یتیم بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد
(Roshan Khattak, Peshawar)
یہ دیکھ کر مجھے سخت دکھ
ہو تا ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں غریب ، غریب ہی کا گلا کاٹتا نظر آتا
ہے۔دور مت جائیے، گزشتہ کئی برسوں سے جاری دہشت گردی کی جنگ پر ہی نظر
دوڑائیے، تو آپ کو مرنے اور ما رنے والے دونوں عموما غریب طبقے کے لوگ ہی
نظر آئینگے۔اس المیہ کا ایک دلخراش پہلو یہ ہے کہ بے شمار بچے یتیم ہو جاتے
ہیں ، جن کی کفالت ، پرورش اور تربیت کی طرف اگر تو جہ نہ دی جائے تو یہی
بچے غلط ہاتھوں میں جا کرمستقبل کے ڈاکو، خود کش اور چور بن جاتے ہیں۔گزشتہ
ایک عشرے سے خیبر پختو نخوا اور فاٹا کے عوام شدید بد امنی اور عدم استحکام
سے دو چار ہیں ۔جس کے نتیجہ میں بڑے پیمانے پر قیمتی انسانی جانیں ضا ئع ہو
ئیں اور ایک بڑی تعداد یتیم بچوں کی سامنے آئی ہے۔ ایک بین الاقوامی سروے
کے مطابق اس وقت پا کستان میں یتیم بچوں کی تعداد 42لاکھ سے تجاوز کر چکی
ہے جن میں سے ایک بڑی تعداد خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقہ جات سے
ہے۔ مقامِ شکر ہے کہ وطنِ عزیز میں ایسے اشخاص اور ادارے مو جو د ہیں ،
جنہوں نے حتی ا لمقدور یتیم بچوں کی کفالت اور تعلیم و تر بیت کی ذمہ داری
سنبھالی ہو ئی ہے۔
معاشرے میں جاری کارِ خیر ہو یا کارِ بد، سماجی برائی ہو یا بھلائی، ایک
قلمکار ہو نے کی حیثیت سے اسے عوام کے سامنے لانا ہمارا فرضِ اولیں ہے۔یہی
وجہ کہ جب گزشتہ روز مجھے پشاور میں قائم، الخدمت فاونڈیشن کے زیرِ نگرانی
،آغوش نامی، ایک ایسے یتیم خانہ کے دیکھنے کا مو قعہ ملا ، جو میرے تصور سے
بالکل مختلف تھا ۔میں سمجھتا تھا کہ یتیم خانہ کی عمارت، کمرے، خوراک اور
دیگر سہولتیں بھی یتیم ہی ہوں گی یعنی کمزور، کم تر، مگر ایسا با لکل نہیں
تھا۔صاف ستھرے کمرے، صاف ستھرے واش رومز،کیچن اور ڈائینیگ رومز نا قا بلِ
یقین حد تک عین حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطا بق الغرض رہائش و تربیت کا
اتنا عمدہ نظام کہ بے اختیار اس یتیم خانہ کے انتظامیہ کو داد دینی پڑتی ہے
۔جو معاشرے کے ایسے محروم، محتاج، بے کس و بے بس یتیموں کو سہارا دینے اور
ان کی مکمل کفالت کا اہتمام کیا ہے۔ یہی ہماری دین کی اصل روح ہے۔
ہمارا مذہب یتیموں اور بے سہارا طبقے کو سہارا دینے، ان کی مکمل کفالت کرنے،
ان سے پیار کرنے اور انہیں کھانا کھلانے اور انہیں سہولتیں فراہم کرنے کی
نہ صرف تر غیب دیتا ہے بلکہ بلکہ یتیم بچوں کی کفالے کا حکم دیتا ہے اور
کہا ہے کہ دینِ اسلام کو جھٹلانے والے وہ لوگ ہیں جو یتیموں کو دھکے دیتے
ہیں ، ان سے پیار نہیں کرتے اور انہیں آ سودگی دینے کے کے لئے اپنا مال خرچ
نہیں کرتے۔قرآن جید میں اغنیاء کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مال کا ایک
حصہ غریب حاجت مندوں ، یتیموں پر صرف کریں۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہی
متقی لوگ بہشت کے با غوں میں اور چشموں کے کناروں پر عیش سے رہیں گے جن کے
مال کا ایک حصہ دنیا میں غریبوں اور ضرورت مندوں پر خرچ ہو تا تھا۔یوں تو
ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہزار خرابیوں کے با وجود پاکستانی قوم کارِ خیر
میں دل کھول کر مدد کرتے ہیں ، انہی کے دم خم سیمذکورہ بالا جیسے ادارے چل
رہے ہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن لوگوں کو اﷲ تعالیٰ نے بے حساب دولت
دی ہے ، وہ اتنا کچھ نہیں کرتے جتنا کرنا چا ہیے۔میری گزارش اتنی ہے کہ جن
لوگوں کو اﷲ تعالیٰ نے مٹھی بھر بھر کر بے حساب دولت سے نوازا ہے، انہیں
بھی مٹھی بھر بھر کر ، قطعِ نظر کسی حساب کتاب کے ایسے اداروں کی مدد کرنی
چا ہیے۔اﷲ تعالیٰ کی ذات ان کو دس گنا زیادہ عطا فر ما ئے گا۔ان مخیّر
حضرات کی مدد کے علاوہ حکومتِ وقت پر یہ لازم ہے کہ وہ یتیموں کی رہائش،
خوراک، تعلیم اور صحت کے انتظام و انصرام کا بند بست کرے اور ان یتیم بچوں
کی پرورش کا اس انداز میں بند وبست کرے کہ وہ بڑے ہو کر ملک کے مفید اور
ذمہ دار شہری بن سکیں حکومت کو اس بات کا احساس ہو نا چا ہئے کہ دہشت گردی
کے اس جنگ میں جو بچے اپنے والدین کے دستِ شفقت سے محروم ہو چکے ہیں ، اگر
آج ان کی مدد نہ کی گئی اور انہیں معاشرے میں مو جود خونیں اور ظالم عناصر
کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تو دہشت گردی کے دلدل سے نکلنا ممکن نہیں رہے
گا اور پاک سر زمین بے گناہ اور معصوم جانوں کی خون سے یوں ہی سرخ ہو تا
رہے گا ۔ |
|