چند روز قبل اطلاع ملی کہ اسلام
آباد پریس کلب میں برادرم اشفاق ہاشمی (مرحوم) کی یاد میں ایک تقریب منعقد
ہو رہی ہے اور مجھے اس تعذیتی تقریب میں شرکت ا ور اظہار خیال کی دعوت بھی
ملی۔لیکن افسوس کہ میں ایک قریبی عزیز کی وفات کی وجہ سے اس اہم تقریب میں
شریک نہ ہو سکا،اس کا مجھے بے حد افسوس ہے۔محترم اشفاق ہاشمی سے میرے تعلق
کا سلسلہ تقریبا چالیس سال پہ محیط ہے۔والد محترم خواجہ عبدالصمد
وانی(مرحوم) اور مسلم کانفرنس کے حوالے سے ہاشمی صاحب سے لڑکپن سے ہی
شناسائی تھی تاہم والد صاحب کی وفات کے بعد ہاشمی صاحب سے ذاتی تعلقات کے
علاوہ ایک سیاسی کارکن اور تحریر نگاری بھی ہمارے تعلق کا ایک اہم موضوع بن
گیا۔ اشفاق ہاشمی ایک قابل اور محنتی سیاسی کارکن،ایک اچھے قلمکار،ایک اچھے
انسان اور نہایت حساس طبعیت کے مالک تھے۔مسلم کانفرنس سے نظریاتی وابستگی
رہی۔سردار محمد عبدالقیوم خان سے لیکر سردار سکندر حیات خان تک آزاد کشمیر
کے صدر اور وزیر اعظم کے ساتھ ان کی ٹیم میں شامل رہے۔اس دوران انہوں نے
کئی کتابیں تصنیف ،مرتب کیں۔طاہر تبسم سے اشفاق ہاشمی مرحوم کے حوالے سے
بات ہوئی تو انہوں نے بھی تصدیق کی کہ ہاشمی صاحب نے نظریاتی بنیادوں پر
لکھنے پڑہنے کا بڑا اہم کا م کیا۔اشفاق ہاشمی ایک حساس انسان تھا اور آزاد
کشمیر کے قبیلائی و علاقائی ازم اور مفاد پرستی پر مبنی حکومتی،سرکاری اور
سماجی گراوٹ کے رجحان نے اشفاق ہاشمی کے جسم کو ہی نہیں ،ان کی روح کو بھی
بری طرح گھائل کر دیا تھا۔
ایک مرتبہ اشفاق ہاشمی صاحب کی علالت کی خبر ملی۔وہ اس وقت ٹیکسلا کے قریب
رہائش پذیر تھے۔میں طاہر تبسم کے ساتھ ان سے ملنے گیا۔کافی دیر گفتگو ہوتی
رہی ۔ انہوں نے اپنی زیر طبع کتابوں کے بارے میں بھی بتایا۔برادرم اشفاق
ہاشمی سے ٹیلی فون پر اکثر بات ہوتی رہتی تھی۔ میرے کالم ،مضامین شائع ہوتے
ہی وہ مجھے فون کرتے اور آزاد کشمیر اور تحریک آزادی کشمیر کے مختلف امور
پر تفصیلی بات چیت ہوتی۔میرے اصرار پرانہوں نے اخبارات و جرائد میں لکھنے
کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور ان کی تحریریں ایک نوجوان قلمکار،سیاسی
کارکنوں اور صحافیوں کے لئے معلومات اور ہدایت فراہم کرتی ہیں۔اپنے آخری
کالموں میں شامل ایک کالم میں اشفاق ہاشمی نے لکھا کہ ’’ اب آزاد کشمیر کے
تمام معاملات تین چار برادیوں کے مفادات کے گرد گھومتے ہیں‘‘۔میری رائے میں
اشفاق ہاشمی کا یہ جملہ آزاد کشمیر کی بدتر صورتحال کی بہترین عکاسی کرتا
ہے۔
مجھے یاد ہے کہ راجہ فاروق حیدر خان کے دور حکومت میں قائد کشمیر چودھری
غلام عباس کی برسی میں چند دن رہتے تھے کہ اسی حوالے سے حکومت اور سردار
عتیق احمد خان کو ’’اہل قلم‘ کی ضرورت اور افادیت محسوس ہوئی۔اچھے قلمکاروں
کے ناموں کے انتخاب کی ہدایت ملی تو میں نے عرض کیا کہ حکومت کواہل قلم کی
