عورت کو زندہ دفن کرنا……!

زندگی بسرکرنا مشکل ہوگی ان دونوں کے لیے چونکہ شادی ایسے وقت میں کرائی گی جب کہ لڑکی اس سے نفرت کرتی تھی اور یہ سب کچھ زمانہ جاہلیت کی عادات و تقالید کا نتیجہ تھا کہ ماں باپ اپنی بیٹی پر جبر اً اس شخص سے شادی پر مجبور کیا کہ جس کو وہ پسند نہیں کرتی تھی۔جس کے نتیجہ میں دونوں کی زندگی اجیرن ہوگی ،ایسے لگتاتھا کہ وہ کوئی لونڈی یا باندی ہے جس کو بازار سے خریدا گیا ہوکیوں کہ وہ غلاموں جیسے سلوک سے گذر رہی تھی خاص طور پر جب وہ یہ جان چکا تھا کہ اس کے باپ نے اسے زبر دستی شادی پر مجبور کیا۔وہ اسے سخت سردی کی راتوں میں کپڑے دھونے کا حکم دیتا اور کہتا کہ میں کل اسے پہنوں گا۔رات گئے جب گھرلوٹتا تو بیوی سورہی ہوتی تو اس کو جگاکربیدار کرتا کہ وہ اسے کھانہ پیش کرے باوجود اس کے کہ وہ یہ جانتا تھا کہ دن بھر کام سے تھکی ہوئی ہے۔جب دوپہر کے وقت گھرآتا اور کھانا تیار نہ ہوتاتو بیوی کو اس کے معصوم بچوں کے سامنے پیٹتا ،ماں کے پٹنے کے سبب بچے چیختے اور چلاتے۔اس امتیازی و جابرانہ سلوک کی جب اس نے اپنے باپ اور چچا کو شکایت کی تو انہوں نے اسے دلاسہ دلانے کی بجائے یہ کہا کہ بیوی اپنے گھر سے شوہر کی اجازت کے بغیر نہیں نکل سکتی۔باپ نے بیٹی کو بغیر اس کے شوہر سے بیوی کے ساتھ حسن معاملہ کارویہ اختیار کرے۔بلکہ بیٹی کو اس کے بچوں سمیت اس کے گھر کے باہر چھوڑے بغیر کسی سہارے چھوڑ کر گاؤں پلٹ گیا ۔اور لڑکی کی ماں سے شکایت کرنے لگا کہ تم نے اپنی بیٹی کی درست تعلیم وتربیت کا انتظام نہیں کیا ،اس کو یہ تعلیم نہیں دی کہ وہ کیسے زندگی بسر کرے شوہر کے ساتھ ،توکیسی تربیت دیتی ہے اولاد کو اس کے ساتھ ہی والدہ پر الزامات کے نشتر برسائے۔

وہ اپنے گھر کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی جبکہ شوہر کی ڈانٹ سے ڈرو خوف کے باعث اس کا دل دھڑک رہاتھا ۔ شوہر نے دروازہ کھولا اور غضب و غصہ کے ساتھ کہنے لگا کہ کیا تیرے ابو نے تمہیں انصاف دلادیا؟کیا تم نے مجھے بتایا تھا قبل گھرسے نکلنے کے؟قبل اس کے کہ وہ جواب دیتی شوہر نے اس کو پیٹنا شروع کردیا یہاں تک کے اس نے پوری قوت کے ساتھ اس کے چہرے پر ایسا تھپڑ رسید کیا کہ اس کے منہ سے خون بہہ نکلا ظالم شوہر نے اس پر بھی بس نہ کی بدستور اس کو پیٹتارہا اور بیوی چیخ رہی تھی اور اس کے بچے اپنی والدہ کی اس حالت کو دیکھ کر چیخ و چلا رہے تھے۔ان کے اس رونے اور چیخنے کی آواز سن کر پڑوسی ان کے مابین بج بچاوکرانے کے لیے نکل آئے۔اس غم و الم اور رونے کی حالت میں رات بسر کی اور بچے بھی ماں کے ساتھ آہ وبکا کرتے سوگئے اور صبح ہوگی ۔

