بچے پھول کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ان
کے معصوم چہرے سورج کی پہلی کرن سے مشاہبت رکھتے ہیں۔ جو معاشرے کی ایک
انتہائی معصوم اور حساس پرت ہوتے ہیں ۔معاشرے کا ہر فرد بچوں سے پیار کرتا
ہے۔ بچوں کی موجودگی سے گھروں میں رونق ہوتی ہے اور جنہیں پڑھ لکھ کر ملک
کے مستقبل کا معمار بننا ہوتا ہے ۔ یہی معصوم پھول ڈالی سے ٹوٹ کر گلیوں کی
دھول بن جاتے ہیں۔ جس کی ایک صورت چائلڈ لیبر کی ہے۔
چائلڈ لیبرسے مراد نوعمر اور کم سن بچوں سے محنت مشقت اور ملازمت کرانا ہے۔
یعنی بچے کو اس کے حق تعلیم و تفریح سے محروم کر کے اس کو کم عمر میں ہی
کام پر لگا دیا جائے۔ چائلڈ لیبر بچوں کے مسائل میں اہم ترین مسئلہ ہے۔
عالمی سطح پر چائلڈ لیبر کے اعداد و شمار بہت تشویشناک ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر
آرگنائزیشن(ILO) نے اس بارے میں اپنی رپورٹ بتایا ہے کہ ’’ایک اندازے کے
مطابق چوبیس کروڑ ساٹھ لاکھ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ پھر ان بچوں میں
سے تقریبا تین چوتھائی (سترہ کروڑ دس لاکھ) سخت مشقت والے کام کرتے ہیں
جیسے کہ کانوں میں کام کرنا، کیمیکلز کے ساتھ کام کرنا اور کھیتی باڑی نیز
خطرناک قسم کی مشینری کے ساتھ کام کرنا۔
چائلڈ لیبر کے بہت سے اسباب ہیں جن کے وجہ سے والدین اپنی کم سن اولاد کو
کام کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں عام طور وہ والدین جو بچوں کی
تعلیم کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے یا کسی وجہ سے خود کمانے کے قابل نہیں
رہتے یا ان کی کمائی کم ہوتی ہے مگر زیادہ افراد کی کفالت ذمہ ہوتی ہے تو
ایسے میں یہ والدین اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی کام پر لگا دیتے ہیں۔
بعض اوقات والدین کی تعلیم اور شعور میں کمی بھی اس مسئلے کا سبب بنتی ہے۔
بعض لوگوں کا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ تعلیم کا مقصد رزق کمانا ہوتا ہے۔ پس
یہ والدین بچوں کو بچپن سے ہی کسی فیکٹری، کسی موٹر مکینک یا کسی اور
ہنرمند کے پاس بطور شاگرد چھوڑ دیتے ہیں تاکہ بچہ جلد روزگار کمانے کے قابل
ہو سکے۔
آج کل سبزی فروٹ منڈیاں ،چھپر ہوٹل، ورکشاپس سے لیکر مختلف انڈسٹریز تک
چائلڈ لیبر کا گڑھ ہیں۔ سڑکوں پر گشت کرتے بچے جو حالات گردش کی بنیاد پر
مارے مارے پھرنے پر مجبور ہیں۔وہ معصوم بچے جن کے ہاتھوں میں کتابوں کا
بوچھ اٹھانے کی طاقت ہوتی ہے ان کے ہاتھوں میں یہ معاشرہ ورکشاپس کی صورت
میں اوزار تھما دیتا ہے۔
ملک بھر میں قانونی پابندی کے باوجود چائلڈ لیبر کا خاتمہ نہیں ہوا۔ چودہ
سال سے کم عمر بچوں سے نہ صرف غیر قانونی مشقت لی جاتی ہے بلکہ ان سے
جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتاہے۔ جبکہ یہ معصوم پھول تو صرف شفقت کے
حقدار ہوتے ہیں۔ جوبچے زمانے کی کڑی دھوپ کو برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتے
وہ معاشرے کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھاتے ہیں۔ انسانی حقوق کی نمائندہ
تنظیم گلوبل فاؤنڈیشن کے مطابق چائلڈ لیبر کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والے
