محنت کش بچوں کے عالمی دن12 جون
کے حوالے سے ایک چشم کشا تحریر
یہ بات کب سے کہی جا رہی ہے کہ تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے اسلئے کسی بھی
بچے کو تعلیم کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی
کروڑوں بچے تعلیم سے دور ہیں اور محنت مزدوری کر رہے ہیں ایسا کرنا ان کی
مجبوری ہے ۔محنت کش بچے کوئی پیدائشی محنت کش بچے نہیں ہوتے ان کی شکلیں
بھی ایسی ہی ہوتی ہیں جیسی دوسرے پڑھنے والے بچوں کی، لیکن صرف وسائل نہ
ہونے کی وجہ سے وہ معاشرے میں ’’چھوٹے ‘‘ بن جاتے ہیں۔کتنا بے حس دور ہے کہ
ہمارے پاس ہوٹلوں ،ورکشاپوں، کوٹھیوں،گاڑیوں کے اڈووں،چوکوں و چوراہوں و
دیگر مقامات پر یہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے ساتھ جو ظلم ہو رہا ہے ہم کو
نظر نہیں آتا ۔ ان معصوم بچوں کا کیا قصور ہے کہ پورا معاشرہ انہیں
''چھوٹا'' کہہ کر پکارتا ہے ۔اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے انٹر نیشنل لیبر
آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے زیرِ انتظام ہر سال 12 جون کو بچوں سے جبری
مشقت کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے ۔سال2002 سے اس دن کے منانے کا آغاز
ہوا ۔اس دن پورے ملک میں مختلف این جی اوز،کالجز ،سکولز،یونیورسٹیز،سول
سوسائٹی و سماجی تنظیموں کی طرف سے مختلف تقریبات کااہتمام کیاجاتا ہے
،سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں ،کالم و آرٹیکل لکھے جاتے ہیں،ٹی وی پر
پروگرام کیے جاتے ہیں تا کہ محنت کش بچوں کے مسائل کوحکومت و دیگر ذمہ
داران تک موثر طریقے سے پہنچایا جا سکے ۔ہمارے ہاں بچوں کے ڈے منانے کی
تقاریب کو فیشن کے طور پر اپنایا جاتا ہے ،نمائش کی جاتی ہے لیکن بچوں کے
حقوق کی باتیں کرنے والے یہ سب تقریبات فائیوسٹار جیسے بڑے ہوٹلز میں مناتے
ہیں اس سے چائلڈ لیبر کے خاتمے کا مقصد کیسے پورا ہو سکتا ہے ۔یہ مقصد اس
ملک کے غریب نادار بچوں کا مستقبل بہتر بنائے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ صرف
ڈے منانے سے بچوں کے برے دن دور نہیں ہونگے ۔ایک بین الاقوامی ادارے کی
سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ 10لاکھ بچے مزدوری کرنے پر مجبور
ہیں ۔(علم نہیں یہ بین الاقوامی ادارے نے رپورٹ کیسے تیار کر لی جس ملک میں
مردم شماری نہ ہوئی ہو ،کوئی واضح سروے نہ ہوا ہو،جہاں علم نہیں کتنے ہوٹل
،اینٹوں کے بھٹے ،ورکشاپس ہیں ،وہاں مزدور بچوں کی درست تعداد کا کیسے
اندازہ لگایا جا سکتا ہے )غریب خاندان اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اپنے
معصوم بچوں سے بوٹ پالش کے کام سے لے کر ہوٹلوں،چائے خانوں، ورکشاپوں،
مارکیٹوں،چھوٹی فیکٹریوں ،گاڑیوں کی کنڈیکٹری،بھٹہ خانوں،سی این جی اور
پٹرول پمپوں پر گاڑیوں کے شیشے صاف کروانے سمیت دیگر بہت سے ایسے کام 50یا
100روپے کی دیہاڑی میں کروانے پر مجبور ہیں ۔ مہنگائی اور بے روزگاری کی
وجہ سے بہت سے غریب خاندانوں کواپنے بچے محنت و مشقت پر لگانا ان کی مجبوری
بن چکا ہوتا ہے۔ بدترین غلامی (نیا نام نوکری مزدوری )کے حوالے سے پاکستان
167 ملکوں کی فہرست میں تیسرا بڑا ملک ہے ۔ پاکستان میں 66 فیصد کمسن محنت
کش ہفتے میں 35 گھنٹوں سے زیادہ کام کرتے ہیں اور ان کو ملنے والی مزدوری
انتہائی قلیل ہوتی ہے ۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی چائلڈ لیبر کے
قانون بنے ہوئے ہیں ،ایک تو ان پر عمل نہیں ہے دوم یہ کہ ان قوانین کی خلاف
ورزی کرنے پر اب تک کسی کو سزا نہیں سنائی گئی اور سب سے اہم بات ان وجوہات
کا خاتمہ نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے معصوم مزدوری کرنے پر مجبور ہیں،ان
وجوہات کا خاتمہ کرنا کس کی ذمہ داری ہے صاف بات ہے کہ اس کی ذمہ دار حکومت
