بچے معصوم ہوتے ہیں ناداں ہوتے
ہیں تعلیم رفتہ رفتہ انہیں عرفان بخشتی ہے اور ان میں اچھے بُرے کی سمجھ
بوجھ پنپتی ہے ایسا تب ہوتا ہے جب انہیں علم کے زیور سے آراستہ ہونے کے
مواقع فراہم کیے جائیں لیکن الٹی گنگا بہتی ہے نو عمر بچوں کو سخت مشقت و
محنت کشی کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے مہنگائی کے ہاتھوں تنگ محنت کش طبقہ
اپنے جگر گوشوں کو اس ناسور میں جھونک دیتا ہے نازک پھول صحت پر مضر اثر
مرتب کرنے والے کارخانوں میں رگڑائی کٹائی جیسے مشکل کام سرانجام دیتے ہیں
اور دیگر ناہموار محنت کشی کا ذمہ بچے کے نوعمر جسد پرڈال دیا جاتا ہے اور
ماں باپ کی کفالت حالات کی تنگی جیسی سوچ بچے کو چپ چاپ کام کرنے ظلم سہنے
کا عادی بنادیتی ہے اور نامسائد پیچیدہ مشکلات ذہنی پریشانی کو مزید توقیت
دیتے ہیں پر کیا کیجیے کہ این جی اوزآواز تو بچوں کو اس دقت و بدحالی سے
نکالنے کی بلندکرتی ہیں لیکن بہت کم اہم تنظیمیں ایسی ہیں جو ابتری کو
برخاست کرنے کے لیے فعال نظر آتی ہیں جبکہ این جی او چلانے کو بطور ایک
کاروبار استعمال کرنے والے بے ضمیر لوگوں کی کمی نہیں ہے لیکن فلاحِ
انسانیت فاوُنڈیشن،سندس فا وُنڈیشن،محمودہ سلطانہ فاوُنڈیشن اورسیلانی
ویلفیر جیسی صفِ اول کی این جی اوز فلاحی کاموں میں پیش پیش ہیں ۔حکومتی
سطح پر بھی بچوں کو تعلیم سے سرفراز کرنے کی بات کی جاتی ہے بچوں کو سکول
نہ بھیجنے والے والدین کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کی مہم کا آغاز کردیا
جاتا ہے لیکن غربت ختم نہیں کی جاتی البتہ غریب کو ختم کرنے کی سعی کی جاتی
ہے وزیرِاعلیٰ شہباز شریف کچھ ماہ پہلے سڑکوں سے مزدور بچے ختم کرنے کاوعدہ
کیا تھا جو وفا نہ ہوسکا اور بھی دیگر مقامات پر بچوں سے محنت کشی کو روکنے
کے لیے اقدامات اٹھانے کا کہا گیا مگر عملدرامد نہ ہوسکا بڑے پروجیکٹس کا
اہتمام کیا گیا پر ان کی کارگردگی ناقص ہے۔ 12جون چائلڈ لیبر کے خلاف منایا
جانے والا روز جب بچوں سے سخت مشقت کروانے کے خلاف ریلیاں نکالی جاتی ہیں
مگر اس دن کے گزرتے ہی سِول سوسائٹی کے وہی ایکٹیو لوگ چھوٹے چھوٹے بچوں سے
اپنے بچوں کے اسکول بیگ اٹھواتے ہیں اور انڈسٹریلسٹ بھی کم عمر بچے ہائر کر
کے ان سے انتہائی محنت طلب کام کرواتا ہے ۔ہمارے ہاں معمہ یہ ہے کہ جو نصاب
کی کتابیں ایک طالبعلم ایک وسائل سے بھرپور ماحول میں پڑھتا ہے ویسی ہی
کتابیں کتب فروش کی دکان میں ایک ملازمت پیشہ بچہ اپنے کندھوں پر بوجھ کی
صورت میں اُٹھاتا ہے۔اقوامِ متحدہ تو ویسے ہی محض دن منانے پر زور دیتا ہے
اور انسانی اصلاح کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتا مگر بیان بازی میں سخت
موقف اختیار کیے رکھنا ان کا شعار ہے اور ہم بھی اتنے بے حس ہیں بڑھ چڑھ کر
ان دنوں کو مناتے ہیں دنوں کو کسی ایشو سے موسوم کردینا کونسہ مسئلۂ کا حل
ہے؟۔سیمینار منعقد ہوتے ہیں اپنی فیاضی جھاڑنے کے لیے مقررین مختلف تمہیدیں