کی سزا 20ہزارروپے جرمانہ اور ایک سال قید کی سزا کے باوجود بچوں سے غیر
قانونی مشقت لی جاتی ہے۔
پاکستان میں 33%بچے چائلڈلیبر کاشکار ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پنجاب میں
2500سے زائد بھٹوں پر پانچ سے بارہ سال عمر تک کے ایک لاکھ سے زائد بچے کام
کرنے پر مجبور ہیں۔ شہروں میں گھر کی صفائی اور چھوٹے موٹے کاموں کے لیے
تقریباًتیس ہزار بچے مصروف ہیں۔ بس اڈوں ، سبزی ،فروٹ منڈیوں ،
ہوٹلوں،ورکشاپوں اور دیگر صنعتیں تو چائلڈ لیبر کی خلاف ورزی کا گڑھ سمجھا
جاتا ہے۔
چائلڈ لیبر میں کام کرنے والے زیادہ بچے سکولوں سے بھاگے ہوئے ہیں۔ کوئی
تعلیم کے ڈر سے تو کوئی مارپیٹ اور بے رحمی کے خوف ۔ کچھ ایسے بھی بچے ہیں
جو والدین کے دباؤ سے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ بچے اچھی
زندگی اور تعلیم کے ساتھ ساتھ نفسیاتی طور پر جھگڑالو اور جرائم پیشہ بن
جاتے ہیں۔ یہ منفی طرز عمل معاشرے کے لیے ناسور بن جاتا ہے۔ جو معاشرے کی
تمام برائیوں کی ابتداء ہوتی ہے۔معاشرے میں ڈکیتی اور چوری جیسے ناسور
جرائم جنم لیتے ہیں۔
چائلڈ لیبر کے خاتمے کے اقدامات کئے جائیں تو ان سے چھٹکارا حاصل ہوسکتا ہے۔
معاشرے کی سطح پر اگر ہر آدمی اپنے پڑوسی اور رشتہ داروں میں سے غریب افراد
کی امداد کرے تو بھی بچوں کی مشقت کا خاتمہ ہو سکتا ہے کیونکہ ہر غریب فرد
کسی نہ کسی کا پڑوسی یا رشتہ دار ضرور ہوگا۔ حکومت کے فرائض میں سے ہے کہ
بے سہارا لوگوں کی کفالت کرے۔ حدیث پاک میں ہے کہ اگر کوئی آدمی قرض یا بے
سہارا بچے چھوڑے تو میں ان کا مولیٰ (سرپرست) ہوں گا۔ یہ ذمہ داری آج کے
مسلم حکمرانوں پر بھی ہے۔ اگر حکمران اپنے فرائض سرانجام دیں اور بیت المال
اور سرکاری خزانے سے ایسے بے سہارہ خاندانوں کی مدد کریں جن کا کمانے والا
کوئی نہ ہو تو چائلڈ لیبر کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ بین الاقوامی تنظیمات غریب
ممالک پر چائلڈ لیبر کے باعث پابندیاں لگا کر ان کو مزید مشکلات سے دو چار
کرنے کی بجائے ان ممالک کے غریب و مفلس افراد کی مدد کر کے ان کے مسائل کو
حل کیا جائے۔ اگر معاشرہ، ملک اور بین الاقوامی برادری اپنے فرائض ادا کرے
تو اضطراری حالات میں چائلڈ لیبر کے معاملہ کو بھی مستقل طور پر حل کر سکتی
ہیں-
افسوس حکومت چائلڈ لیبر کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔
پاکستان میں سرعام چائلڈ لیبر کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ اشد ضروری ہے کہ
اس سلسلے پر خاص توجہ دی جائے۔ ہمارا مستقبل ان بچوں میں پوشیدہ ہے اگر یہی
تاریکی میں ڈوب گئے تو اس خیال سے کوئی انکارنہیں کرسکتاکہ پاکستان کا
مستقبل تاریک ہوگا۔حکومت پاکستان کو چاہیے کہ چائلڈ لیبر کو کنٹرول کرنے کے
لیے جلدازجلد اقدامات کرے تاکہ کوئی روشنی کی کرن نظرآئے۔نہ صرف حکومت بلکہ
معاشرے کے ہر فرد کواس مہم میں حصہ دار بننا ہوگا۔ہمیں بچوں سے صرف تعلیم
کاکام لینا چاہیے اگر کوئی مجبوری ہوتو جہاں تک ہوسکے ان کی مدد کردے تاکہ
وہ بھی خود کو اس معاشرے کاحصہ سمجھ کر مثبت ردعمل ظاہر کریں۔
|