ضرورت کسی قومی دن کے موقع پر ہی محسوس ہوتی ہے اور اوراس کے بعد ان کی کام
کی افادیت اور انہیں پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔کشمیر کے حوالے سے اہل قلم کے
لئے حکومت کی سرپرستی میں ایک موثر پلیٹ فارم کے لئے کوشش کی لیکن’ مدح
سرائی‘ کے انداز تحریر کو پسند کرنے والی سیاست کے نزدیک یہ غیر ضروری عمل
ہے۔کشمیر لبریشن سیل اور آزاد کشمیر کلچرل اکیڈمی کے ذریعے اہل قلم کی
صلاحیتوں سے قومی سطح پراستفادہ کیا جا سکتا تھا لیکن کشمیر کاز سے متعلق
آزاد کشمیر کے یہ ادارے بھی بدنامی کی ایک مثال بن گئے ہیں۔
راجہ فاروق حیدر خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سردار عتیق احمد خان کی
حکومت تھی،کاکا جی ہاؤس میں ایک جنازے میں شرکت کے لئے پہنچا تو وہاں
برادرم اشفاق ہاشمی سے ملاقات ہوئی اور ہم کافی دیر گفتگو کرتے رہے۔جب سے
راجہ فاروق حیدر خان کی حکومت کے خلاف سردار عتیق احمد خان عدم اعتماد کرا
کے وزیر اعظم بنے تھے،اس وقت سے ہی میں نے مسلم کانفرنس کے مرکزی سیکرٹری
اطلاعات کی حیثیت سے کام کرنا بند کر دیا تھا۔اشفاق ہاشمی مجھ پر زور دیتے
رہے کہ میں مسلم کانفرنس کو نہ چھوڑوں ،آنے والا وقت آزاد کشمیر کے لئے بہت
’’گراں ‘‘ ہو گا۔میں نے جواب دیا کہ ایسا کیوں سوچا جا رہا ہے کہ میں مسلم
کانفرنس کو چھوڑ دوں گا؟اور کیا مسلم کانفرنس نے ہی ایسے غلط اقدامات کئے
ہیں کہ جس پر کارکنوں کے ردعمل کا از خود اندازہ لگایا جا رہا ہے؟میں نے
عرض کی کہ ’’ اب رہا کیا ،اب بچا کیا؟‘‘۔اس کے بعد پیپلز پارٹی کی رواں
حکومت کے دور میں ہی مختلف واقعات،صورتحال دیکھتے ہوئے اشفاق ہاشمی صاحب نے
مجھ سے اتفاق کیا کہ مسلم کانفرنس سے متعلق میرا کہنا درست تھا۔
اشفاق ہاشمی ایک بڑا قلمکار تھا،اس کی زندگی میں اس کی قومی خدمات کا حکومت
نے اعتراف نہ کیا ۔اب آزاد کشمیر حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آزاد
کشمیر کے ایک بڑے قلمکار اشفاق ہاشمی کی علمی خدمات کا اعتراف کرے اورمرحوم
کے خاندان کی معقول مالی معاونت کی جائے۔مناسب تو یہ ہے کہ حکومت آزاد
کشمیر کے ممتاز اہل قلم کی تحریروں کو مجتمع کرنے اوران کے لئے ایک موثر
پلیٹ فارم مہیا کرنے کے اہم کام پر توجہ دے۔اشفاق ہاشمی ایک بڑا انسان
تھا،ایک قابل قلمکار تھا،ان کی گرانقدر علمی و ادبی کام اور ان کی شخصیت کا
سرکاری سطح پر اعتراف ناگزیر ہے۔اشفاق ہاشمی کاتعلق مظفر آباد سے ہے لیکن
افسوس وہاں کے اہل قلم کو ،سیاسی کارکنوں کو،صحافیوں کو اس مرد درویش کی
یاد میں تعذیتی تقریب منعقد کرنے کاخیال نہیں آیا،خیر دیر اب بھی نہیں ہوئی
،ایسا کرنا اشفاق ہاشمی کی خدمات کا اعتراف ہی نہیں ،ہمارے اپنے مقصد سے
اخلاص کے اظہار کے لئے بھی ضروری ہے۔مخصوص انداز کی داڑھی میں، عینک پہنے ،مسکراتے
ہوئے اشفاق ہاشمی کا چہرہ اب بھی میری نظروں کے سامنے ہے۔ |