باندھتے ہیں لیکن افسوس صدافسوس کہ ہمارا ہر کام صرف باتوں تک ہی محدود
رہتا ہے اور مذکورہ دن گزرتے ہی تمام وائبرینٹ لوگ عمل تو دور اس پر ایک
سال تک دوبارہ بات بھی نہیں کرتے۔ 2015-16 بجٹ آیا اور اس میں کوئی سبسڈی،
ریلیف کا تذکرہ تک نہیں تھا ، غریب اشخاص کو 13ہزار ماہانہ میں گھر یلو
اخراجات کا پلان ملا یہ بات کہتے زبان اُکتا گئی ہے کہ امرء اس قلیل آمدن
میں اپنے اخراجات کسی طریقے سے بھی پورے کر کے دکھائیں معاشی تنگدستی ہی
والدین کو اس نہج پر لا کھڑا کرتی ہے کہ وہ اپنے کُل اثاثے کوزمانے کی
ٹھوکروں کے سامنے ڈال دیتے ہیں۔ایک طرف بچوں کو بہتر تعلیم مہیاء کرنے کے
دعوے دار بنے پھرتے ہیں بچوں سے نوعمری میں مشقت کے مخالف ہیں لیکن غریب کے
لیے منصوبہ بندی نہ ہونے کے مانند ہے۔ہوٹلوں میں چھوٹی دُکانوں میں انتہائی
کمسن بچے دوسروں کی خدمت کرتے ہیں جس عمر میں ان کے ہاتھ میں قلم پکڑایا
جانا چاہیے اس عمر میں ان سے خدمت گزاری کروائی جاتی ہے۔ لیڈران کی بے حسی
کے باعث نسلیں جاہلیت کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں اور غربت آنے والی نسلوں کو بھی
لکھنے پڑھنے سے دور کردیتی ہے بقول یونیسکو رپورٹ کے پاکستان چائلڈ لیبر
میں دوم نمبر پر ہے کتنا شرم کا مقام ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو اور دیگر
اداروں کی بہترین کارکردگی کے باوجود ہم کہاں کھڑے ہیں۔سڑکوں پربھکاریوں کی
بھرمار نظر آتی جن کے پیچھے مختلف مافیا سرگرم ہیں جو معصوم بچوں سے بھیک
منگواتے ہیں اور ایک بڑی رقم روزانہ کی بنیاد پر اکٹھی کرتے ہیں اور بے ضرر
لوگ ان بھولے ننھے بچوں پر ترس کھا کر انہیں رقوم دیتے ہیں انہیں کے حقیقت
سے باخبر سی ٹی او لاہور طیب حفیظ چیمہ نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ گدا
گروں کی حوصلہ شکنی کریں اور انہیں خیرات دینے سے اجتناب کریں جسٹس چیمہ کے
صاحبزادے طیب حفیظ چیمہ نے اپنی کاوش سے کئی نوعمر بچے چائلڈ پروٹیکشن
بیورو پنجاب کے حوالے کیے ہیں اور ایسے تمام معاملات جو ملک کی ساکھ میں
بہتری کا سبب بنیں ان میں جانفشانی دکھائی ہے سیف ہاوُس کے بلاسٹ ہونے سے
جسٹس چیمہ کا گھر متاثر ہوا لیکن انہوں نے کسی سے کوئی شکوہ نہ کیا وہ مکمل
طور پر حب الوطنی سے سرشار ہیں۔کڑی دھوپ میں بچوں سے دشوار کام کروائے جاتے
ہیں اوران کی بدنصیبی یہ کہ ان کے والدین کو ان کا انتہائی کم معاوضہ ادا
کیا جاتا ہے مگر شعور کی کمی ان کے والدین کو غور نہیں کرنے دیتی کے وہ
اپنے چھوٹی عمرکے حامل فرزند کو بھیانک محنت سے آزاد کر کے انہیں تعلیم سے
آشنا کریں ۔رمضان کی آمد آمدہے حکومتِ وقت کو چاہیے کہ زکوۃ میں پیش رفت لے
کر آئے اور ایسے وسائل فراہم کرے کہ مفت تعلیم صرف پرچار تک ہی نہ رہے بلکہ
سچ میں بدلے اور تعلیم کے حصول سے بچے محروم نہ رہیں والدین کو اپنی کفالت
کے لیے بچوں کی تعلیمی سرگرمی حذف نہ کرنی پڑے۔ |