بھی ان اشتہارات کی نظر کرنے والی حکومت ہی ہے۔آپ ہرروز اخبارات اٹھا کے دیکھ لیں یا ٹی وی چینل پر دیکھیں تو کمپنیوں کی پروڈکٹ کے علاوہ حکومتی پروڈکٹ کے اشتہار شہ سرخیاں بنے ہوتے ہیں ان حکومتی پروڈکٹ میں عام طور پر میٹرو بس،محکمہ صحت،محکمہ جنگلات،محکمہ مذہبی امور،توانائی کے نامکمل ہونے والے ناکام منصوبے،کسی ملک سے ہونے والے اقتصادی معاہدے اور ہمارے تمام محکموں کے وزراٗ کی تصاویر اخبارات کے فرنٹ ،بیک اور اندرون صفحات کے ٓدھے سے زیادہ حصے پر شائع ہوئی ہوتی ہیں۔مجھے افسوس ہوا ایک دوست اتوار کا اخبار بغرض تلاش ملازمت لے کر آیا اور اخبار پڑھتے ہوئے ایک ہمارے وزیر خاص کو کوسنے لگا میرے پوچھنے پر اس نے مجھے اخبارات کے صفحات دکھائے جس میں ایک وزیر خاص کے آٹھ اشتہارات ان کی تصویر کے ساتھ شائع تھے نہایت افسوس ہوا کہ جہاں ملک کی قوم بھوک کے مارے تڑپ رہی ہو ترقی ہوتی ہوئی کہیں نظر نہ آرہی ہو اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان روزگار کے لئے دھکے کھارہا ہو اور اس ملک کے وزیر اپنی نمائش کے لئے روزانہ کروڑوں ضائع کررہا ہو۔
Muhammad Shahid Yousuf Khan
About the Author: Muhammad Shahid Yousuf Khan Read More Articles by Muhammad Shahid Yousuf Khan: 49 Articles with 40792 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.