ہے ،اب حکومت اگر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی تو اس کو سزا کیا ہے ،سزا
دینا کس کے اختیار میں ہے ۔یہاں یہ سوال ا ٹھتا ہے کہ کیا ایسے قانون کو
آئین سے ختم ہی نہیں ہو جانا چاہیے جس پر کبھی عمل ہوا بھی نہیں اور نہ ہی
عمل ہونے کی کوئی امید ہو ۔بحرحال چائلڈ لیبر کا خاتمہ پورے پاکستان سے
ہونا چاہئے ،جیسا کہ لکھا ہے ان وجوہات کا خاتمہ کیا جائے ۔پاکستان میں
پچھلے 67سالوں سے قائم موجودہ عوام دشمن نظام کی وجہ سے تین کروڑ سے زائد
بچے سخت مشقت کرتے ہیں۔3فی صد جاگیر دار اور سرمایہ دار طبقے نے 97فی صد
پاکستانی عوام کے حقوق چھین رکھے ہیں،میرے پاکستان میں 9 سال کے معصوم بچے
سے لے کر 90 سال تک کے ضعیف مرد و خواتین بھی اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے یا
اپنے خاندان کی کفالت کے لیے دن رات ایک کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ اس کی
وجہ غربت اور مفلسی کے علاوہ اور کیاہوسکتی ہے ؟ان معصوم بچوں کو سکول جانے
کی بجائے محنت مزدوری کرنا پڑتی ہے وہ بھی وہ بھی انتہائی کم اجرت پر
،سارادن عزت نفس گنوا کر کام کرتے ہیں ،اگر کو ئی صاحب دل ان کوسارادن کام
کرتے دیکھے ،ان کی مجبوریاں سمجھیں ،احساس کریں تو دل بھر آتا ہے ۔ اشکوں
سے تر ہے ہر اک پھول کی پنکھڑی رویا ہے کون تھام کے دامن بہار کا
آپ کسی بھی مزدور بچے کو ملیں ان میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے ۔وہ ہے غربت
اور جہاں غربت ہو وہاں بیماری بھی ہوتی ہے ۔ ،چائلڈ لیبر پر بڑی بڑی باتوں
کرنے والوں کو نہ ہی کل یہ وجوہات نظر آتی تھیں نہ آج آتی ہیں ہاں یہ بچوں
کے عالمی دن منا سکتے ہیں اس پر بڑی بڑی تقاریر کر سکتے ہیں حقیقت میں
ہمارے معاشرے میں ایسے سینکڑوں بلکہ ہزاروں " ماجو " بالا " چھوٹے "چھیدا "
کاکا " نظر آئیں گے جن کی کائنات گھر کی دہلیز سے شروع ہوتی ہے ہوٹلوں،
ورکشاپوں، دکانوں اور ہوٹلوں کے گرد گھومتی ہے ۔، میری دھرتی کے یہ پھول
ساری زندگی سسک سسک کر جیتے مرتے ہیں اور اسی مٹی کی آغوش میں سو جاتے ہیں۔
اسی طرح جب چائلڈ لیبر ڈے کے موقع پر ہمارے ملک کے صدر اور وزیر اعظم اور
دیگر بہت سے وزرا کی جانب سے ایک بیان آ جاتا ہے کہ ہم چائلڈ لیبر کا خاتمہ
کر دیں گے ۔ ہمارے حکمرانوں ( صاحب اختیار )کو تصویر کا دوسرا رخ بھی ذہن
میں رکھنا چاہئے کہ اس ملک کے اندر لاکھوں چھیدے ، بالے ، چھوٹے اور کاکے
کی تقدیر کا قلم ان ہی کے ہاتھ میں ہے اور بچوں کے لئے چائلڈ لیبر کے عالمی
دن کے موقعے پر ان کے حقوق کے لئے چائلڈ لیبر پالیسیاں بنا دینا یامحض
دکھاوے کے لئے تقریبات منعقد کر کے فارمیلٹی پوری کر دینا اور کہہ دینا کہ
غربت کے خاتمے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں وغیرہ ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ
ایک دن ان سے اس کا حساب لیا جائے گا ۔ ایسے لاکھوں بچے دن رات سخت سردی یا
پھر گرمی میں ننگے پاؤں اپنی تقدیر کی چکی میں پستے ہیں ۔،بھوک مٹانے کے
لیے محنت کرنا ان کا مقدر ہے ۔ اس دھرتی کے یہ معصوم پھول زمانے سے سہولتیں
نہیں مانگتے صرف جینے کا حق مانگتے ہیں۔ تن ڈھانپنے کے لئے چیتھڑے بیمار
ماں ،باپ کی دوائی یا پھر گھر کا راشن ہی ان کی زندگی کا ماٹو ہے ۔اس مرتبہ
چائلڈ لیبر کے عالمی دن کے موقع پر کاش ایسا ہو جائے کہ کوئی مسیحا آئے۔۔۔
جو ان کی زندگیوں میں خوشیاں اور خوشحالی لائے۔۔۔روشنی لائے۔۔۔علم کی
روشنی۔۔۔عمل کی روشن۔۔۔محبت کی روشنی۔۔۔اور سب سے بڑھ کر پیٹ بھر کر روٹی
۔۔۔ان کے لیے کپڑے اور سر چھپانے کے لیے ایک چھت مل جائے ۔۔۔صرف باتیں نہ
ہوں اس سال کاش ایسا ہو جائے۔۔ ۔کہ باتوں پر اور جو آئین پاکستان میں بچوں
کے حقوق لکھے ہیں ان پر عمل بھی ہو جائے ۔۔
|