شوہر کام پر چلاگیا اور جب اس بات کی تسلی کرلی پڑوسن نے کہ اس کا شوہر کام پر جاچکا ہے وہ اس کے پاس آئی اور اس نے اس سے پوچھا کہ کیوں پیٹا؟ اس نے اور کیوں جھگڑ رہے تھے رات؟ اور اب طبیعت کیسی ہے اس کی ؟اور اس کے ماں باپ کا مؤقف پوچھا اس حالت کے بارے میں؟اس نے بتایا کہ اس کے گھر والوں نے اس کے ساتھ قطع تعلقی اختیار کرلی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ شادی کے بعد لڑکی کا کوئی حق نہیں باپ کے گھر میں ،اور شوہر کو مکمل حق و اختیار ہے کہ وہ جیسے چاہے معاملہ روا رکھے بیوی کے ساتھ۔پڑوسن اس کے گھر سے اپنے آنسوکو چھپاتے ہوئے باہر نکلی اور وہ چاہتے ہوئے بھی اسے یہ مشورہ نہ دے سکی کہ اس سے طلاق مانگ لو اور اپنے گھر لوٹ جاؤکیوں کہ یہ زندگی جہنم کی زندگی سے مختلف نہیں ہے اور یہ شوہر بداخلاق ہے اس کے ساتھ زندگی بتانا محال و عبث ہے۔پڑوسن نے روتے ہوئے اس سارے احوال کا ذکر اپنے شوہر سے کیا اور اس سے کہا کہ وہ اس کے شوہر سے بات کرے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ حسن معاملہ کو اپنائے اور اس کو بچوں کے سامنے سب و شتم یا مار پیٹ کا معاملہ ترک کرے کیوں کہ اس کے بچوں پر برے اثرات مرتب ہوں گے مگر اس کے شوہر نے کہا کہ ہم لوگوں کے داخلی و ازدواجی مسائل میں مداخلت نہیں کرتے اس کے خاندان و گھر والوں کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کی خبر گیری کریں اور اس کی پریشانی و اذیت سے گلو خلاصی کا انتظام کریں۔

جب حالات مزید بگڑے تو لڑکی نے اپنے گھر والوں کو فون کیا اور اسے لیجانے کی خواہش ظاہر کی مگر باپ نے کہا کہ تم اپنی زندگی وہیں بسر کروجیسے بھی ہو اور یہ اﷲ کی طرف سے تمہارا مقدر ہے۔جب کہ بچے اضطراب و عدم اطمنان کی کیفیت سے دوچار تھے کہ یہ سب کیا ہورہاہے جب کہ لڑکی کی زندگی دن بدن تاریک تر ہوتی جارہی تھی یہاں تک کہ وہ چاہتے ہوئے بھی نہیں بھولا پارہی تھی کہ شوہر نے اسے اس لیے پیٹا کہ جورابیں صاف نہ ملی ،اور کپڑے استری ہوئے نہ تھے ،وہ نہیں بھول پارہی تھی کہ اس کو والدین کی زیارت اور اقربا کے ہاں جانے سے منع کردیا گیا تھا۔وہ یہ بھی نہیں بھول پارہی تھی کہ اس کے بچے اس باپ کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے معصومانہ کوششیں کرتے تھے۔مرور زمانہ کے ساتھ اس غم و الم کے سبب وہ فالج کے مرض میں مبتلا ہوکر ہسپتال میں داخل ہوگئی اور مرض میں بدستور اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کے وقت مرگ یقینی ہوگیا ،جب پڑوسی کو معلوم ہوا تو وہ ہسپتال آئے اور ڈاکٹر سے ملے تو ڈاکٹر نے کہا کہ اس کے گھر والوں کو بتاؤ آجائیں اس کا وقت آخیر آن پہنچا ہے وہ زیارت کرلیں آخری۔پڑوسیوں نے اس کے گھر فون کیا اور انہوں نے بتایا کہ بیٹی آپ کی موت و حیات کی کشمکش میں ہے اور اس کی زیارت کرلیں تو اس کا باپ اپنے بیٹے کے ساتھ بیٹی کی آخری زیارت کے لیے روانہ ہوا،جب کہ خود باپ نے ہی جبر و ظلم کے بل پر شادی کے لئے مجبور کیااور اس کے شوہر نے اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا اس پر ظلم جور کے پہاڑ ڈھائے اور اس کو ضرب و شتم کے ساتھ اس کی اہانت کی ۔باپ و بیٹا جب ہسپتال کے دروازے پر پہنچے تو انہوں نے بیٹی کے بچوں کو زمین پرروتے ہوئے پایادادے نے چاہا کہ ان بچوں کو اپنے سینے سے لگائے مگر بچوں نے جانے سے انکار کیا اور دوڑ کر اپنی ماں کے کمرے میں چلے گئے ،ان کی ماں موت کے فرشتے کی منتظر تھی ،ماں نے دیکھا کہ بچے اس کے قدموں سے چمٹ کر رورہے ،بڑے بچے نے اپنی ماں کے پاؤں کو چومتے ہوئے آسمان کی طرف چہرہ کرکے ماں کی زندگی کی دعا کرنے لگا کہ اﷲ ان کی والدہ کو حیات بخش دے۔

پڑوسیوں نے اس کے شوہر سے بات کی کہ بیوی تمہاری موت و حیات کی کشمکش میں ہے وہ فالج کے حملے کے سبب نہ تو حرکت کر سکتی ہے اور نہ ہی وہ بات کرنے کی طاقت رکھتی ہے لہٰذا اس کے علاج کا انتظام کرو مگر اس نے جواب دیا کہ میں کیا کرسکتاہوں اس کے لئے اﷲ ہی زندگی دیتا ہے اور موت،اور بے رغبتی وبے حمیتی کے ساتھ کہنے لگا کہ اگر اس کی قسمت یا مقدر میں زندگی ہے تو زندہ رہے گی اور اگر موت اس کا مقدر ہے تو کوئی ٹال نہیں سکتا،میں تو یہ سوچ رہاہوں کہ اس کے بعد میرے بچوں کا خیال کون رکھے گابدیہی بات ہے کہ میں دوسری شادی کروں جو بچوں کو تربیت دے سکے۔پڑوسیوں نے اسے چھوڑ کر وہاں سے چل دیے،جب کہ وہ خود اتر کر گاڑی میں بیٹھ کر اپنے دوستوں کے پاس چلاگیااور ان کے ساتھ عیش و عشرت اور لہو لعب میں وقت گذارنے کے بعد رات گئے ہسپتال آیا کہ بچوں کو گھر لے جائے اور بچوں سے کہا کہ گھر چلو!وہ ماں کو تنہانہیں چھوڑنا چاہتے تھے اور وہ آہ و بکا کررہے تھے ماں کی حالت کو دیکھ کر ،ایسے میں بیمار ماں کے کمرے سے آواز آئی بچوں نے محسوس کرلیا تھا کہ ان کا باپ ان کو جلد طلب کرنا چاہ رہاہے گاڑی میں بیٹھنے کے لئے۔لیکن بچوں نے دیکھا کہ ان کی ماں آخری سانسیں لے رہی ہے اور تڑپ رہی ہے اور اپنے بچوں کو دیکھ کر مسکرابھی رہی ہے ۔۔۔۔اچانک حرکت روک گئی اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ماں فوت ہوگئی غم و الم اور اپنی زندگی سے مایوس ہوکر کیوں کہ اس کے باپ نے بازور قوت اس آدمی سے شادی پر مجبور کیا جو دین کی تربیت سے نابلد تھا ۔اس کی موت کی ذمہ دار پہلے درجے میں باپ ہے کیوں کہ اس کی حفاظت کو انجام نہیں دیا اور دوسرے درجے میں اس کا شوہر ہے جس کو اﷲ سے ادنیٰ درجے کا خوف وڈر نہ تھا۔اگر چہ اس طرح کے واقعات کا ظہور شہروں میں کم ہے اور دیہات و گاؤں میں اس طرح کے امور کاکثرت کے ساتھ سامنا کرناپڑتاہے،اس کے ساتھ ہم علماء کرام کے کردار سے بھی نا آشنا ہیں جب کہ یہی حضرات مساجد میں خطبات دیتے ہیں ۔معلوم یہی ہوتاہے کہ وہ معاشرتی حقوق پر بات کرنے سے بے اعتنائی اور اجتناب کرتے ہیں جیسے کہ یہی مسائل کسی اور دنیا کے ہوں۔

زمانہ جاہلیت میں باپ اپنی بیٹیوں عار اہانت کے خوف سے قتل کرتے تھے ،اور اگر سن لیتا کہ اس کے گھر بچی پیدا ہوئی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتاتھا۔جیسے قرآن مجید میں مذکور ہے کہ ’’جب اس کو بتایا جاتا کہ اس کے ہاں بچی پیدا ہوئی ہے تو شدت کراہیت کے سبب اس کے چہرے کا رنگ سیاہ پڑجاتاتھا،وہ بچی کو اپنے پاس ذلت کو قبول کرتے ہوئے اختیار کرلے یا پھر اس کو زمین میں دفن کردے،کیسا برا فیصلہ ہے‘‘ ہم یہاں پوچھتے ہیں کہ کیا معنی ہیں نبی کریم ؐ کے اس قول کے کہ’’میں تمہیں عورت کے ساتھ خیر کی وصیت کرتاہوں وہ تمہارے پاس امانت ہیں‘‘؟!!زمانہ جاہلیت تو گذر گیا اور مٹ چکا مگر لوگ آج بھی عورت کو زندہ رہنے کا حق نہیں دیتے۔
Dr Khalid Fawad Alazhari
About the Author: Dr Khalid Fawad Alazhari Read More Articles by Dr Khalid Fawad Alazhari: 22 Articles with 18836 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.